میں تو اچھا ہوں تم برے ہو


ایک لفظ ہے ’’ سیلف پریزرویشن ‘‘ یعنی ’’خود حفاظتی‘‘ یعنی ’’ یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘ یعنی ’’ پہلے میں ، پھر اعزا و اقارب اور پھر دیگر ‘‘۔اگر ہم عمومی سیاست بالخصوص پاکستانی سیاست و سماج کو سیلف پریزرویشن کے عدسے سے دیکھیں توکچھ اور ٹپائی ہی نہیں دے پاتا۔اور یہ سب کاروبار عام آدمی کے نام پر ہوتا ہے ، ہو رہا ہے اور شائد ہوتا رہے گا۔
ریاست کی لیز عام آدمی کے نام پر ہے مگر اس لیز کی پاور آف اٹارنی سوائے عام آدمی کے ہر کوئی استعمال کر رہا ہے۔ابراہام لنکن سے منسوب یہ قول تو ہر ذرا سے پڑھے لکھے نے سنا ہو گا کہ جمہوریت عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جو برائے عوام ہے۔
لیکن اس قولِ لنکن کی عملی اطلاقی صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ جمہوریت ( یا جمہوریت کے نام پر کوئی بھی اصلی یا جعلی طرزِ حکومت ) ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جو طاقتور لوگ عوام کے نام پر برائے خود تشکیل دیتے ہیں اور پھر عوام پر حکومت کر کے سیلف پریزرویشن یا ذاتی ، مفاداتی ، طبقاتی و ادارتی تحفظ کرتے ہیں۔بدلتا ہے تو صرف اسٹیکر۔
ہر سرکردہ فرد اور ادارہ عوامی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف ہمہ وقت سوچنے کا دعویدار بلکہ کمربستہ ہے جب کہ عوام دست بستہ۔ہماراآئین برطانوی آئین کی طرح زبانی نہیں تحریری ہے اور اس کے ابتدائیے میں ہی لکھ دیا گیا ہے کہ ریاست کی نگاہ میں ہر شہری بلا امتیاز ِ طبقہ ، علاقہ، نسل ، رنگ و جنس و عقیدہ مساوی حیثیت رکھتا ہے۔
پارلیمنٹ ہر قانون عوام کی سہولت و ترقی و تحفظ کے لیے بناتی ہے۔حکومت بھلے خاکی ہو کہ نوری ، مساوات محمدی کی علمبردار ہو یا ریاستِ مدینہ کے قیام کی وکیل۔ہر آرڈیننس جاری کرتے ہوئے یہی کہتی اور سوچتی ہے کہ اس سے عام آدمی کا مزید بھلا کیسے ہو سکتا ہے ۔
کبھی آپ نے ریاستی اداروں کے شاخ زیتون والے سرکاری نشانات کے اوپر نیچے یا درمیان میں درج نعروں یا ماٹوز پر دھیان دیا ہے۔حکومتِ پاکستان کا ماٹو ہے ’’ ایمان ، اتحاد ، نظم ‘‘۔قومی اسمبلی کا ماٹو ہے ’’ جمہوریت ، حاکمیت ، مساوات ‘‘۔ پولیس کا ماٹو ہے ’’ خدمت اور حفاظت ‘‘۔ فوج کا ماٹو ہے ’’ ایمان ، تقوی ، جہاد ِ فی سبیل اللہ ‘‘۔سپریم کورٹ کا ماٹو ہے ’’ فاحکم بین الناس بالحق ‘‘ یعنی لوگوں کے فیصلے انصاف کی بنیاد پر کرو۔الیکشن کمیشن کا ماٹو ہے ’’ انتخابات ، آزادانہ ، منصفانہ ، غیر جانبدارانہ‘‘۔پاکستان کسٹمز کا ماٹو ہے ’’دیانت ، صلاحیت ، اخلاق ‘‘۔
پنجاب پولیس کا ماٹو ہے ’’ خدمت اور حفاظت ‘‘۔ پنجاب پولیس نے ہر ضلع میں خدمت مرکز اور خدمت کاؤنٹر بھی کھول رکھے ہیں۔سندھ پولیس کا ماٹو ہے ’’ خدمت کے لیے کوشاں‘‘ ۔بلوچستان پولیس کا ماٹو ہے ’’ امر بالمعروف نہی  عن المنکر‘‘ ۔خیبر پختون خوا پولیس کا ماٹو ہے ’’ خدمت ، عبادت، پاسبان‘‘۔پی آئی اے کا ماٹو ہے ’’ باکمال لوگ لاجواب پرواز‘‘۔
یعنی سب اچھا ہے۔نیت بہترین ہے ، مقاصد اعلیٰ ہے مگر ناشکرے عوام پھر بھی کوسناپے کی عادت میں مستقل مبتلا ہیں۔ہر سیاسی جماعت صرف اور صرف اس لیے بااختیار ہونا چاہتی ہے تاکہ عوام کی زندگیوں کو خوشحال و خوش باش بنا سکے۔
