اپریل 1997 میں کیپ ٹاؤن کے ایک ہسپتال سے نرس کے کپڑوں میں ملبوس ایک عورت، تین دن کی بچی کو لے کر باہر نکلی۔ اس بچی کی ماں میٹرنٹی وارڈ میں سو رہی تھی۔ اس بچی کو اس وقت تو اپنی حیاتیاتی ماں کا پتہ نہیں تھا لیکن سترہ برس کے بعد اس چرائی ہوئی بچی کو اپنی اصل ماں کا علم ہوا۔ وہ بھی محض ایک اتفاق کے ذریعے۔
جنوری 2015 میں، جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے زواناسکی ہائی سکول میں میش نامی لڑکی اپنے سکول کے آخری سال میں تھی۔ سترہ برس کی میش کو ایک دن جنوری میں اچانک اس کی سہیلیوں نے گھیر لیا اور پوچھا کہ کیا وہ نئی آنے والی اس لڑکی سے ملی ہے، جو اس سے تین برس چھوٹی ہے دیکھنے میں بلکل اس کی طرح ہے۔
میش نے ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ لیکن جب وہ کیسیڈی نرس نامی اس لڑکی سے ایک دن سکول کے ورانڈے میں ملی تو اسے اچانک ایسا لگا کہ وہ اس لڑکی کو جانتی ہے یا اس کا اس کے ساتھ کوئی رشتہ ہے۔
دونوں لڑکیوں کی عمر میں تین برس کا فرق تھا لیکن اس کے باوجود دونوں نے ایک ساتھ بہت وقت گزارنا شروع کردیا۔ لوگ انھیں چھیڑتے کہ پچھلی زندگی میں یہ دونوں بہنیں تھیں۔
ایک دن دونوں لڑکیوں نے سیلفی لی اور اپنی دوستوں کو دکھایا تو ان میں سے ایک نے میش سے پوچھا کہ کیا وہ یقین سے کہہ سکتی ہے کہ اسے گود نہیں لیا گیا۔ میش نے غصے سے اپنی دوستوں کو کہا کہ پاگل پن کی باتیں مت کرو۔
میش نے گھر جا کر تصویر اپنی ماں کو دکھائی تو اس کی ماں لاوونا نے بھی کہا کہ دونوں سہیلیاں ایک جیسی لگ رہی ہیں۔ میش کے والد مائیکل نے کہا کہ وہ اس لڑکی کو جانتے ہیں کیونکہ اس لڑکی کے والد کا قریب ہی الیکٹریکل سٹور ہے۔
لیکن جب کیسیڈی کے والدین نے یہ تصویر دیکھی تو وہ خِاموش ہوگئے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو کہا کہ تم اپنی دوست میش سے پوچھنا کہ کیا وہ 30 اپریل 1997 کو پیدا ہوئی تھی؟
میش سے جب اپنی سہیلی نے یہ سوال کیا تو اس نے کہا کہ ہاں میں اسی دن پیدا ہوئی تھی۔
کچھ دن بعد میش کو اس کے پرنسپل نے اپنے کمرے میں بلایا جہاں سوشل سروسز کے کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ سوشل سروسز مشرقی ملکوں میں ایک ایسا ریاستی ادارہ ہوتا ہے جو کہ بچوں اور بڑوں کی فلاح کے لیے کام کرتا ہے۔ سوشل سروسز کے ایک رکن نے میش کو بتایا کہ 17 برس پہلے زیفنی نرس نام کی ایک بچی کو گروٹ شور ہسپتال سے اغوا کر لیا گیا تھا اور وہ آج تک نہیں ملی۔
میش کو یہ نہیں سمجھ آیا کہ وہ اسے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے پھر میش سے کہا کہ انھیں شک ہے کہ میش ہی 17 سال قبل چرائی جانے والی بچی زیفنی نرس ہے۔
میش نے ان سے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ گروٹ شور ہسپتال میں نہیں بلکہ وہاں سے بیس منٹ دور ریٹریٹ ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔ لیکن سوشل سروسز کے اہلکاروں نے کہا کہ اس ہسپتال میں میش کی پیدائش کا کوئی ریکاڈ نہیں۔
میش کو یقین نہیں آیا لیکن اس نے ان کے اطمینان کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی حامی بھری۔
میش نے کہا کہ مجھے اپنی ماں پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ میرے ساتھ اتنا بڑا جھوٹ نہیں بولیں گی اور اسی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ میں ان ہی کی بیٹی ہوں۔
لیکن اگلے ہی دن ٹیسٹ کے جب نتائج آیے تو اس میں یہ ثابت ہوگیا کہ میش ہی زیفنی نرس ہے جسے 17 سال پہلے چرا لیا گیا تھا۔
مییش کہتی ہیں کہ یہ خبر سن کر ان کے پیر سے جیسے زمین نکل گئی ہو۔
