اخذ و تحقیق و ترجمہ از، نعیم بیگ
ژاں پال چارلس سارتر ( June 21, 1905/ April 15, 1980) بیسویں صدی کا ایک عظیم فرانسیسی فلسفی تھا۔ وہ ادیب و ناول نگار، ڈرامہ نویس، سوانح نگار اور نقاد بھی تھا۔ اُس کا شمار فرانس کے چنیدہ فلسفیوں میں شمار ہوتا ہے، جو وجودیت اور مظہریات پر یقین رکھتا تھا، اور انہی کا پرچارک تھا۔ بیسویں صدی کے فلسفیوں میں وہ فرانسیسی سماجی محرکات اور مارکس ازم کا عظیم علم بردار تھا۔
اُس نے فرانسیسی سماجی اور معاشرتی زندگی، تنقیدی اور پوسٹ کالونیل نظریات اور عالمی ادبیات پر عمیق اور ان مٹ کام کیے ہیں۔ اسی کے ساتھ سارتر معروف فرانسیسی فیمینسٹ ادیبہ سیمون ڈی بیووئیر کے ساتھ کھلے تعلق open relationship میں بھی رہا ہے۔
۱۹۶۴ء میں اسے ادبی خدمات پر نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن اُس نے یہ کہہ کر نوبل انعام کو وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے افکار اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اِس کا خیال تھا کہ کسی بھی ادیب کو کسی طرح سے کسی ادارے سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔(۱)
ابتدائی زندگی کے ایام
ژاں پال سارتر اپنے والد ژاں ببٹیسٹ سارتر، جو نیوی میں افسر تھے اور اینی ماریا شیوازر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی والدہ جرمنی اور سویئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع علاقے السیشن سے تعلق رکھتی تھی اور سب سے پہلے نوبل انعام حاصل کرنے والے البرٹ شیوازر کی کزن تھی۔ جب سارتر دو برس کا ہوا، تو اس کا باپ ایک مُوذی بخار میں مبتلا ہو کر مر گیا۔
اپنے شوہر کی وفات کے بعد سارتر کی ماں اپنے بیٹے کو لے کر اپنے والدین کے گھر میڈون میں منتقل ہو گئیں، جہاں اُس نے اپنے جرمن باپ کی مدد سے، جو وہیں پر ایک استاد کی حیثیت سے کام کرتا تھا، سارتر کی پرورش کی۔ سارتر کے نانا نے سارتر کو ابتدائی دنوں سے ہی ریاضیات اور کلاسیکی ادب کی طرف راغب کر دیا تھا۔ جب سارتر ابھی بارہ برس کا تھا، تو اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی۔ اس وجہ سے سارتر میں تکلیف سہنے کی سَکت اور باطنی ضدی پن پیدا ہوا۔
۱۹۲۰ء کے آس پاس اپنے لڑکپن میں ہی سارتر نے ہنری برگساں جیسے فلسفی کے مضمون ’ٹائم اینڈ فری وِل‘ کو پڑھ لیا تھا، یہ مضمون شعوری کیفیات پر ابتدائی مفروضات اور اعداد و شمار مہیا کرتا تھا۔ اس کے بعد اس نے پیرس کی ایکول نارمیل سپیرئر (Ecole Normale Superieure) جیسی انتہائی اہم تعلیمی درس گاہ سے فلسفہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہ تعلیمی ادارہ تھا، جہاں سے فرانس کے کئی ایک جیّد اور ممتاز فلسفیوں اور دانش وروں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب سارتر نے ایکول نارمیل میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ریمنڈ اریون سے دوستی اور زندگی بھر اکٹھے رہنے والے تعلقات کی ابتدا کی، جس کے سارتر کے خیالات اور کام پر بہت زیادہ اثرات نظر آتے ہیں۔(۲)
لیکن سارتر کے فلسفیانہ خیالات اور اسی کی گہری سماجی سوچ پر سب سے زیادہ اثرات شاید الیگزنڈر کوجئیو (Alexandre Kojeve) میں ہونے والے ہفتہ واری سیمیناروں سے آئے جس میں سارتر نے کئی برس تک لگا تار شرکت کی۔
ایکول نارمیل میں سارتر پہلے برس سے ہی شرارتی اورجارحیت پسند ہونے پر الگ پہچان بنا چکا تھا۔ (۳)
۱۹۲۷ء میں سارتر کے بنائے ہوئے اینٹی ملٹری طنز و مزاح پر مبنی کارٹون نے کالج کے تھیٹریکل (theatrical) رسالے میں شائع ہونے پر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی تھی اور کالج کے ڈائریکٹر گسٹیو لینسن کو پریشان کر دیا تھا۔ اس برس میں سارتر نے اپنے کامریڈ ساتھیوں نیزان، لیوریٹس، بیلو اور ہرلینڈ کے ساتھ مل کر چارلس لِنڈ برگ کی سولو فلائٹ، جواس نے اسی برس ایک انجن کے جہاز پر یک و تنہا بحرِ اوقیانُوس پار کر کے نیو یارک سے پیرس تک کے سفر میں کامیابی حاصل کی تھی، کو کالج کے تھیٹر میں ہزاروں لوگوں کے سامنے اس اعلان کے ساتھ پیش کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ ایکول کالج چارلس لِنڈ برگ کو اس کی بہادری پر اسے اعزازی ڈگری دے رہا ہے۔
مزید دیکھیے:1۔ البرٹ کامیو اور سارتر، برسوں کے یارانے کس بات پر گئے
2۔ سارتر سے سامنا، از ایڈورڈ سعید
3۔ مزاحمتی ادب اور اس کی تشریحات
