مینوپاز، خواتین کا ایسی عمر کو پہنچنا ہے جس میں حیض کا عمل رک جاتا ہے اور وہ قدرتی طور پر حاملہ نہیں ہو سکتیں۔
بڑھتی عمر میں مینوپاز ایک ایسا قدرتی عمل ہے جو 45 سے 55 برس کے درمیان ہوتا ہے لیکن بیضہ دانی یا رحم کو سرجری کے ذریعے نکلوا کر بھی اس عمل کو قبل از وقت انجام دیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں مینوپاز کی اوسط عمر 51 برس ہے۔
جسم میں اس تبدیلی کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
اس قدرتی تبدیلی کی خاص وجہ ہارمونز ہیں، خاص کر ایسٹروجن نامی ہارمونز۔
ماہوار تولیدی دور کے لیے ان کی بہت اہمیت ہے۔ ہر ماہ خواتین کا تولیدی دور کچھ یوں ہوتا ہے: بیضہ دانی سے انڈہ بننے کے بعد نکلتا ہے اور پھر رحم کی دیواروں کی موٹائی میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ وہ یہ زرخیز انڈہ قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
لیکن جیسے جیسے خواتین کی عمر بڑھتی ہے ان کے جسم میں موجود انڈوں کا ذخیرہ کم ہوتا جاتا ہے اور حیض اور حمل کا عمل رک جاتا ہے۔ خواتین کے بیضہ دانی میں موجود ہارمون ایسٹروجن کی پیداوار آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ ہارمون اس تولیدی عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔
لیکن یہ سب تبدیلیاں فوراً نہیں آ جاتیں۔ اس ہارمون کی کمی ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں اور پھر جب اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو اس کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
ہارمونز میں تبدیلییوں کا کیا اثر پڑتا ہے؟
ہارمونز کی تبدیلیوں کا انتہائی گہرا اثر پڑتا ہے۔ دماغ، جلد، پٹھے اور جذبات، یہ سب ایسٹروجن کی سطح کے گرنے سے متاثر ہوتے ہیں۔
جسم بہت مختلف ردِعمل ظاہر کرنا شروع کر سکتا ہے اور زیادہ تر خواتین میں یہ علامات حیض بند ہونے سے بہت پہلے ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اسی عمل کو مینوپاز کہتے ہیں۔
گرمی کا احساس، راتوں کو پسینہ آنا، سونے میں مسائل، بے چینی، اداسی اور سیکس سے بیزاری اس کی عام علامات ہیں۔
مثانے کے مسائل اور وجائنا میں خشکی بھی اس دوران پیش آنے والے مسائل میں شامل ہیں۔
ایسٹروجن بننے کے عمل کا رک جانا ہڈیوں اور دل پر ایک طویل المیعاد اثر ڈالتا ہے۔ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ خواتین کے لیے دل کی بیماریاں اور سٹروک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اسی لیے خواتین کو ہارمون تبدیل کرانے کی تھراپی یا ایچ آر ٹی کی پیشکش کی جاتی ہے۔ یہ تھراپی ایسٹروجن لیولز کو بڑھانے اور علامات کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔
لیکن تمام خواتین کو ان علامات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ان کی شدت اور مدت ہر ایک کے لیے مختلف ہوتی ہے جو چند مہینوں سے لے کر کئی سال تک ہو سکتی ہے۔
اچانک سے گرمی لگنے یا حرارت محسوس ہونے کی وجہ کیا ہے؟
اس کی ایک بڑی وجہ ایسٹروجن کی مقدار میں کمی ہے۔ دماغ میں جسم کے تھرموسٹیٹ یعنی درجہ حرارت کنٹرول کرنے والے آلے پر ایسٹروجن اثر ڈالتا ہے۔
عام طور پر انسانی جسم درجہ حرارت کی تبدیلی برداشت کر لیتا ہے لیکن ایسٹروجن لیول کم ہونے سے تھرموسٹیٹ جسم کا درجہ حرارت زیادہ دکھاتا ہے اور دماغ کو لگتا ہے کہ جسم گرم ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
کیا ایسٹروجن مزاج میں بھی تبدیلیاں لاتا ہے؟
جی ہاں! بالکل لا سکتا ہے۔
یہ ہارمون دماغ میں موجود ان کیمیائی مادوں پر اثر ڈالتا ہے جو انسانی مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کی مقدار میں کمی بے چینی اور اداسی کا باعث بن سکتی ہے۔
ایسٹروجن میں کمی جلد کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور متاثرہ شخص کو خشک جلد کی شکایت یا ایسا احساس ہو سکتا ہے جیسے جلد کے نیچے کیڑے رینگ رہے ہوں۔
کیا اس عمل میں دوسرے ہارمونز بھی شامل ہیں؟
جی، اس عمل میں پروگیسٹرون اور ٹیسٹوسٹرون بھی شامل ہوتے ہیں لیکن ان کا جسم پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا ایسٹروجن کی مقدار میں کمی کا ہوتا ہے۔
