لاہور میں رہنے والے اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہیں بھی جانا ہو تو ایک بس، یا ویگن یا رکشہ کافی نہیں ہوتا۔ جی ہاں رکشہ بھی نہیں جاتا اگر آپ نے واپڈا ٹاوَن سے جلو موڑ تک جانا ہو تو رکشے بھی تین کم سے کم بدلنے پڑ جاتے ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مجھے بھی اکثر یونیورسٹی جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گلبرگ کے پچھواڑے میں کیولری گراؤنڈ کے پل کے نیچے ریلوے لائن ہے جو لاہور سٹیشن سے آتی ہے اور وہیں پہ والٹن سٹیشن بھی ہے فلائنگ کلب کے ساتھ۔ چونکہ ریلوے لائین ہے تو وہاں پھاٹک بھی ہے جو دن میں کئی دفعہ بند ہوتا ہے اور کیولری گراِونڈ اور والٹن سے آتی ہوئی ٹریفک جسے گلبرگ جانا ہوتا ہے اور دوسری طرف گلبرگ سے آتی ہوئی ٹریفک جسے اِس پار آنا ہوتا ہے اکثر انتظار کرتے ہیں اور اگر کبھی پھاٹک کھلا مل جائے تو شکر بھی ادا کرتے ہیں اپنی خوش قسمتی پہ۔
وہ دن بھی ایسا ہی تھا پھاٹک خوش قسمتی سے کھلا مل گیا تھا، یونیورسٹی پہنچنے کی جلدی والی ٹینشن اور ویگن میں کھڑکی والی سیٹ سے چلتی سڑک دیکھتے ہوئے، وہیں ایک بچی جو قریب 4 سے 5 سال کی ہوگی اور اُسے کوئی آدمی فرنچ کس کر رہا تھا اور قریب میں کوئی تیں مرد اور بھی کھڑے دیکھ رہے تھے، یہ منظر تھا تو چند لمحوں کا، اُتنے ہی لمحے جتنے ایک چلتی گاڑی سے کوئی سائن بورڈ دیکھتے ہوَئے لگتے ہیں۔ اور وہ منظر ذہن سے چپیک کر رہ گیا، آج کل کی طرح نہیں کہ سوشل میڈیا پہ ایک مذہبی پوسٹ کے بعد ایک فلمی پوسٹ اور پچھلا منظر بھول گئے۔
میں اُس جنریشن سے ہوں جن کا بچپن موبائل اور انٹرنیٹ کے بنا گزرا اور سوشل میڈیا تک رسائی یونیورسٹی آ کر ہوئی، اور اب بھی دو طرح کے سوشل میڈیا اپلیکیشن استعمال کرنے کے بعد تیسری اپیلیکیشن کھولتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے میری جنریشن کے لوگ اب بھی سکرین شارٹ کے بنا کوئی بات اچھی طرح ذہن نشین رکھ سکتے ہیں اور یہ واقعہ بھی مجھے کچھ ایسے ہی یاد ہے۔
اس واقعہ پہ سیر حاصل تجزیہ سے پہلے ایک اور واقعہ میرے ذہن میں آیا ہے، یہ بھی یونیوریسٹی کے دنوں کی بات ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایک فیملی فیصل آباد کے گرد و نواح سے شفٹ ہوئی تھی نیا نویلا شادی شدہ جوڑا جس میں نئی صرف شادی تھی۔ جوڑا نہیں کیونکہ شوہر کافی عرصہ سے نوکری پہ تھے مطلب عمر کوئی تیس سے اوپر تو ہوگی اور بیوی تو تھی ہی کم عمر ایف اے کے بعد ہی تو شادی ہوگئی تھی (ہمارے معاشرے میں لڑکی ایف اے کے بعد پانچ سال سے گھر ہی کیوں نا بیٹھی ہو کہلاتی اٹھارہ سال کی کم عمر ہی ہے اور ایم اے والی کو پکی عمر والی کہا جاتا ہے گویا اس کا بڑھاپا شروع ہو چکا ہے) تو چونکہ لڑکی کم عر تھی اور شوھر کے دفتر جانے کے بعد اکیلے میں ڈرتی تھی سسرال لاہور میں تھا نہیں تو فیصلہ ہوا کہ چھوٹی بہن جو کہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی کو ساتھ رکھ لیا جاَئے اور وہ پرائیویٹ پڑھ لے گی۔ بہن کا ساتھ بھی ہو جاے گا چنانچہ وہ وہاں رہنے آ گئی۔
یوں تو محلے میں جانے کی فرصت مجھے کبھی نہیں ہوئی پر دیور سے دیوار ملی ہو تو کبھی کبھار شکر، دہی کے بہانے یا گھر آتے جاتے ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔ ویسے میرا اس ساتویں میں پڑھتی بچی سے نا توکوئی مقابلہ تھا اور نا ہونا چاہیے تھا پر اس سے مل کر مجھے ہمیشہ لگا کہ یا تو وہ بہت تیز بولتی ہے کہ سننے والے کو کانوں کے ساتھ آنکھیں بھی کھلی رکھنی پڑتی ہیں یا میں زیادہ سلو بولتی ہوں۔ کیونکہ میری جگہ اُس نے ریڈیو کے لیے آڈیشن دیا ہوتا تو ضرور آر جے کے لیے سلیکٹ ہوتی۔
اس آتے جاتے کی سرسری ملاقات میں وقت کے ساتھ ساتھ یہی پتا چلتا رہا کہ وہ پڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ نئے نویلے جوڑے کے کتنے بچے ہوگئے ہیں۔ پر مصروفیت اور محلے کی ٹوہ کی عادت نا ہونے کی وجہ سے کبھی تفصیلی ملاقت نہیں رہی۔ بھلا ہو برسات کی بارشوں اور لوڈ شیڈنگ کا جو چھت پہ اکثر محلے والوں کی ملاقات کروا دیتی ہے اور اس دن بھی لوڈ شیڈنگ والی ملاقات تھی جب اُن کا تیسرا بیٹا ایک سال تھا اور وہ بچی اب ساتویں کلاس سے ایف اے تک آگئی تھی اور باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ چھوٹا والا لپ کِس بہت اچھی کرتا ہے، اسے میں نے سکھائی ہے اور وہیں ڈیمو بھی دیا گیا لپ کِس کرنے کا۔
یہ دونوں واقعات کچھ دنوں سے دوبارہ اس لیے ذہن میں گھوم رہے ہیں کہ کچھ دن پہلے ایک دوست نے اپنے شوہر کو سالگرہ کی مبارک کی تصاویر لگائی ہوئی تھی جس میں اس کے بچوں کی اپنے بابا کے ساتھ تصویریں (سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ کوئی انہونی تو ہے نہیں کہ اپنے باپ، بھائی، شوہر، بیوی، بیٹی، ماں کو سٹیٹس لگا کر سالگرہ وش کرنا) بھی تھی۔ اس کی تقریباً تین سال کی بیٹی اپنے بابا کو لپ کس کر رہی تھی، سو بات اس تصویر کی ہے جو مجھے پرانی باتیں یاد کروا گئی۔
کیا ہوا بیٹی ہی ہے نا، لیکن ساتھ ہی وہ بات گھوم گئی کہ اس سہیلی کے شوہر یعنی وہی سالگرہ والے بابا کی ایک عرب ملک سے نوکری کا کنٹریکٹ ختم ہوا تھا اور یوں ہی باتوں باتوں میں سہیلی نے کہا تھا اگر تو کسی عرب ملک میں نوکری ملے تو میرے شوہر کریں گے ورنہ پاکستان واپس جائیں گے۔ کسی یورپی ممالک میں نہیں جانا ہم نے۔ استفسار کرنے پر کہ ایسا کیوں ہے تو جواب ملا تھا کہ میرے شوھر کہتے ہیں کہ بچوں کی پروریش کے لیے وہ ممالک ٹھیک نہیں۔
