آپ اپنے دل کی باتیں کس سے کرتے ہیں؟


میری مریضہ نینسی جب میرے کلینک کے ویٹنگ روم میں ہوتی ہے اور میری سیکرٹری یا دیگر مریضوں سے بات چیت کر رہی ہوتی تو ہنستی کھیلتی رہتی ہے لطیفے اور چٹکلے سناتی ہے اور قہقہے لگاتی ہے لیکن جونہی میرے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرتی ہے تو کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی ٹیشو باکس اٹھاتی ہے اور منہ سے کچھ کہنے سے پہلے آنسو بہاتی ہے اور رو رو کر اپنی بپتا سناتی ہے۔

نینسی اوپر سے بہت سکھی لیکن اندر سے بہت دکھی عورت ہے۔

یہ جو ٹھہرا ہوا سا پانی ہے

اس کی تہہ میں عجب روانی ہے

ایک عورت جو مسکراتی ہے

اس کی غمگیں بہت کہانی ہے

ایک دن نینسی نے مجھے بتایا کہ وہ ہر صبح جب کام پر جاتی ہے تو سارا راستہ روتی رہتی ہے لیکن اپنے دفتر کے پارکنگ لوٹ میں پہنچ کر وہ کار روکتی ہے ’آنسو پونچھتی ہے اور میک اپ کرتی ہے پھر سارا دن وہ دفتر میں ہنستی کھیلتی اور لطیفے سناتی رہتی ہے۔ نینسی نے کہا ’ڈاکٹر سہیل ! آپ کے علاوہ اس دنیا میں کوئی شخص میرے دل کا حال نہیں جانتا۔ میں کسی پر اتنا اعتماد نہیں کرتی کہ دل کی باتیں بتائوں وہ نجانے کسے بتا دے اور میرے راز فاش ہو جائیں۔

کیا گھر والوں کو بھی پتہ نہیں؟

نہیں بالکل پتہ نہیں۔ میں جب اپنے گھر میں بھی دکھی ہو جاتی ہوں تو غسل خانے میں جا کر شاور لینا شروع کر دیتی ہوں تا کہ شاور کے پانی میں میرے آنسو مل جائیں۔

ایک دن نینسی نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک سہیلی پر اعتبار کیا اور اسے اپنی ایک درد بھری کہانی سنائی۔

تو تمہاری سہیلی نے کیا کہا؟ میں متجسس تھا

سہیلی نے کہا تم مزاحیہ شو دیکھنے جایا کرو دل بہل جائے گا

نینسی تمہارا اپنی سہیلی کے مشورے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

نینسی کے چہرے پر زہرخند مسکراہٹ پھیل گئی کہنے لگی ڈاکٹر سہیل کیا آپ نے کامیڈین والی کہانی سنی ہے؟

نہیں مجھے بتائو۔

نینسی نے مجھے بتایا کہ یورپ میں ایک ڈیپریشن کے مریض کو جب پہلی ملاقات کے بعد ماہرِ نفسیات نے مشورہ دیا کہ وہ شہر کے STAND UP COMEDIAN کا شو جا کر دیکھے تو وہ مریض جب گیا تو دوبارہ نہ آیا۔ ماہرِ نفسیات نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس مریض نے خود کشی کر لی ہے اور شہر کا سٹینڈ اپ کامیڈین شو بند ہو گیا ہے کیونکہ ماہرِ نفسیات اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ وہ کامیڈین ہی مریض بن کر اس کے پاس آیا تھا جو ساری دنیا کو دن بھر ہنساتا تھا لیکن ساری رات خود ڈیرپیشن کی آگ میں جلتا رہتا تھا۔

ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں اپنے تیس سالہ تجربے مشاہدے مطالعے اور تجزیے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ نفسیاتی مسائل وہ ان دیکھے زخم ہیں جو انسانوں کی زندگی میں SILENT SUFFERING پیدا کرتے ہیں۔ یہ وہ دکھ ہیں جو لوگوں کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھائے جاتے ہیں اور اس دکھ سے لوگوں کے قریبی دوست اور رشتہ دار بھی بے خبر ہوتے ہیں۔

بہت سے لوگ اپنی جسمانی بیماری کا ذکر بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ

مجھے شوگر ڈائباٹیز ہے

 مجھے ہائی بلڈ پریشر ہے

یا مجھے خون کا کینسر ہے

لیکن یہ کہتے ہوئے شرماتے ہچکچاتے اور گھبراتے ہیں کہ

مجھے ڈیپریشن ہے

مجھے پینک ڈس آرڈر ہے

یا مجھے اینزائٹی ہے

لوگ ڈرتے ہیں کہ دوسرے لوگ انہیں دیوانہ سمجھیں گے اور پاگل خانے جانے کا مشورہ دیں گے یا یہ سمجھیں گے کہ وہ ایک خطرناک انسان ہیں۔

نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریاں آج بھی دنیا کے کئی معاشروں اور ممالک میں ٹیبو ہیں، سٹگما ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔

جب سے میں نے ‘ہم سب’ پر کالم لکھنے شروع کیے ہیں نوجوان مردوں اور عورتوں کے خطوط کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔کچھ نوجوان اپنے نفسیاتی مسائل اور کچھ اپنے جنسی مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔ وہ مجھے خط کیوں لکھتے ہیں ؟ شاید اس لیے کہ میں ایک ماہرِ نفسیات ہوں یا اس لیے کہ میں ہزاروں میل دور ہوں یا اس لیے کہ میں ان کے مسائل ہمدردی سے سنتا ہوں۔مجھے اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے انہیں وہ جگہ وہ SPACE مہیا کی ہے جو میری نوجوانی کے دور میں نہیں تھی۔

ہر دور کے مسائل جداگانہ ہوتے ہیں۔ہر عہد کے نوجوانوں کے نئے مسائل ہیں جنہیں ہم اس عہد کی نفسیات اور سماجیات کے حوالے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے بعض بزرگ جدید مسائل کا حل قدیم فلسفوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مایوس ہوتے ہیں کہ نوجوان ان کے مشورے نہیں مانتے۔

پچھلے دنوں مجھے ایک پاکستانی نوجوان کا فون آیا۔ کہنے لگا میں کینیڈا کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا ہوں۔یہاں پاکستان کے دس پندرہ خاندن آباد ہیں جو مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ وہ مجھے اپنے گھروں میں بلاتے ہیں اور ڈنر کھلاتے ہیں۔

تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ میں متجسس تھا

کہنے لگا وہ پاکستانی آنٹیاں جو مجھ پر مہربان ہیں وہ میرے لیے رشتے تلاش کرتی رہتی ہیں۔ وہ میری کسی دخترِ خوش گل سے شادی کروانا چاہتی ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ میں گے ہوں۔ اسی طرح وہ انکل جو مجھ سے شفقت سے پیش آتے ہیں وہ مجھے ہمیشہ جمعے کی نماز کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ میں دہریہ ہوں۔

اگر میں نے ان آنٹیوں اور انکلوں کو اپنا سچ بتا دیا تو وہ میرا سماجی بائیکاٹ کر دیں گے۔

کہنے لگا ڈاکٹر سہیل میں آپ کے ‘ہم سب’ کے کالم پڑھتا ہوں اسی لیے آپ سے رابطہ قائم کیا ہے تا کہ اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ کر سکوں۔

چند ہفتے پہلے مجھے مشرقِ وسطیٰ کے ایک شادی شدہ مرد کا فون آیا۔ کہنے لگا میرے والدین نے تین سال پہلے میری روایتی انداز سے شادی کر دی۔ لیکن مجھے اپنی بیوی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں گے مرد ہوں اور مردوں سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ میری بیوی کہتی ہے مجھے طلاق دے دو۔ پھر نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ ڈاکٹر سہیل آپ کا کیا مشورہ ہے؟ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ چاہے تم گے کلوزٹ میں رہو یا اپنے سچ کا کھل کر اظہار کرو یہ تمہاری مرضی ہے۔ لیکن تم اپنی بیوی کو آزاد کر دو تا کہ وہ کسی ایسے مرد سے شادی کرے جو اس سے محبت کرتا ہو۔ میں نے کہا تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک عورت کو محبت اور خوشحال ازدواجی زندگی سے محروم رکھو۔

اس کالم لکھنے کا ایک مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہر انسان کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے کہ اس کی زندگی میں کم از کم ایک انسان ایسا ہو جس سے وہ اپنے دل کی باتیں کر سکے۔ وہ شخص ایک ہمسایہ بھی ہو سکتا ہے ایک کزن بھی ایک تھیرپسٹ بھی اور ایک فیس بک فرینڈ بھی۔ایسا دوست جو پند و نصائح دینے اور فتوے لگانے کی بجائے ہمدردی سے دل کی باتیں سن سکے۔ مرزا غالب کسی ماہرِ نفسیات سے کم نہ تھے جب انہوں نے یہ شعر لکھ کر ہمیں دوستی کا راز بتایا تھا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنیں ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا