آدم بو نہیں، عورت بو


” اور جب وہ ناک سکیڑتا اور چلاتا،آدم بو، آدم بو “

تو ہمارا دل وہیں بیٹھ جاتا

اوہ خدایا، آخر کار ظالم جادوگر اور جنوں کے گروہ نے مظلوم شہزادے کا سراغ لگا لیا جو شہزادی کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔ اب کچھ ہی دیر میں وہ اسے کھوج نکالیں گے، کچا چبا جائیں گے اور شہزادی ساری عمر قید میں گزار دے گی، کبھی اپنے گھر واپس نہ جا سکے گی۔ 

ہمارا ننھا سا دل سہم جاتا، ہمارے آنسو ٹپ ٹپ گرتے، غم کا بادل چھا جاتا اور ہم بستر میں منہ چھپا کے خوب روتے۔ 

یہ ہمارا بچپن تھا، ہمارا گھر کتاب دوست گھر تھا جہاں ہر عمر کے پڑھنے والوں کے لیے سب ساماں میسر تھا۔ طلسم ہوشربا میں امیر حمزہ کی بہادری کے ہم مداح تھے اور عمرو عیار کی عیاریاں ہمیں مزا دیتی تھیں۔ ان کتابوں میں پائے جانے والے وہ سب شہزادے شہزادیاں ہمارے ساتھ بڑے ہوئے یا یوں کہیے کہ ہم ان داستانوں کے ساتھ بڑے ہوئے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب سب کزنز اکھٹے ہوتے، ہماری فرمائش پہ ایک کھیل ضرور کھیلا جاتا جس میں ہم ہمیشہ شہزادی بنتے۔ ہمارے کزن شفقت کو اکثر دربان کا کردار ملتا اور انہیں آج تک اس کا گلہ ہے۔ 

آدم بو، آدم بو کہنے والے انہی داستانوں کے کردار تھے اور یہ فینٹسی کی دنیا تھی۔ بچپن بیت چکا، زندگی کی تیز دھوپ میں فینٹسی کی حقیقت کھل چکی۔ لیکن ہمیں جانے کیوں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ طلسم ہوشربا کے دروازے کھل چکے اور داستانوں کے اوراق سے ایک نہایت بدصورت اور خوفناک مخلوق آزاد ہو کے ہر طرف بلا جھجک، آزادی اور اختیار سے پھر رہی ہے، ناک سکیڑے ہوئے، سونگھنے کی بھرپور کوشش، عیار آنکھیں گول گول گھماتی، شکار کو ڈھونڈتی اور منہ پہ الفاظ ہیں، 

” عورت بو، عورت بو “

دن رات ریپ کے واقعات، چھوٹی بچیوں سے زیادتی، چھوٹے بچوں کی معصومیت کی تباہ کاری،اجتماعی زیادتی کی شکار عورتیں، منہ پہ تیزاب کا شکار عورتیں، سڑکوں پہ بھوکی نظریں، بسوں میں سانپ جیسے رینگتے ہاتھ، دفتروں میں ٹپکتی رالیں، سینیئرز کا اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کا شوق، محفلوں میں معنی خیز الفاظ، گھروں میں بڈھے ٹھرکی رشتےدار، بھوکے ملازم، جوانی کی سرحدوں پہ قدم رکھتے کزنز!  

ایک ہی خیال ہے، ایک ہی بھوک ہے، ایک ہی بو ہے جس کا تعاقب ہے، 

عورت بو

آپ یقین جانیے یہ سب دیکھ کے، محسوس کرتے ہوئے میں شدید مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہوں۔ خود بھی عورت ہوں اور دو بیٹیوں کی ماں بھی۔ نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوئی اور نہ ہی اپنی مرضی سے اس جسم کی مالک بنی۔ اردگرد جو شکاری گھوم رہے ہیں وہ بھی اسی جبر کی پیداوار ہیں، نہ اپنی مرضی سے آئے اور نہ ہی اپنی مرضی سے جسم کے مالک

پھر ایسا کیا کہ ان کے دماغ پہ ہمہ وقت ایک ہی طلب،ایک ہی نشہ

اور یہ بات بھی تو سمجھنے والی ہے کہ کائنات بنانے والے نے ہر مخلوق کو ایک اصول کے تحت پیدا کیا۔ جانور میں طلب ڈالی مگر عقل کے بنا، وہی طلب حضرت انسان میں پر عقل کی پاسبانی کے ساتھ۔ پھر ایسا کیا ہوا، کہ عقل ہوئی تماشائے لب بام اور خواہش ہے کہ عورت بو، عورت بو پکارتی تباہی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ 

کیا مرد کی خواہش اس قدر شدید ہے جو اسے سب اخلاقی حدود و قیود بھلا کے جانور بننے پہ مجبور کر دیتی ہے؟

کیا وہ سب جانور بننے والے مرد کہیں اور کسی اور مقام پہ باپ، بھائی، شوہر کہلائے جاتے ہیں؟

کیا وہ سارے مرد جو ایک اجنبی عورت کو دیکھ کے اپنی طلب کو قابو نہیں کر پاتے، اپنے گھر کی عورت پہ کسی اور کی ایسی نظر برداشت کر سکتے ہیں؟