سارتر اینڈ کمپنی نے پیرس کے تمام چیدہ چیدہ صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کو دعوت دے دی کہ وہ اس کھیل کو ضرور دیکھیں۔ پورے فرانس کے اخباروں نے جس میں سَر کَردہ اخبار ’لی پیٹٹ پئیرسن‘ نے بھی شہ سرخی کے ساتھ اس خبر کو جاری کر دیا کہ ایکول کالج ۲۵ مئی کو یہ شو پیش کر رہا ہے۔ ہزاروں شائقین اور میڈیا کے سامنے شو کے دوران یہ عقدہ کھُلا کہ یہ تو ایک حیران کر دینے والا جرات مندانہ حربہ تھا، جس میں چارلس لِنڈ برگ حقیقی طور پر شامل نہیں تھا، بلکہ اس کی مماثلت رکھنے والا کوئی دوسرا اس شو میں حصہ لے رہا ہے۔ اس صورت حال میں موجود ناظرین اور بعد میں پورے پیرس نے سارتر اینڈ کمپنی کی اس کرتب بازی پر احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں کالج کے ڈائریکٹر گسٹیو لینسن کو بعد ازاں مُستعفٰی ہونا پڑا۔ (۴)
۱۹۲۹ء میں سارتر کی ملاقات سیمُون ڈی بیووئیر سے ایکول نارمیل میں ہوئی، جہاں وہ پڑھ رہی تھی اور بعد ازاں ایک ممتاز فلسفی، ادیبہ اور فیمینسٹ کے طور پر پہچانی گئی۔ پھر دونوں زندگی میں جدا نہ ہونے والے ساتھی کی طرح ایک ساتھ رہے، جس میں رومانوی تعلق بھی شامل ہو گیا، جسے یورپی طرزِ ثقافت میں ’لونگ ٹو گیدر‘ کی اصطلاح میں دیکھا جاتا ہے، لیکن دونوں زندگی بھر یک زوجیت کے اصول پر کاربند نہ رہے۔
اسی برس سارتر نے ایکول کالج کے انسٹرکٹر کا امتحان دیا، جس میں وہ فیل ہو گیا، تاہم اس نے دوبارہ محنت کی اور دوسری بار پھر امتحان دیا۔ اس بار وہ اس درجہ اول پر فائز ہوا جب کہ سیمون بیووئیر دوسرے درجے پر کامیاب ہو گئی۔
دوسری جنگ عظیم کا دورانیہ
۱۹۲۹ء میں سارتر فرانسیسی فوج میں بھرتی ہوگیا، جہاں وہ کچھ عرصہ میٹرولوجیکل اسسٹنٹ کے طور پر بھی ۱۹۳۱ء تک کام کرتا رہا۔ اس نے بعد میں ۱۹۵۹ء میں یہ استدلال پیش کیا تھا کہ الجزائر کی جنگ آزادی میں ہر فرانسیسی کو جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا جائے کیونکہ سب نے الجزائر کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا۔(۵)
انھی برسوں میں سارتر اور سیمون ڈی بیویئر نے فرانس کی سماجی و ثقافتی محرکات اور مفروضوں اور اپنی ذاتی پرورش کی ترجیحات پر بھرپور تنقید کی اور رد کر دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اُن کی پرورش بورژوائی خیالات اور زندگی کے لائف سٹائل پر مبنی کی گئی ہے، جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔ غیر معقول حد تک اِیذا رسانی، ظلم و تشدد، عقیدے کے بَل بُوتے پر برباد کر دینے والے خیالات اور زندگی کی مستند حقیقت کے درمیان تصادم اور متضاد بیانی سارتر کے ابتدائی کاموں میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ اس کے فلسفیانہ موضوعات میں مرکزی خیال کے طور پر ’بینگ اینڈ نتھنگنس۔۱۹۴۳ء‘ (Being and Nothingne) میں نمایاں ہے۔ تاہم سارتر کا نظریہ وجودیت اور انسان پرستی (Humanism ) پر مبنی کام درحقیقت سارتر کے ابتدائی لیکچرز میں سامنے آیا تھا۔
۱۹۳۹.ء میں سارتر ایک بار پھر فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ اس بار بھی وہ فوج کے محکمہ موسمیات میں لگا دیا گیا، لیکن بد قسمتی سے ۱۹۴۰ء میں پڈوکس کے علاقے میں وہ جرمن فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور جرمنی کی سٹالاگ اور ٹرئیر جیلوں میں اسیر رہا۔ وہیں پر اس نے کرسمس کے موضوع پر ڈرامہ ’بائرونا فلس ڈو تونرے (Bariona, fils du tonnerre) لکھا۔ انھی اسیری کے دنوں میں سارتر نے ہیڈگر کی کتاب ’بِینگ اینڈ ٹائم‘ پڑھی جس کے گہرے اثرات، اس کے بعد ازاں لکھے گئے اپنے مضامین جو ما بعد طبعیات کے حوالے سے فطری مظہریات پر تھے، میں ظاہر ہوئے۔
اپریل ۱۹۴۱ء میں سارتر کو اس کی آنکھوں کی شدید بیماری، نظر کی کمزوری اور ایگزوٹرپیا کی وجہ سے قید سے رہا کر دیا گیا۔ فوج کے اندر سول ملازم کی حیثیت سے اسے دوبارہ تعلیمی سرگرمیوں میں شامل کر کے پیرس کے مضافات میں ایک کالج ’لیسی پیستور‘ میں استاد لگا دیا گیا، جہاں وہ قریبی ہوٹل مسترال میں رہائش پذیر رہا۔ اکتوبر ۱۹۴۱.ء میں اسی کالج میں اسے ایک یہودی استاد کی جگہ پر قانون کا استاد لگا دیا گیا۔
پیرس واپس لوٹ آنے پر سارتر نے اپنے دوستوں ڈی بیوویئر، موری مرلئیو پاؤنٹی، ژان تسانت دیسانتی اور اس کی بیوی ڈومینک دیسانتی، ژان کناپا اور ایکول نارمیل کالج کے چند دیگر طالب علموں کے ساتھ مل کر ایک زیرِ زمین گروپ کی بنیاد رکھی، جس کا نام ’سوشلزم ایٹ لیبرٹی‘ رکھا گیا۔ گروپ کی تشکیل کے بعد فرانس کے سارتر اور بیووئیر دونوں جنوب مشرقی علاقے’ کوسٹ آف ازور‘ جسے اکثریت انگریزی میں’فرنچ رِوِیریا‘ کہتی ہے، میں معروف فلسفیوں آندرے گائیڈ اور آندرے مالروکس کی تائید اور حمایت حاصل کرنے گئے۔ دونوں دانش ور اس موقع پر کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکے جس کی وجہ سے سارتر اور ڈی بیووئیر اِس قدر دل براشتہ ہوئے اور واپس آ کر گروپ کو تحلیل کر دیا، اور سارتر نے یہ فیصلہ کر لیا بجائے اس کے کہ وہ سیاسی ایکٹیوسٹ کے طور پر اپنی مزاحمتی سرگرمیاں جاری رکھے، وہ لکھے گا۔ تب اس نے ’ بِینگ اینڈ نتھنگ نس‘، دی فلائیز‘ اور ’ نو ایگزٹ جیسے کتابیں لکھیں۔ یہ ایک محض اتفاق تھا کہ ان کتابوں میں کسی طور جرمن قطع و برید نہ کرسکے اور یہ کتابیں تمام قانونی اور غیر قانونی میگزین میں شائع ہوئیں۔
