عقابوں پر تحقیق: ڈیٹا رومنگ کے چارجز مالی بوجھ بن گئے


سائبیریا کا مقامی عقاب جسے ’سٹیپ ایگل‘ کہا جاتا ہے

بدلتے موسموں کے ساتھ عقابوں کی ایک علاقے سے دوسرے کی جانب حجرت کا مطالعہ کرنے والے روسی ماہرین کا منصوبہ اس وقت مالی مشکات کا شکار ہو گیا جب کچھ عقاب پاکستان اور ایران کی فضاؤں میں پہنچ گئے۔

مالی مشکلات کی وجہ یہ تھی کہ ان عقابوں پر لگے ہوئے ٹرانسمٹرز سے آنے والے ایس ایم ایس پیغامات کے لیے ٹیم کو ڈیٹا رومنگ چارجز کی صورت میں بہت زیادہ رقم ادا کرنا پڑ گئی۔

یہ بھی پڑھیے:

جھپٹنا، پلٹنا: عقاب کے شکار کے ڈرامائی مناظر

’بازوں کی غیر قانونی تجارت پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ‘

تحقیقی ٹیم کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے روسی موبائل کمپنی میگافون نے واجب الادا رقم معاف کر کے عقابوں کو خصوصی ماہانہ ٹیرف پر ڈالنے کی پیشکش کر دی ہے۔ 

اس سے قبل ٹیم نے سوشل میڈیا پر لوگوں سے اس منصوبے کے لیے مالی مدد کی اپیل کر دی تھی تا کہ وہ ایس ایم ایس پیغامات کے بِل ادا کر سکیں۔

ان عقابوں نے اپنے سفر کا آعاز جنوبی روس اور قزاقستان سے کیا تھا۔ 

ٹیم کو سائبیریا میں رہنے والا ’مِن‘ نامی عقاب خاص طور پر مہنگا پڑا کیونکہ یہ قزاقستان سے ہوتا ہوا ایران کی جانب نکل گیا۔ 

موسم گرما کے دوران جب مِن قزاقستان میں تھا تو وہ وہاں سے مسلسل ایس ایم ایس بھیجھتا رہا لیکن چونکہ وہ نیٹ ورک کی رینج سے باہر تھا، اس لیے اس کے بھیجے ہوئے پیغامات جمع ہوتے رہے۔ 

پھر ٹیم کی توقعات کے برعکس مِن سیدھا ایران کی فضائی حدود میں داخل ہو گیا۔ جب وہ ایران پہنچا اور نیٹ ورک کے ساتھ اس کے ٹرانسمٹر کا رابطہ بحال ہو گیا تو ٹیم کو بے شمار رُکے ہوئے پیغامات ایک ساتھ موصول ہو گئے۔ 

قزاقستان سے روس آنے والے ایک ایس ایم ایس کی قیمت تقریباً 15 رُوبل (آج کے ریٹ کے مطابق 36 پاکستانی روپے) ہے جبکہ ایران سے 49 رُوبل ( 120 روپے)۔ یوں مِن اکیلے نے وہ تمام رقم خرچ کر دی جو ٹیم نے اصل میں تمام عقابوں سے موصول ہونے والے الیکٹرانک ڈیٹا کے لیے مختص کی ہوئی تھی۔ 

روسی ماہرین کی ٹیم یہ تحقیق رضاکارانہ طور پر نووسبرسک کے مقام پر واقع جنگلی حیات کی بحالی کے مرکز ’وائیلڈ اینیمل ریہیب سینٹر‘ کے لیے کر رہی ہے۔ 

ٹیم نے سوشل میڈیا پر ’عقاب کا موبائل ٹاپ اپ کیجئیے‘ کے نام سے جو مہم چلائی تھی اس کے نتیجے میں ٹیم نے موبائل کمپنی کا 1,223 پاؤنڈز (تقریباً دو لاکھ 45 ہزار روپے) سے زیادہ کا بِل ادا کر دیا ہے۔ 

عقابتصویر کے کاپی رائٹRRRCN SCREENSHOT

عقابوں کے جسم کے ساتھ لگے ہوئے ٹرانسمٹر سے جو ایس ایم ایم موصول ہوتا ہے، اس سے ٹیم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ پرندہ اس وقت کہاں پہنچا ہے، جس کی بعد ٹیم سیٹلائیٹ کے ذریعے دیکھتی ہے کہ آیا پرندہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ گیا ہے یا نہیں۔

یاد رہے کے سائبیریا کے گھانس پھونس والے علاقوں میں رہنے والے عقابوں کو روس اور وسطی ایشیاء میں معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے اور ان علاقوں میں بجلی کی تاریں ان کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ 

تحقیقی ٹیم ان دنوں کل 13 عقابوں کی سالانہ حجرت کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہ عقاب انڈے سائبیریا اور قزاقستان میں دیتے ہیں لیکن موسم سرما میں جنوبی ایشاء کی جانب اُڑ جاتے ہیں۔ 

ایک روسی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ میگافون کی طرف سے موبائل بِل معاف کر دینے کی پیشکش کا مطلب یہ ہے کہ ٹیم ان عقابوں پر تحقیق جاری رکھ سکتی ہے جس سے ان پرندوں کے بچاؤ کے بہتر طریقے تلاش کیے جا سکیں گے۔