سوشل میڈیا پہ ایسی تصاویر عام ہیں، اور کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا، کریں بھی کیوں بھئی اپنے باپ کے ساتھ، ماں کے ساتھ ہی تو ہے نا، بچی ہے، بچہ ہے۔ میں یہ بات عام حالات میں جب بھی کسی سے کروں تو جواب یہی آتا ہے تمہارے ذہن میں گند ہے جو ایسی بات کوغلط رنگ دے رہی ہو۔ پر یہی معاشرہ خود ہی ایک عجیب سی حد بندی بھی کرتا ہے، بیٹی پیدا ہو تو باپ ڈائپر نہیں بدلے گا، کپڑے نہیں بدلوائے گا۔ یوں تو یہ عام بات ہے۔ مڈل کلاس میں ایک برٹیش بورن پاکستانی، جس کا پورا خاندان اب بھی انگلینڈ میں ہے سوائے اس کی فیملی کے، جب اُن کو بیٹی کی مبارک باد دی تو کہا اب تو دونوں میاں بیوی کی ذمہ داریاں بٹ جائیں گی، ایک وقت بیوی سنبھالے گی اور ایک وقت تم چونکہ دونوں جاب کرتے ہیں۔ تو آگے سے جواب آیا تھا، یہ بات پہلے بھی کسی نے کہی تھی خالہ کے سامنے، تو خالہ نے کہا تھا ڈائپر تو تم نہیں بدلو گے کبھی بھی بیٹی ہے اس لیے۔ عجیب انتہاؤں میں بٹا معاشرہ ہے۔ ایک طرف باپ اور بیٹی کا پردہ یاد آجاتا ہے، یورپ بے ہودہ لگتا ہے اور دوسری طرف ماڈرن دکھنے کے لیے کِس سکھائی جاتی ہے۔
بات صرف یہاں تک نہیں ہے
مان لیا کہ بری بات نہیں لپ کسِ بچوں کو سکھانا، پر یہی عادت جب بچے بڑے ہو کر اپناتے ہیں تو غیرت کے نام پہ قتل ہو جاتے ہیں، مذہب یاد آجاتا ہے کہ ہمارا مذہب اسے حرام کہتا ہے۔ یا یہی کام گھر سے باہر کریں گے تو آوارہ کہلائیں گے کیوں؟
بچوں کو یہ عادت جب گھر سے ملتی ہے تو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ گھر سے باہر یہ سب کسی غیر کے ساتھ نہیں کرنا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ گڈ ٹچ بیڈ ٹچ میں ماں باپ کے علاوہ کسی کا نا صرف ہاتھ لگانا بلکہ کِس کرنا بھی آتا ہے، یہ کیوں نہیں بتاتے؟
بچوں کے ریپ کیسس میں مولویوں، سکول ٹیچروں، چچا، ماموں، خالو، پھپا، معاشرے، مذہب پہ الزام دینے والے والدین، لبرل، فمینیسٹ، کمیونسٹ، تربیت کرنا کیوں بھول جاتے ہیں۔
ماڈرن ہونا بری بات نہیں، پر کیا ماڈرنِزم میں صرف کِس کرنا آتا ہے؟
اور ہاں میڈیکلی کہا جاتا ہے کہ منہ کے اندر سب سے زیادہ جراثیم ہوتے ہیں، اور بچے بہت نازک۔ آپ کے منہ کا کوئی جراثیم آپ کے اپنے ہی بچے کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔
مذہب، معاشرہ، لوگ کیا کہیں گے، ارے اتنے فرسودہ خیالات آج کل نہیں چلتے، سے ہٹ کر سوچیے گا ضرور کیونکہ یہ آپ کے بچے کی صحت اور مستقبل کا سوال ہے۔
غالباً ہم ماڈرن کم اور کنفیوز زیادہ ہیں