اگست ۱۹۴۴ء میں فرانس کی آزادی کے بعد اس نے اپنی کتاب ’اینٹی سیمائٹ اینڈ جیو (Antisemite And Jew) لکھی، جس میں اس نے علم الاسباب کی رو سے ’نفرت‘ بالخصوص ’یہودیت پرستی سے نفرت‘ کا بھرپور جائزہ لیا۔ انھی دنوں سارتر البرٹ کامیو جیسے ہم خیال فلسفی اور ادیب کے اخبار ’ کمبیٹ (Combat) کا سرگرم ادبی اعانت کار تھا۔ سارتر اورڈی بیووئیر ۱۹۵۱ء تک جب تک کہ کامیو کی کتاب ’دی ریبل‘ نہ آئی تھی کامیو کے دوست رہے۔ بعد ازاں جب سارتر کو مزاحمتی ادیب کے طور پہ پہچانا جانے لگا، تو فرانس کے ممتاز فلسفی اور مزاحمت کار ’ولڈا میر جان کیلی وچ‘ نے سارتر پر یہ الزام لگایا کہ اس کی سیاسی مزاحمت سے وابستگی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے، کیونکہ فرانس پر جرمن قبضے کے دوران اور اس کے بعد اس کی تمام جد و جہد در حقیقت اس کی باطنی اسیریت و حساسیت سے نجات کے مترادف ہے۔ کامیو کا کہنا یہ تھا کہ سارتر نے ایک ادیب کے طور پر مزاحمت کی نا کہ ایک مزاحمت کار کے طور پر ادیب بنا۔
۱۹۴۵ء میں جنگ کے ختم ہو جانے پر سارتر ریو بوناپارٹ اپارٹمنٹ پر منتقل ہو گیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سارتر انیس سو باسٹھ تک رہا اوراپنی زندگی کا بیشتر کام وہیں کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سارتر نے اسی فلیٹ سے اپنا سہ ماہی ادبی رسالہ ’لس ٹمپ ماڈرن‘ یعنی ’ماڈرن ٹائمز‘ جاری کیا، جہاں سے سارتر کے خیالات، فکر و دانش عام لوگوں تک پہنچی اور وہ معروف ہوتا چلا گیا۔ سارتر نے ایسے وقت میں جب لوگ اسے پڑھنا چاہتے تھے، اپنے پڑھانے کے کام کو خیرباد کہہ دیا اور مکمل یک سُوئی سے لکھنے لکھانے کے کام اور سیاسی جد و جہد میں جُت گیا (۶) اب اس کی پوری توجہ جنگ عظیم دوم کے زمانے کی یادیں اور تجربات پر مبنی’سہ المیہ‘ ناول ’لس کمینز ڈی لا لبرٹی‘ (دی روڈز ٹو فریڈم، ۱۹۴۹ ۔۱۹۴۵ء ) لکھنے پر مبذول ہو چکی تھی۔
نو آبادیات مخالف تحریکیں اور سرد جنگ
سارتر کی ادیبانہ زندگی کے پہلے دور ’بِینگ اینڈ نتھنگ نس‘ نے اس کے دوسرے دور کی ابتدا کر دی تھی۔ جنگ کے فوراً بعد دنیا دو حصوں، پہلا کیمونسٹ اور دوسرا سرمایہ دارانہ بلاک، میں بٹ چکی تھی، تب سارتر کی سیاسی مداخلت بھی کہیں بڑھ چکی تھی۔ اس ضمن میں سارتر کا ڈرامہ ’لیس مین سیلز‘ انگریزی میں ’ ڈرٹی ہینڈز ‘ سیاسی معاملات میں الجھا ہوا ایک دانش ور، بہترین مثال ہے۔
سارتر نے انہی دنوں مارکسزم کی فلاسفی اور حکمت عملی کو اپنایا، لیکن اس نے کیمونسٹ پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کی۔ ایک مارکسٹ کی نظر سے اس نے سوویت یونین میں انسانی حقوق کی پامالی اور تحریر و تقریر کی آزادی پر قدغن کو خوب لتاڑا۔ اس نے بحیثیت ایک صحافی روس میں لیبر کیمپس کو طشت اَز بام کیا اور روس کی اینٹی یہودی پالیسی اور ہنگری میں باغی یہودیوں اور یہودیت پرستوں کے قتلِ عام پر کڑی تنقید کی۔
سارتر نے نو آبادیاتی نظریات کی مخالفت میں الجزائر میں فرانس کی چِیرہ دستیوں اور نو آبادیاتی قبضے اور جبر کو نہ صرف اپنی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس کے خلاف جد و جہد میں عملی حصہ بھی لیا اور فرانس کے الجزائر میں قائم کردہ قیدی کیمپس اور جبر و تشدد پر شدید اور بھرپور عملی احتجاج کیا۔ اُس نے مینی فیسٹو ڈی ۱۲۱ پر دستخط بھی کیے۔ یوں سارتر الجزائری جنگ میں الجزائر کے حامی کے طور پر پوری دنیا میں مقبول ہوگیا۔
نتیجہ وہ فرانس کے اندر پارلیمانی گروپوں اور دیگر جمہوریت پسندوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین تنظیم (او۔ اے ۔ایس) نے۱۹۶۰ء کی دھائی میں اس پر دو بم حملے کیے، جن میں وہ بال بال بچ گیا۔ سنہ ۱۹۶۵ء میں اس نے ایک الجزائری لڑکی آرلیٹ ایلکیم، جو پہلے اس کی ملازمہ تھی، کو اپنی لے پالک بیٹی بنا لیا۔
سارتر نے ویت نام جنگ میں امریکا کی شمولیت پر بھرپور مخالفت کی اور سنہ ۱۹۶۷ء میں برٹرینڈ رسل اور دیگر ادیبوں کے ساتھ مل کر ایک ایسے عالمی ٹریبونل کے قیام کی راہیں پیدا کیں جس میں امریکا کے خلاف ویت نام میں جنگی جرائم پر مقدمات قائم کیے جانا مقصود تھا، اس ٹریبونل کو بعد میں رسل ٹریبونل کے نام سے یاد رکھا گیا۔
