ثقافت کی اسی چادر تلے ہم اپنے بہت سے قبیح گناہ بھی چھپاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، بچوں سے جنسی زیادتی پر خاموشی، بیٹیوں کو کاٹ کر نہر میں بہانا اور کبھی دس سال کی بچی کو کسی ستّر سال کے بوڑھے کے ہاتھوں بیچ دینا، سب کے لیے کوئی نہ کوئی ثقافتی توجیح موجود ہے۔ یہ قبائلی کلچر ہے، صدیوں سے ہوتا آیا ہے، بات کرنے سے گھر والے بدنام ہوں گے، ذات برادری پر الزام لگے گا، اور ملک کی بدنامی تو اتنی شدت سے ہوتی ہے کہ یہ تقریباً ہماری قومی بیماری ہے۔
کبھی کبھی اس بات پر بحث ضرور ہوتی ہے کہ کیا ہماری ثقافت عرب کے بدوؤں کی ثقافت ہے، وسطی ایشیا سے آئے گُھڑ سواروں کی ثقافت ہے یا یہاں کے قدیم باسیوں کی ثقافت ہے جنھوں نے جنگلوں میں بھٹکتی بلاؤں سے خوف زدہ ہوکر نئے عقیدے اپنائے، ان کے ملغوبے سے بنی ایک ہر دم بدلتی اپنے آپ سے لڑتی ثقافت ہے۔
ان سب سوالوں کا جواب اسی ہفتے کے اوائل میں کراچی میں مل گیا۔ کراچی کی بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ عدیلہ سلیمان نے کراچی بینالے کے تحت فریئر ہال میں ایک نمائش سجائی۔ چار سو چوالیس قبروں کے علامتی کتبے ان پر دھات کے مرجھائے ہوئے پھول، اندر چھ منٹ کی ایک فلم جس میں کراچی کے بہادر بچے ایس پی راؤ کے ہاتھوں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے تقیب اللہ محسود کے والد، ان کی تھر تھراتی پگڑی اور سمندر کی طرف دیکھتی ان کی آنکھیں۔
نمائش کی تیاری کئی مہینوں سے جاری تھی، یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نمائش کے منتظمین کو پتا نہ ہو کہ کئی مہینوں سے عدیلہ سلیمان اپنے سٹوڈیو میں کتنا بڑا تخریب کاری کا پراجیکٹ تیار کر رہی ہے۔ نمائش کے کھلنے کے دو گھنٹے کے بعد پاکستان کے نمبر ون ادارے کی پانچ نمبر کور سے شناخت کرنے والے اہلکار پہنچے اور نمائش کو تالا لگایا اور چلے گئے۔
ابھی تک یہ پتا تھا کہ پاکستان کا نمبر ایک ادارہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا محافظ بنے۔ یہ علم نہیں تھا کہ ہماری آرٹ گیلریوں کی نگہبانی کی اضافی ذمہ داری بھی ان کے پاس ہے۔
کور پانچ کو کوئی چیز بند کرنے کے لیے کوئی وجہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف یہی کافی ہے کہ کور 5 سے آئے ہیں۔ کراچی کے کچھ مستقل مزاج احتجاجی کارکن اکھٹے ہوئے جو کتبے باہر تھے ان کے ساتھ لیٹ گئے۔ ایک پریس کانفرنس شروع ہوئی جس ہر ڈی جی پارکس پہنچے مائیک اٹھائے اور کیونکہ سویلین تھے اس لیے بتانا بھی پڑا کہ جو کر رہے ہیں کیوں کر رہے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ جو عدیلہ سلیمان نے کیا ہے یہ تو آرٹ ہے ہی نہیں، نری بدمعاشی ہے اور جی ہاں اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔۔۔۔ آرٹ کی نمائش کی اجازت دی تھی نعرے بازی اور بدمعاشی کی نہیں۔ کوئی ستم ظریف یہ کہے گا کہ پارکس کا سربراہ گملوں، پودوں اور گھاس کی فکر کرے، اسے کیا حق ہے کہ یہ فیصلہ کرے کہ آرٹ کیا ہے اور کیا نہیں۔
لیکن پھر آپ یہ بھی کہیں گے کہ پاک فوج کے ترجمان کو فوجی معاملوں پر ترجمانی کرنی چاہیے، یہ نہیں بتانا چاہیے کہ ک کنگنا کا آئٹم نمبر کیوں ہماری قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
یہاں تک تو جسے لاہور میں کہتے ہیں گڈ ہو گیا یعنی کور پانچ اور محکمہ پارکس میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ آرٹ کیا ہے غیر آرٹ کیا ہے، ملک کی بدنامی 444 بندے مارکر ہوتی ہے یا ایک نمائش میں 444 کتبے لگا کر مرحوم کی یاد تازہ کرنے سے۔
اب بچے تھے نمائش کے منتظمین جس میں ملک کے انتہائی محترم اور سینیئر آرٹسٹ شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بورڈ میں ایک سے ایک بڑا سیٹھ ایک سے بڑا آرٹ کا گرویدہ۔ ابھی نمائش میں کتبوں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری تھا کہ منتظمین نے ایک بیان جاری کیا جو کہ بیان سے زیادہ جدید آرٹ کا نمونہ ہے۔ نام لیے بغیر کہا گیا کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ عدیلہ سلیمان کر کیا رہی ہے۔ ہماری تو نمائشوں کا موضوع طے ہے کہ ہم ماحولیات وغیرہ پر آرٹ بنا سکتے ہیں۔ ایس پی راؤ انواریہ 444 کتبے یہ نقیب محسود کے والد کی پگڑی ہمارا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
میں نے صحافی بھائیوں کو کبھی کبھی ایک دوسرے کی پشت میں خنجر اتارتے دیکھا ہے۔ یہاں تو آرٹسٹوں کے پورے قبیلے نے اعلان کر دیا کہ عدیلہ سلیمان کے ساتھ جو کرنا ہے کر لو کیونکہ اس نے ثقافتی طور پر ایک حساس مسئلے کو چھیڑا ہے جو کہ ایک ذمہ دار شہری کو نہیں کرنا چاہیے۔ تو راؤ انوار ٹھہرا ہماری ثقافتی طور پر حساس مسئلہ، 444 کتبے ٹھہرے ہمارے ملک کی بدنامی اور باعث، نقیب محسود کے والد کی سوال پوچھتی آنکھیں ٹھہریں گستاخی۔
جب آخر میں 444 کتبوں کے ملبے کو نامعلوم افراد نے نامعلوم سڑکوں میں ڈالا تو 444 قبروں سے 444 خاندانوں سے، یقیناً آوازیں نکل رہی ہوں گی جو کور 5 کے جانبازوں سے محکمہ پارکس کے آرٹ کے تقاضوں سے اور کراچی بینالے کے منتظمین سے کہہ رہی ہوں گی:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