پرانے وقتوں میں ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بہت رحم دل تھا اور اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا۔ سب اسے بہت پسند کرتے تھے۔ ایک بار بادشاہ ایسا بیمار ہوا کہ کسی بھی علاج سے ٹھیک نہ ہو سکا۔ تب ایک سیانے نے کہا کہ فلاں پہاڑ کے دامن میں ایک جڑی بوٹی ہے جسے پیس کر پلانے سے بادشاہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ چوں کہ بادشاہ ہر دل عزیز تھا، سب چاہتے تھے کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائے۔ کئی لوگ جڑی بوٹی کی تلاش میں نکلے مگر بڑے بڑے بہادر وہ بوٹی لانے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ وقت گزرتا گیا اور بادشاہ کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ تب شہزادی مہر النسا نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور جائے گی اور اپنے والد کے لیے وہ جڑی بوٹی لے کر آئے گی۔
شہزادی نے شہزادے کا بھیس بدلا اور گھوڑے پرسوار ہو کے پہاڑ کی جانب روانہ ہو گئی۔ اس نے دانش مندی اور بہادری سے کام لیتے ہوئے جڑی بوٹی حاصل کر لی۔ پہاڑ کی غار میں ایک دیو رہتا تھا اس نے جب شہزادی مہر النسا کو دیکھا تو اسے قید کر لیا۔ شہزادی نے بہت کوشش کی مگر ظالم دیو کی قید سے خود کو نہ چھڑا پائی‘‘۔
اسکول کی چھٹی کے وقت میری بیٹی مجھے گیٹ پر دیکھتی ہے تو مسکراتی ہوئی بازو پھیلائے دوڑی چلی آتی ہے اور آ کے مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ اس کے گھنگریالے بال جنہیں میں ہر صبح بڑی نفاست سے پونی کی شکل میں باندھتی ہوں بکھرے سے ہوتے ہیں۔ سفید یونیفارم جسے ہر روز دھویا اور استری کیا جاتا ہے چاکلیٹ، کیچپ، پنسل اور پینٹ کے نشان سے بھرا ہوتا ہے۔ میلا یونیفارم دیکھ کے مجھے کوفت نہیں ہوتی بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ اس کا دن اچھا گزرا۔ اس نے پڑھائی کی، کھایا بھی اور activities بھی کیں۔ اکثر کوئی نہ کوئی چیز گم کر دیتی ہے کبھی ڈائری غائب ہے تو کبھی پانی کی بوتل، اسٹیشنری کھو جانا تو معمول کی بات ہے۔ تھوڑی بے پروا ہے مگر سبھی بچے ہوتے ہیں، ابھی بس چھے سال کی تو ہے۔
آج لائبریری ڈے تھا، ہفتے میں ایک دن کتاب ایشو ہوتی ہے مجھے پتا تھا اب کتاب پڑھ کے سنانے کی ضد شروع ہو جائے گی۔ وہی ہوا، “کہانی سنائیں”، کتاب میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے فرمایش کی۔ “ابھی نہیں، گھر جا کے آرام سے دونوں مل کر پڑھیں گے”۔ وہ کہاں ٹلنے والی تھی “گاڑی میں سنا دیں ناں” اس نے اصرار کیا۔ “نہیں گھر جا کے” میرا انداز حتمی تھا سو وہ خاموش ہو رہی۔
گھر پہنچے، بچے کپڑے تبدیل کر کے کھانے کی میز پہ آ گئے، کھانا کھانے کے ساتھ دن بھر کے قصے سنائے گئے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ابھی میں برتن سمیٹ ہی رہی تھی کہ وہ کتاب لیے پھر آ دھمکی، “اب سنائیں”۔ اس کے لئے مزید انتظار کرنا مشکل تھا۔
کہانی کا نام تھا “شہزادی مہر النسا اور ظالم دیو”۔ میں نے کتاب پڑھنا شروع کی اور وہ نظریں میرے چہرے پہ جمائے دھیان سے کہانی سننے لگی۔ میں جب بھی کہانی سناتی ہوں وہ ایسے ہی مجھے دیکھتی اور انہماک سے کہانی سنتی ہے، تب وہ مجھے بڑی پیاری لگتی ہے۔ کہانی وہی تھی جو تھوڑے رد و بدل کے ساتھ برسوں سے چلی آ رہی ہے۔
’’شہزادی نے بہت فریاد کی مگر دیو اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ آخر تھک ہار کے شہزادی ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگی۔ تبھی وہاں سے ایک شہزادے کا گزر ہوا اس نے رونے کی آواز سنی تو رک گیا۔ وہ غار میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوب صورت شہزادی دیو کی قید میں ہے۔ شہزادہ بہت طاقتور تھا اس نے ایک ہی وار میں دیو کا خاتمہ کر دیا اور شہزادی کو قید سے آزاد کروا لیا۔ شہزادی نے شہزادے کا شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی گھر کو لوٹ گئی۔ بادشاہ کو دوا پلائی گئی تو وہ فورا ٹھیک ہوگیا۔ سلطنت میں جشن منایا گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔
“کتنی اچھی کہانی تھی ناں”! وہ خوشی سے بولی، ” ماما یہ سچی کہانی ہے؟” اس نے سوال کیا۔
“نہیں تو”۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔ “ایسا تو بس کہانیوں میں ہوتا ہے اصل میں شہزادیوں کو شہزادے کا بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی”۔
“اچھا؟” اس کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
“ہاں بالکل” میں نے اس کی پیشانی چومی، “حقیقی زندگی میں شہزادی روتے ہوئے کسی شہزادے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ وہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اپنی مشکل خود حل کرے”۔ میری یہ بات سن کے وہ مسکرائی۔
“نہیں تو”۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔ “ایسا تو بس کہانیوں میں ہوتا ہے اصل میں شہزادیوں کو شہزادے کا بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی”۔
“اچھا؟” اس کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
“ہاں بالکل” میں نے اس کی پیشانی چومی، “حقیقی زندگی میں شہزادی روتے ہوئے کسی شہزادے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ وہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اپنی مشکل خود حل کرے”۔ میری یہ بات سن کے وہ مسکرائی۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