سٹالن کی موت کے بعد اس کے کام کا ایک حصہ (Critique of Dialectical Reason) کے نام سے ۱۹۶۰ء میں منصۂِ شہود پر آیا، جس کا دوسرا حصہ سارتر کی وفات کے بعد سامنے آیا تھا۔ اس تنقیدی مضمون میں سارتر نے پہلے سے زیادہ متاثر کن اور مارکسٹ دانش مندی اور ذہانت و فطانت کے ساتھ اب تک ہونے والے تمام اعتراضات کا دفاع کیا۔ اپنے دفاع کے اختتام پر اس نے مارکس کے طبقاتی نظریہ کے درجاتی قیاس کو حتمی اور درست قرار نہیں دیا۔
۱۹۶۰ء میں مارکس کے انسانی اقدار کے حوالوں سے اس کے تمام ابتدائی کام پر سارتر کی پُر زور مُدافعت کے باوجود فرانس کے کئی بائیں بازو کے دانش وروں نے پر زور مخالفت کی۔ فرانسیسی مارکسٹ فلسفی لیوس التھیوسے، جس کا یہ دعوٰی تھا کہ نوجوان مارکس کے ابتدائی انسان پرستی کے نظریات پر اس کے بعد ازاں سائنسی نظریات حاوی ہو گئے تھے جس نے مارکس کے ابتدائی کام کی نوعیت کو تبدیل کر دیا تھا۔
۱۹۶۰ء میں سارتر کیوبا گیا جہاں اس نے فیڈل کاسٹرو کے ساتھ ملاقات کی، وہیں اسے ارنسٹو چے گویرا کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔ چی گویرا کی وفات کے بعد سارتر نے نہ صرف اسے دنیا کا عظیم دانش ور قرار دیا بلکہ اپنے ہم عصروں میں بہترین انسان اور مکمل شخصیت بھی قرار دیا۔ (۷)
سارتر نے بعد ازاں اپنے ملفوظات میں چی کو یہ کہہ خراج تحسین پیش کیا کہ چی گویرا نے اپنے کَہنیوں کے مطابق زندگی گزاری ہے، اس نے اپنے کہے کو عملی طور پر سچ ثابت کیا، اور اس کی کہانی، دنیا کی کہانی کے ساتھ ساتھ چلی ہے۔(۸)
تاہم اس نے فیڈل کاسٹرو حکومت کے عوامی جبر و ستم اور اِیذا رسانی کی زبر دست مخالفت کی تھی، اس کا کہنا تھا کہ یہ وہی جبر و سِتم ہے، جو نازی حکومت نے یہودیوں پر روا رکھا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم جنس پرست کیوبا کے یہودی جیسے ہیں، جن پر یہ ظلم و ستم ہو رہا ہے۔
۱۹۷۴ء کی مشترکہ بھوک ہڑتال سارتر نے ریڈ آرمی جَتھے کے لیڈر انڈریوس بدر سے ملنے سٹڈ گارٹ جرمنی کی سٹم حین جیل ملنے گیا اور جیل کی سخت اذیت ناک صورت حال پر کڑی تنقید کی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سارتر اپنی زندگی کے آ کر میں ایک انارکسٹ کی طرح نظر آیا۔(۹)
زندگی کے آخری ایام اور وفات
۱۹۶۴ء میں سارتر اپنے ابتدائی دس برسوں کے تمام ادبی کام اور فکر سے ’لس موٹس‘ یا ’الفاظ‘ نامی کتاب میں بڑی ہنر مندی اور طنز و مزاح کے ذریعے دست بردار ہوگیا۔ سارتر کی اس دست برداری سے فرانس کے ناول نگار اور ادیب مارسل پراؤسٹ کو زبردست ذہنی دھچکا لگا، جو سارتر کے اولین کام کو ’لٹریچر انگیج‘ نامی کتاب میں ایک ماڈل کے طور پر پیش چکے تھے۔ سارتر کے خیال میں ’ادب‘ در حقیقت دنیا بھر میں حقیقی انسانی فکر و عمل کی بجائے بورژوائی طرزِ فِکر کا عکس بن چکا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں سارتر نے نوبل پرائز کو وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ نوبل پرائز کے لیے منتخب ہونے والا پہلا شخص تھا، جس نے رضاکارانہ طور پر ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (۱۰)
سنہ ۱۹۴۵ء میں انھوں نے پہلے بھی’لے جن ڈی آنر‘ ایوارڈ کو لینے سے انکار دیا تھا۔ نوبل انعام ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو اعلان کیا گیا، اس سے پہلے ہی ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۴ء میں سارتر نے نوبل انسٹیٹیوٹ کو خط کے ذریعہ متنبہ کر دیا تھا کہ اس کا نام نوبل ایوارڈ کی فہرست سے نکال دیا جائے، کیونکہ اگر اسے نوبل انعام نوازا گیا تو وہ اسے لینے سے انکار کر دے گا، تاہم وہ خط بغیر پڑھے کسی طرف پڑا رہ گیا۔ ۲۳ اکتوبر کو اخبار ’لی فیگارو‘ نے سارتر کا نوبل انعام لینے سے انکار پر اس کا وضاحتی بیان جاری کیا۔ سارتر کا کہنا تھا کہ وہ اس ایوارڈ کی روشنی میں پہچانے جانے والا نہیں بننا چاہتا، اور مغربی ثقافت سے لبریز سب سے بڑے ایوارڈ کو حاصل کر کے مشرق اور مغرب کے درمیان پہلے سے پیدا شدہ ثقافتی تفاوت اور جد و جہد میں مزید فاصلے پیدا نہیں کرنا چاہتا۔(۱۱) ایوارڈ کے اعلان کے بعد وہ میڈیا اور دنیا بھر سے رُو پوش ہونے کے لیے ڈی بیووئیر کی بہن ہیلن ڈی بیووئیرکے گھر السیس جرمنی میں جا کر چھپ گیا۔