پروگیسٹرون ہر مہینے جسم کو حمل کے لیے تیار کرتا ہے۔ حیض ختم ہوتے ہی، اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ٹیسٹوسٹرون ایک ایسا ہارمون ہے جو خواتین کے جسم میں کم مقدار میں بنتا ہے۔ اس کا تعلق سیکس کی خواہش اور توانائی کی سطح سے بتایا جاتا ہے۔
30 سال کے بعد اس میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے اور کم ہی عورتوں میں اس کی تعداد بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
آپ کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ مینوپاز سے گزر رہے ہیں؟
عام طور پہ اس کا اندازہ آپ خون کی جانچ کے ذریعے ایف ایس ایچ (فولیسل سٹیمیولیٹنگ ہارمون) نامی ہارمونز کی مقدار کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے نتائج قابلِ اعتبار نہیں ہوتے خاص کر عمر 45 سال سے زیادہ ہونے کی صورت میں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک دن میں ہارمونز کی سطح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اسی لیے یہ ٹیسٹ ان کی اصل مقدار کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔
اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر یا نرس سے حیض کے دورانیے اور اس سے متعلق جو بھی علامات ظاہر ہو رہی ہوں، ان کے بارے میں مشورہ کر لیں۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ کس علامت پر نظر رکھنی چاہیے۔ اداسی اور چڑچڑاہٹ کے بارے میں معلومات بھی گرمی یا اچانک سے حرارت محسوس ہونے اور راتوں کو پسینہ آنے جتنی اہم ہیں۔
٭٭٭٭حیض کی مقدار بڑھ جانا یا اس میں بےقاعدگی مینوپاز کی علامات میں سے ہیں۔ جب تک آپ کو ایک سال تک حیض کا عمل نا پیش آئے آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ آپ مینوپاز سے گزر چکے ہیں۔
کیا اس کا علاج ممکن ہے؟
مینوپاز کے بعد جسم میں ایسٹروجن کی سطح پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔ اوسط عمر میں اضافے کے باعث اب خواتین اپنی زندگیوں کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ایسٹروجن کی کمی کے ساتھ گزار رہی ہیں۔
ڈاکٹر ہیتھر کری جو ایک گائنوکالوجسٹ، مینوپاز ماہر اور برٹش مینوپاز سوسائٹی کی سابقہ چیئرومین ہیں، کہتی ہیں کہ اس بارے میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مینوپاز کا تصور بدل رہا ہے۔ اب خواتین عمر کے آخری دور میں بھی کام کر رہی ہیں اور وہ اب بھی خوبصورت دکھتی ہیں۔‘
انھوں نے نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اس سے متاثرہ ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں، خواتین کو ان علامات کے بارے میں معلومات ہونی چاہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ مینوپاز کے نتیجے میں خواتین میں آنے والی جسمانی و جذباتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے معاونت اور معلومات موجود ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مینوپاز کی علامات کے لیے سب سے پُر اثر علاج ’ہارمون ریپلیسمینٹ تھراپی‘ (ایچ آر ٹی) یا ہارمونز کو تبدیل کرنا ہے۔
ڈاکٹر کری کہتی ہیں کہ حالانکہ اس کے ممکنہ مضر اثرات اور طویل المیعاد نہ ہونے پر بحث جاری ہے لیکن بظاہر ایچ آر ٹی کے ’فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ جو خواتین مینوپاز سے گزر رہی ہوں اور آپ جیسی علامات کا سامنا کر رہی ہوں ان سے بات کرنا مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اور مینوپاز ایک بڑی وجہ ہے کہ خواتین کو صحت مند زندگی گزارنی چاہیے۔
آخر میں چند مشورے جن کی مدد سے آپ ایک صحت مند زندگی گزار سکتی ہیں:
- ہڈیوں کی مضبوطی اور دل کی حفاظت کے لیے ایسی متوازن غذا کھائیں جس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ اور چربی کم ہو
- ڈپریشن، دباؤ اور دل کی بیماریوں سے تحفظ کے لیے روزانہ ورزش کرنا
- دل کی بیماریوں اور اچانک حرارت محسوس ہونے سے بچنے کے لیے سگریٹ چھوڑنا
- اچانک محسوس ہونے والی حرارت سے بچنے کے لیے شراب نوشی کم کرنا
یہ سب کرنے سے جسم پر مینوپاز کے اثرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