ہر تنظیم ذاتی و تنظیمی مفاد سے بالاتر اور اپنے محلے ، قصبے ، شہر ، صوبے ، علاقے، برادری ، طبقے اور فرقے کی خدمت کے لیے سرشار ہے اور اس کی زلفوں سے بے لوثیت کا شیرہ ٹپک رہا ہے۔مگر مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ، احسان فراموش لوگ روزمرہ سے تنگ آتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
البتہ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔وہ چاہتا ہے کہ سامنے والا پیچھے ہٹے۔کوئی خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں جب تک مدِ مقابل خود کو نہ تبدیل کرے۔کوئی غلطی ماننے کو تیار نہیں کیونکہ غلطی میری ہے ہی نہیں۔گر ہے بھی تو تیری۔کوئی اعتراف کرنے پر راضی نہیں کیونکہ اعتراف میں بے عزتی ہے۔کوئی دوسرے کو عزت دینے کے لیے پہل پر آمادہ نہیں کیونکہ سب کی ناک سب سے اونچی ہے۔کوئی سیکھنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے پرفیکٹ ( مثالی ) ہے۔
اگر آپ کہیں کہ کرپشن بڑھ گئی ہے تو جواب ملتا ہے نائجیریا سے تو کم ہے۔کراچی میں اسٹریٹ کرائم پھر بڑھ رہے ہیں تو کہا جاتا ہے پچھلے دور سے تو کم ہیں کیا تم نے نیویارک کا تازہ ترین کرائم ڈیٹا نہیں دیکھا۔
کراچی میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ پھر بھارت نہیں گئے وہ تو ہم سے بھی زیادہ گندے ہیں۔میڈیا کا مسلسل بالواسطہ و بلاواسطہ گلا گھونٹا جا رہا ہے تو جھٹ مثال دی جاتی ہے کہ آپ مغرب کی طرف کیوں دیکھتے ہیں۔شکر کریں پاکستان میں مصر ، وسطیٰ ایشیا اور خلیجی ممالک سے زیادہ آزادی ہے۔
پاکستان کی معیشت جام کیوں ہے اور بنگلہ دیش ہم سے آگے کیوں ہے ؟ ارے صاحب بنگلہ دیش کی مثال مت دیں۔اگر مغربی ممالک سلے سلائے کپڑے خریدنا بند کر دیں تو بنگلہ دیشی معیشت ایک ہفتے میں دھڑام سے گر جائے۔
مگر ویتنام ، ملائیشیا ، انڈونیشیا ، ترکی اور کوریا ہم سے آگے کیوں ہیں جب کہ ساٹھ برس پہلے ہم سے پیچھے تھے۔ارے میاں آپ بھی کمال کرتے ہیں، جتنی دہشت گردی ، جتنی بیرونی سازشوں کا ہم سامنا کر رہے ہیں اگر ان میں سے کسی ملک کو درپیش ہوتیں تو نانی یاد آجاتی۔
مغرب ، چین اور جاپان کی مثال اس لیے نہیں دے سکتے کہ پھر ترنت کہا جاتا ہے کہ بھائی آپ احمقوں کی جنت سے نکلیے۔ہم تیسری دنیا کے ملک ہیں مغرب کی مثالیں ہم پر صادق نہیں آتیں۔
جتنی توانائی مسئلہ حل کرنے سے زیادہ سامنے والے کو خاموش کرانے اور اور خود کو درست ثابت کرنے میں صرف کر دی جاتی ہے۔اس سے نصف توانائی اگر سچائی کا سامنا کرنے اور پھر حکمتِ عملی بنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں کھپائی جاتی تو آج مجھے ایسی اول جلول گفتگو نہ کرنا پڑتی۔
دراصل ہمارا ماٹو یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم ترقی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں بار بار ترقی کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔اگر یہ موٹو پسند نہیں تو پھر یہ کیسا رہے گا ’’ کام جوان کی موت ہے ‘‘۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