اگرچہ سارتر کا نام ۱۹۶۰ء تک گھر گھر پہنچ چکا تھا، جس میں اس کے نظریۂِ وجودیت نے ہنگامہ خیزی پیدا کر دی تھی، تاہم وہ اپنے طرز رہن سہن میں بالکل سادہ تھا اور اپنی ادبی سرگرمیوں کے باوجود، چند ایک ذاتی اشیا کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا، وہ موت تک صرف اپنے نظریات سے جڑا رہا۔ جیسا کہ مئی ۱۹۶۸ء کی گرمیوں میں پیرس میں ہونے والی ہڑتالوں میں سارتر کو سول نافرمانی کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تو فرانسیسی صدر چارلز ڈیگال نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ ’والٹیر‘ کو گرفتار نہیں کرسکتے۔ سارترکو علامتی طور پر فرانس میں بیسویں صدی کا والٹیر سمجھا جاتا تھا۔)
۱۹۷۵ء میں جب سارتر سے یہ پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی نظر میں کس طرح پہچانے جانے کی متمنی ہیں ؟ تو سارتر کا جواب تھا۔ ’’میں اپنے ڈراموں، جن میں ’نیوسا‘ ’نو ایگزٹ‘ اور ’دی ڈیول اینڈ دی گڈ لارڈ‘ شامل ہیں اور میرے دو بڑے فلسفیانہ نظریات جس میں ’کریٹیک آف ڈائلیکٹیکل ریزنز‘ زیادہ اہم ہے، سے پہچانا جانا پسند کروں گا۔ اسس کے علاوہ میرے مضامین ’ جینٹ، سینٹ جینٹ‘۔ اگر میرا یہ کام یاد رکھا گیا تو میرے لیے اس سے بڑی کامیابی اور اعزاز کی بات نہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔ اگر ایک انسان کے طور پر ژاں پال سارتر کو یاد رکھا جاتا ہے، تو میں یہ پسند کروں گا کہ ان تاریخی حالات اور معاشرتی ماحول کو مدنظر رکھا جائے جس میں میَں رہ رہا ہوں اور اِس میں اپنے داخلی کرب کے ساتھ کچھ کام کرنے کی لگن کو پورا کر سکا ہوں۔‘‘(۱۲)
انھی دنوں سارتر کی صحت بگڑنے لگی اور اس کی بڑی وجہ اس کا بہت زیادہ اور بے رحمانہ طریقے سے کام کرنا اور ایمفیٹامائن کا استعمال تھا۔ (ایمفیٹامائن: مرکزی اعصابی نظام کو متحرک رکھنے والی دوائی)(۱۳)، انھی دنوں اس نے ’کریٹیک‘ اور گسٹاؤ فلوبرٹ کی سوانح حیات ’دی فیملی ایڈیٹ‘ لکھنے میں وقت گزارا۔ وہ مسلسل کام کی وجہ سے ہائپر ٹینشن کا شکار ہوتا گیا اور پھر ۱۹۷۳ء کے آخر میں مکمل طور پر بصارت سے محروم ہوگیا۔ سارتر کی صحت اس کی مسلسل سیگریٹ نوشی کی وجہ سے بھی بہت خراب ہو رہی تھی۔ بالآخر سارتر ۱۵ اپریل ۱۹۸۰ء میں پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کی بیماری کی وجہ سے وفات پا گیا۔
وہ اپنی ماں اور سوتیلے باپ کی قبروں کے نزدیک ’پیری لیچیز‘ نامی قبرستان میں دفن نہیں ہونا چاہتا تھا، لہٰذا اسے ’ مونٹ پارناسی‘ نام کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس کے دفنانے کے دن بروز ہفتہ ۱۹ اپریل ۱۹۸۰ء پیرس کے کوئی پچاس ہزار سے زیادہ سوگواروں نے اس کے جنازے میں شمولیت کی۔ (۱۴) سارتر کو پہلے ایک عارضی قبر میں دفنا دیا گیا، جسے بعد ازاں ’پری لا چییس‘ قبرستان میں مرکزی داخلی گیٹ کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا۔
سارتر، کام اور خیالات کی روشنی میں
سارتر کا بنیادی خیال یہ ہے ( بینگ اینڈ نتھنگ نس) انسانوں میں، انسان کے طورپر اس کی آزادی کی مذمت کی جاتی ہے۔ اس خیال کی اساس یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کا کوئی خالق نہیں ہے، کیونکہ انسان کے خلقی وجود سے پہلے کوئی انسانی جوہر موجود نہیں تھا۔ اس لیے وجودیت جوہر کو تقدیم دیتی ہے۔ وہ اس دعوٰی کو اساس سمجھتا ہے، کہ وجودی عملیاتی سرگرمی کسی انسانی جبلت کی مرہون منت نہیں، اور انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، جبھی انسان بِلا عذر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
سارتر کا خیال ہے کہ انسانی کی انفرادیت اور اِس کا کھرا پن حاصل کیا جائے، نہ کہ صرف سیکھا جائے۔ ہمیں موت کی آگہی کا تجربہ حاصل کرنا ہوگا، تاکہ ہم جان سکیں کہ حقیقت کیا ہے؟ مستند ہونا کسے کہتے ہیں؟ اور یہ سب زندگی کے تجربے سے حاصل کیا جاتا ہے، نہ کہ علوم سے۔ (۱۴) موت ایک ایسا مقام ہے جہاں سے ہم باہر کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں اور زندگی کے سفر کو ختم کر دیتے ہیں، یوں موت ہماری زندگی بھر کے بوجھ کو سہار لیتی ہے اور ہمارے انفرادی آزاد وجود کی اہم قدر ہے۔
۱۹۳۸ء میں سارتر جب سیکنڈری سکول کا جونئیر لیکچرر تھا، تب اس نے ایک ناول ’لانوزیا‘ لکھا جس نے وجودیت کے نظریے کو منشور عطا کیا اور سارتر کی بعد میں تخلیق کی جانے والی تمام تصانیف میں منفرد رہا۔ اس نے جرمن مظہریت تحریک سے ایک نکتے کواٹھا کر یہ دعوٰی کیا کہ انسانی تصورات اور احساسات کا خمیر اس کی حقیقی زندگی میں ہونے والے تجربات سے اٹھتا ہے، یوں ناول اور ڈرامے ان بنیادی خیالات کو پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور ان غیر وجدانی مضامین کے ہم پلہ ہوتے ہوئے وجودیت جیسے اعلٰی فلسفیانہ نظریات کی اہم قدر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ فرانس کے اداس اور ذہنی دباؤ میں رہنے والے محقق روکوئینٹن کو اس ناول نے بہت متاثر کیا۔ وہ اس حقیقت کو بے حد گہرائی سے جان گیا کہ بے جان اور غیر ذی روح اشیا اور صورت حال مکمل طور پر اپنے وجود سے بے پروا ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ انسانی شعور ی اہمیت کی مزاحمت کر پائیں۔
