میرے ایک ادیب دوست نے، جو درویش بھی ہیں اور دانشور بھی، مجھے ایک مشکل سا سوال بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں ”کیا جنسی خواہش اور تخلیقی صلاحیت میں کوئی کوریلیشن پایا جاتا ہے؟ اگر ایک (حسبِ معمول) عالمانہ کالم اس موضوع پر ارسال فرمائیں تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔ نیازمند“ ۔
قبلہ و کعبہ! پہلے تو میں آپ کی یہ خوش فہمی دور کر دوں کہ میں نہ عالم ہوں نہ فاضل، نہ محقق ہوں نہ نقاد۔ میں تو زندگی، ادب اور انسانی نفسیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ جو دیکھتا ہوں، جو محسوس کرتا ہوں، جو پڑھتا ہوں اور جو سوچتا ہوں وہ لکھ دیتا ہوں اور اپنے نظریاتی اور ادبی سفر میں دوسروں کو شریک کر کے خوش ہوتا ہوں۔ یہ میری خوش بختی کہ ایک درویش کو زندگی میں ایک اور درویش مل گیا ہے جس کی محبت، دوستی اور اپنائیت سے زندگی کا مشکل سفر قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
حضورِ والا! میرا یہ خیال ہے کہ ہر ملک، ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر دور میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
پہلا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتے ہیں۔ میں انہیں روایتی اکثریت اور ٹریڈیشنل میجارٹی کہتا ہوں۔ ایسے لوگ جب جوان ہوتے ہیں تو ان کی خواہش، ان کی آرزو اور ان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ شادی کریں، بچے پیدا کریں، ایک خاندان بنائیں اور افزئشِ نسل کا سلسلہ جاری رکھیِں۔ وہ مذہبی روایات پر چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اگر روایت توڑتے ہیں تو احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے محبت، جنس، شادی اور بچے ایک پیکیج کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بچے پیدا کر کے صدیوں پرانی روایات اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو روایت کی شاہراہ چھوڑ کر اپنے من کی پگڈندی پر چلتے ہیں۔ میں انہیں تخلیقی اقلیت اور کری ایٹو مائنارٹی کہتا ہوں۔ اس گروہ میں ادیب، شاعر، فنکار اور دانشور سبھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافقانہ، جابرانہ، ظالمانہ اور غیرمنصفانہ روایات کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک بہتر زندگی کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے اپنے آدرش ہوتے ہیں اور وہ اپنے خوابوں اور آدرشوں کے لیے قربانیاں دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک نسل کی پگڈنڈیاں اگلی نسل کی شاہراہیں بن جاتی ہے اور ایک نسل کے ولن اگلی نسل کے ہیرو بن جاتے ہیں۔
اب ہم جنسیات کی نفسیات کے حوالے سے کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ کا کہنا تھا کہ جنس انسانی جبلت اور انسٹنکٹ کا حصہ ہے۔ ماضی بعید میں قبائلی طرزِ زندگی میں مردوں اور عورتوں کو اپنے جنسی جذبات کے اظہار کی زیادہ آزادی تھی لیکن جب انسان نے مہذب بننے کی کوشش کی اور مختلف مذاہب تخلیق کیے تو اس نے جنسی جذبات پر پابندیاں عاید کیں اور اس کا رشتہ گناہ و ثواب سے جوڑ دیا۔ جب انسان جنسی جذبات کے اظہار کو گناہ سمجھتا ہے تو وہ اسے شعور سے اپنے لاشعور میں دھکیل دیتا ہے فرائڈ اس عمل کو ریپریشن کا نام دیتا تھا۔
لاشعور میں جا کر جنسی جذبات نفسیاتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ فرائڈ نے اپنی زندگی میں بہت سی ایسی نوجوان عورتوں کا علاج کیا جو ہسٹیریا کے نفسیاتی مسئلے کا شکار تھیں۔ فرائڈ کا نظریہ یہ تھا کہ عورتوں میں ہسٹیریا کا مسئلہ لاشعور میں دبائے گئے جنسی جذبات کی وجہ سے تھا جو نفسیاتی علاج اور تحلیلِ نفسی سے ٹھیک ہو سکتا تھا۔
فرائڈ کا یہ بھی موقف تھا کہ وہ لوگ جو فنکار ہوتے ہیں وہ اپنے جنسی جذبات کا ایسا فنکارانہ اظہار کرتے ہیں جو ان کے معاشرے کے لیے نہ صرف قابلِ قبول ہوتا ہے بلکہ اس کے جمالیاتی ذوق کو بڑھاوا بھی دیتا ہے۔ فرائڈ اس عمل کو سبلی میشن کا نام دیتا تھا۔ اپنی محبوبہ کے لیے جب
ایک شاعر غزل لکھتا ہے
ایک افسانہ نگار افسانہ تخلیق کرتا ہے
ایک موسیقار نغمہ گاتا ہے اور
ایک فلمساز فلم بناتا ہے
تو وہ اسی ارتفاعی عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ جنسی جذبات کا بالواسطہ اور انڈائریکٹ تخلیقی اظہار کرتا ہے جس سے اس کے قارئین اور سامعین مسحور بھی ہوتے ہیں اور محظوظ بھی۔
ایک افسانہ نگار افسانہ تخلیق کرتا ہے
ایک موسیقار نغمہ گاتا ہے اور
ایک فلمساز فلم بناتا ہے