کیا کبھی کسی مرد نے عیاشی کے ان لمحوں میں یہ سوچا کہ کبھی کہیں اور ان کی بیٹی بھی کسی اور مرد کے رحم وکرم پہ ہو سکتی ہے؟ جو بد فعل کسی دوسری عورت کو دیکھ کے کرنے کی چاہت ہے، وہ کوئی ان جیسا کہیں اور چاہ رہا ہو گا۔ 

ہمارے خیال میں طوائفی کردار کے مالک یہ مرد اپنے گھر کی عورت کو سات پردوں میں رکھنے کا انتظام کرتے ہیں۔ گھر کی بلند وبالا دیواروں میں مزید سلاخیں لگواتے ہیں، عورت کی آواز تک دفن کر دیتے ہیں اور پھر باہر گندی گرسنہ نگاہوں سے دامے درمے سخنے شکار کرتے ہیں، جس کو جتنا موقع مل سکے اور حد تو نیلا آسمان ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ مرد کیوں اپنے آپ کو عورت کی عزت کرنے کی اخلاقی ذمہ داری سے آزاد سمجھتا ہے؟ وہ کیوں ہر عمل میں آزاد ہے؟ وہ کیوں یہ فرض کیے بیٹھا ہے کہ جو چاہے، جب چاہے عورت کے ساتھ کر گزرے۔ دنیا کا کوئی قانون، کوئی فلسفہ اور کوئی مذہب مرد کو ایسی کھلی چھوٹ نہیں دیتا۔ دنیا نہ تو جنگل ہے اور نہ ہی شکار اور شکاری کا کھیل۔ 

مرد اور عورت مہذب دنیا کے ایسے باسی ہیں جن کی عزت بنا کسی جبر اور بنا کسی تعلق کی بنیاد پہ ہونی ہے۔ عورت برابری کی سطح پر خلق کی گئی ہے۔ دونوں کی ذمہ داری و اختیار کا دائرہ مختلف ضرور تھا مگر عورت کی دماغی اور تخلیقی صلاحیت کہیں کمتر نہیں تھی۔ مرد نے بقا کی جنگ میں جنگلی جانوروں کا شکار کرتے کرتے عورت کو بھی اسی قطار میں لا کھڑا کیا۔ نہ جانے یادداشت کا زائل ہونا تھا یا جسمانی قوت کا زعم، کہ وہ اپنی زندگی کے اولین ساتھی جو تخلیق کے وقت بھی ساتھ تھی، اسے بھی بھلا بیٹھا۔ 

اس سارے قصے میں ہنسی ان نیک بیبیوں پہ آتی ہے جو مرد کی اس بےراہروی کے جواز گھڑتے ہوئے عورت کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جان لیجیے کہ آزاد اور کسی پرندے کی طرح آسمان کی بلندیوں پہ پرواز کرتی عورت انہیں بھی بھاتی ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ان کے پر تو کاٹے جا چکے ہیں، خود ساختہ نیک پروین بننے کا جام شیریں پی چکی ہیں، معاشرے کے مرد کی تھپکی پشت پہ ہے۔ مرد سے نیک عورت کا تمغہ پانے کا لالچ، یا اپنی تشنگی دل کا علاج یہ ہے کہ اپنی ہی ہم نفس کو راندۂ درگاہ ٹھہرایا جائے۔ لباس سے لے کر پروفیشن سے ہوتے ہوئے، زندگی کے فیصلے آزادی سے لے لینے کی عیاشی سے لے کے اپنی ذات کے متعلق سوچنے تک، ہر پہلو سے سنگ باری کی جاتی ہے اور ایسی عورت کے ساتھ کیے جانے والے ہر سلوک اور طرز عمل کی توجیہ گھڑ کے مرد کو باعزت بری کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ 


معاشرے کو ایک طرز نو پہ رکھنا، کمزور افراد کے استحصال پہ نظر رکھنا اور بچاؤ ریاست کا کام ہوا کرتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس سارے قصے میں جنگل کے بادشاہ اور حواریوں کے دماغ میں بھی عورت کا وہی ایک کردار ہے، گھر کی چاردیواری کے اندر ایک قوت گویائی سے محروم ایک کھلونا۔ اور اس حد کو ماننے سے انکار پہ جنسی تشدد کی حقدار چاہے وہ کوئی کم عمر معصوم بچی ہی کیوں نہ ہو جو گلی کے نکڑ پہ ایک غبارے کی چاہ میں گئی ہو۔ 

سو عورت وہ بد قسمت مخلوق ہے جس کے لئے تاج محل جیسی یادگار جنم لے سکتی ہے۔ جس کی یاد میں ہسپتال بنایا جا سکتا ہے لیکن زندگی کی سنگلاخ راہوں میں اسے عزت کی نظر سے نہیں نوازا جا سکتا۔ اسے “عورت بو” کا شکار ہونا ہی ہے کہ شکاری ہر طرف اس بو کے تعاقب میں ہے آخر یہ ان چاہی مخلوق ہوس اور مفروضہ بالادستی کے کھیل میں روندے جانے ہی کے لئے تو تخلیق ہوئی ہے۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