حالت یہ ہے کہ ایک اچھا خاصا فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے کہ جناب ہمارے پاس آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ایک درخواست آئی ہے۔ ہم نے ہمت کی اُسے سُنا، درخواست دینے والے راہی صاحب راہ سے ہٹے تو اُنھیں ثابت قدم رکھنے کی کوشش بھی کی اور اس اہم معاملے پر حکومت سے جواب طلب کیا مگر حکومت نے پکڑائی نہ دی۔
نوٹیفیکشن پر نوٹیفکیشن جاری ہوتے رہے، اٹارنی جنرل کی آنیاں جانیاں لگی رہیں، کابینہ کے خصوصی اجلاس منعقد ہوئے اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔۔۔ پھر غلطیاں۔
یہاں تک کہ آخری تصیح بھی عدالت نے ہی کرائی اور حکومت نے بےدلی سے آئندہ چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کی قسمیں اُٹھا کر جان چھڑائی۔
معاملہ حکومت کی بے وقوفی اور نا اہلی کی نذر ہو گیا اور گود میں بیٹھے بچے نے داڑھی ہاتھ میں پکڑ کر اپنی نادانی پر ’اچھا سوری‘ کہہ کر آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔
عدالت نے انتہائی متانت کے ساتھ بتایا کہ ہم چھ ماہ دیتے ہیں لیکن چونکہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی پر آئین اور قانون خاموش ہے لہذا پاکستان کی آئینی اعتبار سے ’مقتدر‘ پارلیمان اپنا اختیار تسلیم کرتے ہوئے قانون سازی کرے کہ توسیع، دوبارہ تعیناتی وغیرہ کیسے کرنی چاہیے؟
پاکستانیو! ایسا سُنتے ہی پارلیمان میں بیٹھے پارلمینٹرینز کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ن لیگ لندن بھاگ گئی، اجلاس پر اجلاس منعقد ہوتے رہے۔
شہباز شریف کے ہیٹ والے انٹرویوز میں سراسیمگی سی دوڑ گئی، آواز رُند سی گئی اور چہرہ مزید سرد ہو گیا۔ شاید لندن کی سردی کا اثر تھا کہ احسن اقبال اور شہباز شریف فقط ’ان ہاؤس‘ تبدیلی کی فرمائش ہی ڈال سکے اور چونکہ ہم جیسوں کو بقول شیخ رشید احمد پنڈی کے گیٹ نمبر چار سے واقفیت نہیں لہذا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پنڈی کا موڈ اس پر کیا ہے۔
ویسے بھی پنڈی اس وقت کُلی طور پر اسلام آباد کے رحم و کرم پر ہے لہذا اس بارے میں بھی ’آئین‘ مکمل طور پر خاموش ہے۔
پیپلز پارٹی البتہ زرداری صاحب کی ضمانت پر ہی خوش ہے کہ بہرحال اس سارے معاملے میں زرداری صاحب کو انصاف تو مل ہی گیا۔ معاملہ یہاں بھی ن لیگ سے کچھ مختلف نہیں۔
اپوزیشن سے یہ سوال اگر غلطی سے بھی پوچھ لیا جائے کہ کیا آپ توسیع کی مخالفت کریں گے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جواب کہیں گلے میں ہی رہ جاتا ہے، چہرے پر مسکینی اور آواز کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ سوال پوچھ کر لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی غلطی سر زد ہو گئی ہے۔
اُدھر حکومت کے کچھ عناصر مسلسل اسے عدالتی غلطی بتا رہے ہیں۔ کبھی جسٹس چوہدری کی حکومت اور انتظامی معاملات میں مداخلت کی حمایت کرنے والے اب اسی جسٹس چوہدری کے خلاف بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور کبھی موجودہ عدالت سے شکوہ کناں کہ کس اختیار کے تحت صرف چھ مہینے دینے کی جسارت کی۔
یعنی غلطی پر غلطی کرنے والی حکومت عدالت پر نکتہ چینی کر رہی ہے۔ واہ ری خوش نصیبی، یہ کسی اور جماعت نے کیا ہوتا تو اب تک داستان بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔
ان حالات میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایوان تین نہیں چھ سال کی حد بھی مقرر کرنے کو تیار ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں سوال قومی مفاد کا ہے۔ لہذا جناب باجوہ صاحب! اچھا سر سوری۔ پلیز جانے کی باتیں جانے دیں۔