تو وہ اسی ارتفاعی عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ جنسی جذبات کا بالواسطہ اور انڈائریکٹ تخلیقی اظہار کرتا ہے جس سے اس کے قارئین اور سامعین مسحور بھی ہوتے ہیں اور محظوظ بھی۔
فنکار اپنے جنسی جذبات کا نہ صرف اپنے فن میں بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی فنکارانہ طور پر اظہار کرتے ہیں۔ ایسے فنکار غیر روایتی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی رومانوی زندگی گنجلک، پیچیدہ اور تہہ دار ہوتی ہے۔ ہم شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور دانشوروں کی رومانوی زندگی کو روایتی انسانوں کی اخلاقیات کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتے۔
جب ہم ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور دانشوروں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رومانوی زندگی کا ان کی تخلیقی اور فنی زندگی سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ شادی اور خاندان کی روایات کو چیلنج کرتے ہیں اور غیر روایتی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے جب فیض احمد فیض، علامہ محمد اقبال، سگمنڈ فرائڈ، کارل ینگ، نیلسن منڈیلا اور کئی اور دانشوروں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا تو ان کی رومانوی زندگی کی تحلیلِ نفسی کر کے کئی مضامین لکھے جن میں سے بعض ”ہم سب“ پر بھی چھپے۔
ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور دانشوروں کی رومانوی زندگی کی تحلیلِ نفسی کے حوالے سے میں جس ماہرِ نفیسیات کی تحقیق کا سب سے زیادہ معترف ہوں ان کا نام ابراہم میسلو ہے۔ میسلو نے کامیاب فنکاروں اور دانشوروں کے انٹرویو بھی لیے اور ان کا تجزیہ بھی کیا۔ وہ ایسی تخلیقی شخصیتوں کو سیلف ایکچولائزنگ پیپل کا نام دیتے ہیں۔ میسلو اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے لوگوں کی جنسی زندگی، روایتی لوگوں کی جنسی زندگی سے دو طرح مختلف ہوتی ہے۔
پہلا فرق یہ ہے کہ روایتی عام انسانوں کی جنسی بھوک ان کی کھانے کی بھوک کی طرح ہوتی ہے۔ اگر ان کی جنسی خواہشات پوری نہ ہوں تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن تخلیقی لوگ اپنی جنسی خواہشات کا غیر روایتی اظہار کرتے ہیں۔ چاہیں تو کئی لوگوں سے بیک وقت تعلق قائم کر لیتے ہیں نہ چاہیں تو مدتوں کسی ایک سے بھی تعلق قائم نہیں کرتے۔ اور جب رومانوی تعلق قائم کریں تو اس کا مقصد لازمی نہیں کہ شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہو۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ میسلو کے سیلف ایکچولائزڈ پیپل ایک طرف جنس سے بے نیاز ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی تنہائی میں اپنے تخلیقی کاموں میں غرق ہوتے ہیں لیکن جب ان کا کسی خاص محبوب یا محبوبہ سے رومانوی تعلق قائم ہوتا ہے تو اس میں صرف جنس ہی نہیں اس میں محبت، پیار، خلوص اور اپنائیت بھی ہوتی ہے۔ ان کے رشتے
mysterious، magical and mystical
ہوتے ہیں۔ ان کی محبت بھی عبادت کی طرح ہوتی ہے جس میں احساسِ ندامت یا احساسِ گناہ شامل نہیں ہوتا۔
mysterious، magical and mystical
ہوتے ہیں۔ ان کی محبت بھی عبادت کی طرح ہوتی ہے جس میں احساسِ ندامت یا احساسِ گناہ شامل نہیں ہوتا۔
روایتی لوگ تخلیقی لوگوں کی جنسی اور رومانوی زندگی کو گناہ و ثواب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور فتوے لگاتے ہیں لیکن وہ خود ایسی روایتی اخلاقیات سے بالا تر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں بقول عارفؔ عبدالمتین
؎ بس ایک ثبوت اپنی وفا کاہے مرے پاس
میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں
اوربقول فیض ؎ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں
اوربقول فیض ؎ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
ایسے لوگ محبت کی کسی اور ہی موسیقی پررقص کرتے ہیں ایسی موسیقی جس سے روایتی لوگ نامانوس ہوتے ہیں۔
قبلہ و کعبہ! آپ نے پوچھا ہے کہ ”کیا جنسی خواہش اور تخلیقی صلاحیت کا کوئی رشتہ ہے؟“ مختصر جواب تو یہ ہے کہ ”جی ہاں گہرا رشتہ ہے لیکن وہ رشتہ نہایت تہہ دار اور پراسرار ہے جس میں بہت سے نفسیاتی، سماجی، اخلاقی اور تخلیقی عوامل شامل ہیں۔“
قبلہ و کعبہ! آپ نے پوچھا ہے کہ ”کیا جنسی خواہش اور تخلیقی صلاحیت کا کوئی رشتہ ہے؟“ مختصر جواب تو یہ ہے کہ ”جی ہاں گہرا رشتہ ہے لیکن وہ رشتہ نہایت تہہ دار اور پراسرار ہے جس میں بہت سے نفسیاتی، سماجی، اخلاقی اور تخلیقی عوامل شامل ہیں۔“