کراچی میں درمیانی عمر کے شخص نے مبینہ طور پر شدید مالی مشکلات کے باعث اپنے اہلخانہ کی ضروریات پوری نہ کر پانے پر خود کشی کر لی۔ پولیس کے مطابق متوفی کی عمر لگ بھگ چالیس برس تھی اور وہ علاقہ کورنگی (ابراہیم حیدری) کا رہائشی تھا، اس کا نام میر حسن تھا اور اس کے پانچ بچے تھے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ متوفی نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی جس کے بعد اسے ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال کے برن سینٹر منتقل کیا گیا۔ خود سوزی کے باعث اس کے جسم کا 65 فی صد حصہ جل گیا تھا۔ میر حسن نے دورانِ علاج دم توڑ دیا۔
میر حسن تین ماہ سے بیروزگار تھا اور اس نے وزیراعظم کے نام ایک خط لکھ کر مکان بھی مانگا تھا۔ شاید اسے یقین ہو گا کہ وزیراعظم پچاس لاکھ گھر دینے والے ہیں تو ان میں سے ایک اسے ضرور ملے گا لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوا۔ شاید وہ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے اس قدر تنگ آ چکا تھا کہ مذید انتظار کا حوصلہ نہ کر سکا ہو گا۔ شاید اس نے بھی وزیراعظم کا یہ بیان سنا ہو گا کہ سکون قبر میں ہی مل سکتا تھا۔ چناں چہ وہ سکون کی خاطر قبر میں اتر گیا۔
وہ پانچ بچے جو باپ سے محروم ہو گئے اب انہیں سکون کیسے ملے گا۔ شاید انہیں بھی سکون کی خاطر قبر میں اترنا پڑے گا۔ متوفی کے ایک بچے نے ٹی وی اینکر کو بتایا کہ اس نے سردی کی وجہ سے اپنے باپ سے کہا تھا کہ ہمیں گرم کپڑے لے کر دو۔ اس کی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا بیٹا مہنگائی اور بیروزگاری سے بہت پریشان تھا۔ اسے کس قدر پریشانی ہو گی کہ اس کے بچے سردی سے ٹھٹھرتے ہیں اور وہ انہیں گرم کپڑے نہیں لے کر دے سکتا۔ وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا کہ ٹی وی پر اعداد و شمار دیکھ کر سر دھنتا کہ کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ چیخ رہے ہیں۔ کاروبار بند ہیں۔ اور حکومت دعوے کرتی ہے کہ ملکی معیشت صحیح سمت میں رواں دواں ہے۔ خسارہ کم ہو رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ورلڈ بینک کے پریذیڈنٹ نے ہماری اکانومی کی تعریف کی ہے۔ جب کہ میر حسن کی خود کشی کا المناک واقعہ اس بیان کی تردید کر رہا ہے۔
کپتان نے ”گھبرانا نہیں ہے“ کہتے کہتے تقریباً ڈیڑھ سال تو گزار لیا ہے۔ امید ہے کہ وہ بقیہ ساڑھے تین سال بھی گزار لیں گے۔ مگر جو وعدے کر کے وہ اقتدار میں آئے تھے فی الحال ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ انہوں نے بار بار کہا تھا کہ ملک چوروں اور ڈاکوؤں کے قبضے میں ہے۔ وہ عوام کا پیسہ چوری کر رہے ہیں۔ مگر وہ کیسے چور تھے کہ ان کے دور میں سونا پچانوے ہزار روپے فی تولہ نہیں ساٹھ ہزار سے بھی کم تھا۔ پیٹرول ایک سو اٹھارہ روپے نہیں ستر روپے لٹر کے لگ بھگ تھا۔ چیزوں کی قیمتیں آسمان پر نہیں تھیں، مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر بے قابو نہیں ہوا تھا۔
ملک میں سڑکیں بھی بن رہی تھیں، میٹرو اور اورنج لائن جیسے منصوبے بھی چل رہے تھے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ہم سڑکیں نہیں بنائیں گے۔ عوام پر پیسہ لگائیں گے۔ شاید اسی لیے انہوں نے بے نظیر انکم سکیم سے لاکھوں نام نکال دیے ہیں۔ اب وہ پیسہ بھی حکومت کے خزانے میں جمع ہو گا تاکہ غریبوں پر لگایا جا سکے۔ ڈیم کا پیسہ بھی جمع ہے لیکن ڈیم کا کام بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ ٹیکس کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سمیت حکومت ہر جگہ اور ہر معاملے میں سادگی اختیار کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ بقول کپتان کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بد حالی تھی۔ اب تو ان کو اقتدار مل چکا ہے پھر خوشحالی کیوں دکھائی نہیں دے رہی۔
مانا کہ تبدیلی ایک دم نظر نہیں آ سکتی مگر کوئی آثار تو دکھائی دینے چاہییں۔ یہاں تو دور دور تک خوشحالی کا نشان تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے بجائے وزیراعظم کہتے ہیں کہ سکون قبر میں ہی مل سکتا ہے۔ میر حسن کی خود سوزی لمحہ فکریہ ہے۔ اور کتنا وقت چاہیے حکومت کو۔ حالات بدلنے کے کسی امکان پر اسی وقت یقین آ سکتا ہے جب عملی طور پر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ محض وعدوں سے کوئی کب تک بہل سکتا ہے۔
پچاس لاکھ نہ سہی پچاس گھر، پچاس غریبوں کو مل جاتے تو کوئی آس پیدا ہوتی۔ ابھی تک ایک گھر بھی کسی کو نہ مل سکا۔ وزیر اعظم کو جلد سے جلد مہنگائی پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے چاہییں بصورتِ دیگر انتہائی غربت میں گزر بسر کرنے والے لوگ گھبرا کر ہمت ہار دیں گے اور انہی کے مشورے کے مطابق سکون ڈھونڈنے کے لیے قبروں میں اتر جائیں گے۔