اِس نے فرینز ایڈلر کے مظہریاتی علمیات کے نظریے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انسان اپنے چناؤ سے اپنے عمل کو سر انجام دیتا ہے، سے بھی فیضان حاصل کرتے ہوئے (۱۵) ’تھنگ اِن دمسلف‘ جیسے لا تعلقی کے نظریے جو ’بینگ اِٹ سلف‘ کو سارتر کی کتاب ’بینگ اینڈ نتھنگ نس‘ میں نمایاں کرتا ہے، سے تمام وجودی آزادی کو بِلا تفریق محسوس کیا اور زندگی میں جہاں کہیں آزادی کی صورتِ حال کو دیکھا، اسے وجودیت سے پرکھا۔ لہٰذا ناول کے عنوان سے جڑی معنویت ’متلی اور کراہت‘ اس نے زندگی کے ہر موقع پر خوف ناک انداز میں اپنے اندر سرایت کرتے محسوس کی، جس نے وجودیت کے نظریات پر بالخصوص انسانی آزادی کے مفہوم پر مہر ثبت کردی۔ درحقیقت یہ اصطلاح نطشے کی کتاب ’دَس سپوک زاراتھُسٹرا‘ سے لی گئی تھی، جہاں نطشے نے وجودیت کے عمومی انسانی احساسات میں کراہت آمیزی کو اثر انگیز دیکھا تھا۔
اس ناول نے ایمانئیول کانٹ کے نظریۂِ آزادی کو وسیع تر لیکن مختلف معانی دِیے۔ خواہشات کے خود مختار نظریہ کے آبیاری، جہاں موریلیٹی کے انتخاب کی حقیقی اہلیت کا وجود، انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہو، اور ’آزاد ہونے کی مذمت‘ جیسے دستور دنیا کے متعصبانہ رویوں کو ظاہر کرتے ہوں، کو منکشف کیا ہے۔ وہ آزادی جسے کانٹ نے منشور کیا،کو بوجھ تصور کرتے ہوئے سارتر نے اسے انسان کے لیے بے مصرف قرار دیا، اور اس نظریے کی عملیات کو برے طریقے سے رد کر دیا۔
سارتر کی عملی اور ادبی زندگی کا بڑا حصہ انسانی آزادی کے نظریے کے گرد ہی گھومتا ہے، تاہم ۱۹۴۵ء کے بعد مکمل طور پر وہ انسانی آزادی کےعوامی معاملات میں دانش ورانہ اشتراک کرتا ہے۔ قبل ازیں وہ جنگ عظیم دوم کے دوران اوراِس سے پہلے اُس نے اپنے آپ کو لا سیاسی لبرل کے طور پر ہی پیش کیا۔
جنگ عظیم دوم کے پہلے برس میں ہی سارتر نے بطور سپاہی اپنے ڈرامے ’ایج آف ریزن‘ میں ایک مرکزی حلیف کردار میتھیو کے ذریعے جنگ کے شروع ہونے سے پہلے کی صورت حال کو نمایاں کیا۔ میتھیو ایک کاملاً اصول پرست ہوتے ہوئے سماجی صورت حال پر منطق کی بنیادوں پر تجزیہ کرتا ہے، اور انسانی کردار میں مستند مشمولات پر چھائے دھاگوں کے جال کو ہٹا دیتا ہے۔ نتیجتًا میتھیو صرف اپنے آپ ہی سے وفاداری کی نقاشی کر پاتا ہے، جب کہ وہ یہ حقیقت جان جاتاہے کہ اپنے وجود کی ذمہ داریت کے بغیر وجودیت کا ادراک غیر منطقی ہو جاتا ہے۔
میتھیو کی تمام کمٹمنٹ صرف اپنے ساتھ ہوتی ہے کبھی دنیا کے لیے نہیں۔ میتھیو ہر اس عمل سے اپنے آپ کو دور کر لیتا ہے جس میں اسے کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ انھی وجوہات کی بنا پر سارتر ہسپانوی خانہ جنگی میں کوئی حصہ نہیں لیتا اور اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
یہ جنگ عظیم دوم ہی تھی، جس نے سارتر کو اپنے آپ سے ہٹ کر دنیا کو دیکھنے کا ایک مقصد دیا۔ جنگ کے ظالمانہ سِتم اس کی زندگی کا بڑا موڑ ثابت ہوئے جس سے بعد ازاں اس کے عوامی موقف میں تبدیلی آئی۔ اس جنگ کی ایسی ذمہ داریاں، جو اس پر لاد دی گئی تھیں، نے سارتر کی اُس سیاسی زندگی کی آنکھیں کھول دیں، جسے وہ اب تک سمجھ نہ سکا تھا۔
’’جنگ نے سارتر کے تنہا ئی اور وجودی انسان کے عزم اور تعینِ حق کے فریبِ نظر کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور انفرادیت کو عصری عہد کے تناظر میں وقت کی حقیقت سے جوڑ دیا تھا۔‘‘ (۱۶)
۱۹۴۱ء میں دوبارہ فرانس میں آجانے پر سارتر نے ’سوشلزم ایٹ لبرٹی‘ نامی تحریک کی بنیاد رکھی اور ایک گروپ بنایا۔ ۱۹۴۳ء میں گروپ پر پابندی کے بعد اس نے لکھاریوں کے مزاحمتی گروپ کو جوائن کر لیا تھا، جس میں وہ جنگ کے خاتمے تک شامل رہا۔ وہ مسلسل وحشیانہ طور پر لکھتا رہا، چونکہ جنگ کے ہولناک تجربات اور اس کی اسیری نے اس کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے اخلاقی نظاموں پر مثبت ادبی تحریریں لکھتا رہا۔
۱۹۴۵ء کے بعد سارتر کی تحریروں میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں ’لیس ٹمپس ماڈرن‘ جیسے جریدوں میں اس کے مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ اس نے لیفٹ کے دیگر ادیبوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی کو باقاعدہ ضبطِ تحریر میں لائیں تاہم یہ تحاریر کسی پارٹی سے زیادہ لیفٹ کے مجموعی خیالات پر مبنی تھیں۔