17 برس قبل چرائی جانے والی بچی کے اپنے اصل والدین سے ملنے کی اس خبر کو دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینیلوں نے نشر کیا۔
میش کیونکہ 18 برس کی نہیں تھی تو اسے اس عمر تک پہنچنے تک تین ماہ کا عرصہ سوشل سروسز کے ساتھ گزارنا پڑا۔ جس کے بعد وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے رہ سکتی تھی۔
لیکن میش کو ایک اور جھٹکا اس صورت میں لگا جب اسے پتہ چلا کہ اس عورت جسے وہ اپنی ماں کہتی ہیں، اغوا کے کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔
میش کے والد کے ساتھ جب پولیس تفتیش کررہی تھی تو میش بھی وہاں موجود تھی۔ اس کےوالد مائیکل بہت ہی نرم مزاج انسان تھے۔ پولیس یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا اس کے والد اغوا کے کیس میں شامل تھے یا نہیں۔
لیکن تفصیلی چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ اس کے والد بے قصور تھے۔ مائیکل نے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیوی حاملہ تھیں تو تب وہ شہر میں نہیں تھے۔
پولیس کے مطابق تفتیش اور واقعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میش کی ماں کہنے والی لوونا کا حمل گر گیا تھا اور انھوں نے یہ بات اپنے شوہر سے چھپائی اور حاملہ ہونے کا ڈرامہ کرتی رہیں۔ جب ڈیلیوری کا وقت آیا تو وہ میش کو قریبی ہسپتال سے چرا کر گھر لے آئیں۔
لوونا سولومون کا مقدمہ کیپ ٹاؤن کی عدالت میں اگست 2015 میں چلا۔ لوونا کے بیان کو سننے کے لیے عدالت میں میش کے حیاتاتی ماں باپ بھی موجود تھے۔ لوونا نے اپنے بیان میں کہا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور حاملہ ہونے کی متعدد کوششوں کے بعد انھیں ایک سلویا نامی خاتون نے ایک بچی دینے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی۔
پولیس کو تو سلویا نام کی اس خاتون کا کوئی سراغ نہیں ملا لیکن میش کے اغوا کیے جانے کی رات کو ایک عورت جو کہ قریبی سٹریچر پر لیٹی تھی، اس نے لوونا کو پہچان لیا اور عدالت کو بتایا کہ 17 برس قبل لوونا نرس کے لباس میں ایک بچی کو گود میں لیے تیزی سے ہسپتال سے گزر رہی تھی۔
’میں روزانہ 200 سیلفیاں لیتا ہوں‘
گواہوں کے بیانات اور پولیس کی تفتیش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عدالت نے لوونا سولومن کو دس سال قید کی سزا سنائی۔
اس واقعے کو اب چار سال بیت چکے ہیں۔ میش، لوونا سولومان کو اب بھی ماں کہتی ہیں اور ان سے جیل میں ملاقات کرنے جاتی ہے۔ اسے امید ہے کہ لوونا ایک دن انھیں سچ ضرور بتائے گی۔
لوونا نے میش سے جیل میں ملاقات کے دوران کہا کہ ایک دن وہ ضرور میش کو سچ بتائیں گی۔
میش جب 18 برس کی ہوگئیں تو وہ اپنے حیاتاتی خاندان کے ساتھ نہیں بلکل واپس اس گھر میں گئیں جہاں وہ ہمیشہ سے رہی ہیں۔ اس انسان کے پاس جنھیں وہ اپنا باپ تصور کرتی ہیں۔
ان کے مطابق وہ اپنے حیاتاتی خاندان کے پاس نہیں رہنا چاہتیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا رشتہ بنانے میں ناکام رہی ہیں اور انھیں کبھی کبھار یہ سوچ کر ان پر غصہ بھی آتا ہے کہ انھوں نے اس عورت کو میش سے چھین لیا جسے وہ ماں کہتی تھیں۔
لوونا سلومان 120 کلومیٹر دور ورسٹر نامی جیل میں ہیں۔ان کی رہائی میں اب، چھ سال باقی رہ گئے ہیں۔
لوونا کی بیٹی کہلانے والی میش کے اب اپنے دو بچے ہیں اور میش کی خواہش ہے کہ وقت تیزی سے گزر جائے کیونکہ وہ اب اپنی ’ماں’ کے واپس گھر آنے کا انتظار کررہی ہیں۔
میش کی کہانی جوئین جوول کی کتاب: “زیفنی: ٹو مدرز ون ڈاٹر” میں بتائی گئی ہے۔