سارتر نے اپنے پیش کردہ فلسفیانہ خیالات کی رُو سے عوامی سطح کے دانش ور کی حیثیت سے زیادہ متاثر کیا، وہ ثقافتی رحجانات کو ایک سیال مادے کی طرح غیر یقینی سمجھتا ہے، جو کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ وہ نہ تو پیشگی طور پر سوچا سمجھا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی حتمی مظہریات پر ختم ہوتا ہے، بلکہ وہ خالصتاً وجودیت سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ’ثقافت ہمیشہ ایجادات در ایجادات کے عملی تسلسل پر مبنی ایک مفروضہ ہے۔‘ اس خیال نے سارتر کو عملیت پسند دانش ور کی حیثیت سے رُو شناس کرایا جو وقت کے ساتھ اپنے سٹانس کو واقعاتی تسلسل میں دیکھتا ہے۔ وہ انسانی آزادی کے اسباب میں راسخ الاعتقادی کا شکار نہیں ہوتا، بلکہ جنگ مخالف ہوتے ہوئے معروضیت کا قائل ہے۔ ’’سارتر کے کام میں انسانی آزادی پر ’اوور آرکئینگ موضوع‘ دراصل تہذیبی نظم و ضبط کے اہم حصوں یا بنیادوں کو تہہ و بالا کر دینے کے مترادف ہے‘‘ (۱۷)
یہی وجہ تھی کہ سارتر نے علم کی اساس پر مختلف ملکی اور عالمی مسائل کو موضوعِ سخن بنایا، جس میں عصری اداروں کی سیاسی و معاشی معروضات کے سماج پر اثرات، بالخصوص فرانس کے قانونی فریم ورک، تعلیمی سسٹم اور میڈیا نیٹ ورک جو مقامی شہریوں کے زندگی پر مکمل کنٹرول اور اثرات رکھتے تھے۔ سارتر دنیا بھر میں سماجی غیر ہمواری اور طبقاتی کشمکش میں خاموش رہنے سے تسلسل کے ساتھ انکار کرتا رہا۔ اس کی ہمدردیاں ہمیشہ بائیں بازو کے ساتھ رہیں۔ اس کی معاونت اور ہمدردیاں فرنچ کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ رہیں تا وقت کہ سوویت یونین نے ۱۹۵۶ء میں ہنگری پر حملہ کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد فرانس کے نوجوان طبقے نے جو سارتر کی فلسفے سے بے حد متاثر تھے، کیمونزم سے ہٹ کر سارتر کے وجودیت کے فلسفے کو اپنایا۔ اس کے بعد سارتر نے فرنچ کیمونسٹ پارٹی کے اس دعوٰی کو بھی تحکمانہ اندازِ فکر کی بنیاد پر مسترد کر دیا جس میں انھوں نے فرانس کے ورکنگ طبقے کی نمائندگی کا دعوٰی کیا تھا۔ یوں ۱۹۶۰ء کے اواخر تک سارتر ماؤ ازم کی حمایت کرتا رہا، جس نے کیمونسٹ پارٹی کی بالا دستی کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود کہ سارتر نے اپنی ہمدردیاں ماؤ ازم کے ساتھ رکھیں، اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی میری تمام کتابیں ایک بار پھر غور سے پڑھے، تو اسے معلوم ہوگا کہ میں نے اپنے آپ کو جوہری طور پر تبدیل نہیں کیا، بلکہ میں ایک نراجیت پسند (انارکسٹ) ہوں۔‘‘ (۱۸)
جنگ کے خاتمے کے بعد سارتر نے اپنے تمام کام کو جو حقیقت میں ابتدائی طور پر بہت اہم تھے ایک عمیق نظر سے دوبارہ جانچا اور عصری مسائل کے تناظر میں متبادل حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اس وقت سارتر اور دیگر عالمی دانش وروں کو جو سب سے بڑی مشکل پیش آ رہی تھی، وہ یہ کہ ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی ہو رہی تھی، جو پچھلے لفظوں کو تیزی سے متروک کر دیتے تھے۔ سارتر کے خیال میں ’’روایتی طور پر متوسط طبقے کی ادبی محافل کہیں بہتر ہیں، لیکن ٹیکنالوجی اور ماس میڈیا کے ذرائع کو گلے لگانا ضروری ہے۔ جس سے ورکنگ کلاس کا سیاسی و ثقافتی شعور مزید بڑھے گا۔‘‘
سارتر نے اپنے وقت میں ادب کی کئی ایک اصناف میں کام کیا، تاہم اس کا بڑا حصہ تنقید اور سوانح عمری پر مبنی ہے۔ اس کے ڈرامے بنیادی طور پر علامتی تھے، جس سے سارتر کا فلسفۂِ حیات اجاگر ہوتا ہے۔ اس کا مقبول ترین کام ’ہوس کلوز‘ یا ’ نو ایگزٹ‘ ہے۔ جس کی ایک سطر بے حد مقبول ہوئی، جس کو عمومی ترجمہ یہ کیا گیا۔ ’’دوسرے جہنم ہیں‘‘۔ ’ نوزیا ‘ کے علاوہ اس کا فکشن میں چونکا دینے والا کام جنگ کی ہولناکیوں پر مبنی دی روڈز ٹو فریڈم نامی ’’سہ المیہ‘‘ کو رقم کرناہے، جس نے سارتر کے خیالات پر تبدیلی کی چھاپ لگائی۔ اسی طرح ’دی روڈز ٹو فریڈم سے‘ سارتر پر وجودیت کی تھیوری سے کہیں زیادہ عملی اثرات آئے۔
باوجود حُجتی مماثلت رکھتے ہوئے سارتر بطور ناول نگار، آخذ اور ڈرامہ نگار کامیو کی مقبول خیالی تمثیل نگاری کی حریفانہ چشمک کا شکار رہا۔ ۱۹۴۸ء میں رومن کیتھولک چرچ نے سارتر کے کام کو ’ممنوعہ کتابوں کی لسٹ‘ پر رکھ دیا۔
مغرب کے کچھ فلسفیوں کا کہنا ہے کہ سارتر کے خیالات میں تضادات ہیں۔ خاص طور پر ان کا کہنا ہے کہ سارتر نے اپنے دعوے، کہ وہ اپنے فلسفیانہ خیالات میں مابعد الطبعیاتی سپیس نہیں رکھتا، کے باوجود اِس نے مابعد الطبعیاتی استدلال کا سہارا لیا ہے۔ ہربٹ مارکیوز ’بینگ اینڈ نتھنگ نس‘ پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سارتر وجودیت کے فطری جوہر پر صرف اندیشے اور تشویش کا اظہار کرتاہے، جو بے معنویت کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں تک وجودیت کا تعلق ہے یہ ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ یہ وہ تصورِ عینیت ہے، جو انسانی وجود کے تاریخی ماخذوں کو مابعد الطبعیاتی جوہر میں تجربیت سے ظاہر کرتا ہے، لہٰذا سارتر کا نظریۂِ وجودیت بھی اسی کا ایک حصہ ہے جس سے سارتر اس پوری آئیڈیالوجی پر حملہ آور ہے، جو وہمے کی انتہا پسندی ہے۔
’’انسانیت پر ایک مراسلہ‘‘ میں جرمن فلسفی مارٹن ہیڈیگر سارتر کے فلسفۂِ وجودیت پر کچھ اس طرح تنقید کرتا ہے:
’’نظریہ وجودیت ہستی کو جوہر پر تقدیم دیتا ہے۔ یہاں وہ وجود اور جوہر دونوں کو مابعد الطبعیات معانی دیتا ہے، جو افلاطون کے وقت سے رائج ہیں، جس میں جوہر کو ہستی پر ترجیح دی گئی۔ سارتر نے اس کی ترتیب کو الٹ دیا۔ تاہم اس ترتیب کے بدلے جانے کے باوجود وہ ما بعد الطبعیات بیانیہ تو رہتا ہے۔ اس پر، ہیڈیگر کا خیال ہے، کہ سارتر لاشعوری طور پر ’بیِنگ‘ یعنی ’ہست ‘ کے سچ کو جان نہیں پایا ہے۔‘‘
ںوٹ : یہ مضمون اپنے جوہر میں نوجوان طالب علموں کے لیے زیادہ مفید ہے چُوں کہ یہ مضمون مندرجہ ذیل مضامین اور حوالوں سے اخذ کر کے ترجمہ کیا گیا ہے، کچھ حوالے وہ ہیں جو پہلے سے اہل مضمون حضرات نے تحقیق کے دوران دیے، کچھ نئے حوالے احقر نے لیے اور ترجمہ کیا۔ چوں کہ ان میں سے بیشتر تحاریر انگریزی میں تھیں، لہٰذا احقر اس مضمون کا صرف محقق، مترجم ، آخذ و مرتب ہے۔
Sources
Aronson, Ronald (1980) Jean-Paul Sartre – Philosophyld. London: NLB
Gerassi, John (1989) Jean-Paul Sartre: Hated Conscience
of His Century. Volume 1: Protestant o
Protester? Chicago: University of Chicago Press
Judaken, Jonathan (2006) “Jean-Paul Sartre and the
Jewish Question: Anti-anti-Semitism and the Politics
of the French Intellectual. Lincoln: University of
Nebraska Press
Kirsner, Douglas (2003) The Schizoid World of
Jean-Paul Sartre and R.D. Laing New York:
Scriven, Michael (1993) Sartre and The Media.
London: MacMillan Press Ltd
Scriven, Michael (1999) Jean-Paul Sartre: Politics
and Culture in Postwar France. London: MacMillan
Press Ltd
Thody, Philip (1964) Jean-Paul Sartre. London:
Hamish Hamilton
For detailed chronology of Sartre’s life, see Ronald Hayman “Sartre a biography” (Carroll & Graf Publishers, INC 1987 pages 485/511.
References1. Noble Foundation 1964 “Minnen bera Minnen” ISBN 9100571407 year-2000 by Lars & Gyllensten. Noble Prize in Literature 1964 Press Release.
2. “Sartre” Random House Webster unbridged Dictionary.
3. Jean-Pierre Boule ‘Sartre Self formation & Masculinities p/53 + Cohen-Solal Anne 1998 ‘Sartre & Life’ p/ 61-2
4. ‘Sartre ‘by David Drake p/26 + John Grassy (1989) ‘Jean.P. Sartre p/ 76-77
5. Le Sueur James D, Pierre Bourdieu (2005) Uncivil War, Intellectually Identity Politics during the Decolonization of Algeria University of Nebraska Press p/178.
6. Ann Fulton Apostles of Sartre Existentialism in America 1945-63 (North Western University Press 1999) p/12.
7. Amazon Review of “Bolivian Diary. Authorized Edition Amazon.com ISBN 1920888241.
8. Hyeche.org People about Che Guevara
9. i)”Sartre at Seventy. An interview J. Paul Sartre by Michant Contect
The New York review of Books 7th August 1975 ii) RA Forums (Sartre by himself) iii) Interview by J. P. Sartre in the Philosophy of J.P. Sartre ed. P.A. Schilpp p/21
10. Noble prize. Org.
11. “Historie de letters J.P. Sartre Le Prix Noble en 1964 Elodea Bessie
12. Charles worth Max (1976) University of Queensland press p/ 154 ISBN 0-7022-115-8
13. New Criterion review of Simon de Beauvoir.
14. History Du Monde Singer Daniel (5.6.2000).
15. Adler Franz. The Social Thoughts of Jean Paul Sartre (American journal of Sociology 55/3)
16. as above.
17. Kirsner 2003: 13.
18. Please see reference at