پاکستان میں مذہب کی جبراً تبدیلی کی شکایات اور اس کے انسداد کی قانون سازی کے لیے سفارشات مرتب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ان کا مینڈیٹ مذہب کی جبری تبدیلی ہے نہ کہ مذہب کی تبدیلی، اور وہ کم عمری میں مذہب کی تبدیلی پر قدغن نہیں لگائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی یہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی موجود ہے۔
اس کمیٹی کے قیام کا فیصلہ اس وقت ہوا تھا جب وزیر اعظم کے سندھ کے دورے کے موقعے پر اقلیتی ہندو برادری نے لڑکیوں کے مذہب مبینہ طور پر زبردستی تبدیل کروائے جانے کی شکایت کی۔
پارلیمانی کمیٹی نے سکھر میں شمالی سندھ کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور پولیس سربراہان کے ساتھ ہندو کمیونٹی کے وفود سے ملاقات کی اور ان کی شکایات سنیں۔
کراچی میں سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کمیٹی کے ارکان رکن قومی اسمبلی لال چند مالہی اور رکن صوبائی اسمبلی نند کمار گوکلانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’کم عمر‘ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’روحانی سفر کم عمری میں بھی شروع ہوسکتا ہے۔ ہم قانون سازی میں اس پر قدغن نہیں لگا رہے ہیں، مسئلہ کم عمری کی شادی کا ہے۔ 18 سال سے کم عمر میں لائسنس نہ دینے اور ووٹ کا حق نہ دینے کی بات ہوتی ہے تو اس کم عمری میں لڑکی کو گھر سے نکل جانے کی کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ ہم اس عمل کو مجرمانہ عمل قرار دینے کی سفارش پر غور کر رہے ہیں تاکہ اس نوعیت کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔‘
یہ بھی پڑھیے
یاد رہے کہ ہندو کمیونٹی کی شکایت ہے کہ ان کی نو عمر لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کرکے ان کا مذہب تبیدل کروا کے بعد میں نکاح کرلیا جاتا ہے، اس سے قبل سندھ اسمبلی نے منارٹیز بل 2016 کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کے تحت مذہب کی جبری تبدیلی اور اس کام میں معاونت پر تین سے پانچ سال قید کی سزا اور ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
مسلم لیگ فنکشنل کے اقلیتی رکن نند کمار گوکلانی نے جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف بل پیش کیا تھا اس بل کے مطابق اگر کوئی صغیر (کم سن) یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مذہب تبدیل کرلیا ہے تو اس کے دعوے کو قبول نہیں کیا جائے گا تاہم صغیر کے والدین یا کفیل اپنے خاندان سمیت مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
اس قانون سازی پر مذہبی جماعتوں کا سخت ردعمل سامنے آیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس میں ترمیم کر کے پیش کرنے کا اعلان کیا لیکن چار سال گذرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس سے قبل 2012 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے چیئرمین ڈاکٹر مہیش ملانی نے ایک مسودہ پیش کیا تھا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے، جس میں وکلا، انسانی حقوق، اقلیتوں کے نمائندے اور جس ضلع میں واقعہ ہو وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو ممبر بنایا جائے۔
مسودے کے مطابق جس کا بھی جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا گیا ہو انھیں 21 روز تک تنہائی میں رکھنے کے بعد یہ کمیشن ان کا بیان ریکارڈ کرے اور اگر مذہب کی جبری تبدیلی کا معاملہ ثابت ہو تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے سندھ اسمبلی کی قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی نے بڑی تاریخی قانون سازی کی لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی کیونکہ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل نہیں تھے، اور انھوں نے اس تجربے کی بنیاد پر مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں اور سٹیک ہولڈرز کو شامل رکھا ہے۔
ان کے مطابق اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے بھی مشاورت کی گئی ہے، اور جو اسلامی و غیر اسلامی ممالک ہیں، وہاں مذہب کی تبدیلی کا کیا طریقہ کار ہے، اس پر تحقیق کی جا رہی ہے، ان کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل آگاہی دے گی۔
سینیٹر کاکڑ کا کہنا تھا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کی شدت اتنی زیادہ نہیں جتنی بیان کی جاری ہے، اور اُن کے مطابق اس سے خطے میں ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔
’دائیں بازو کی قوتیں مذہب کی جبری تبدیلی پر یقین نہیں رکھتیں، لوگوں کا مذہب رضاکارانہ طور پر تبدیل کیا جاتا ہے جس پر اقلیتی کمیونٹی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم ایک ایسی قانون سازی کی طرف جائیں گے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان میں ایک سیکیولر سوچ و خیال ہے یہاں مذہبی طبقے نے اعلان جنگ نہیں کیا ہوا کہ بزور شمشیر مذہب تبدیل کیے جا رہے ہوں۔‘
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی لال چند مالہی کا کہنا تھا کہ سکھر میں ہندو برادری اور کراچی میں صوبائی حکام سے ملاقات ہوئی، سب نے تسلیم کیا ہے کہ یہ بیماری موجود ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا کہ سندھ میں ایک منظم گروہ لوگوں کے مذہب تبدیل کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ میں 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی ہے، اس لیے بعض معاملات میں تو ہندو لڑکیوں کو پنجاب لے جا کر مذہب کی تبدیلی کے ساتھ شادی کی گئی، اس پر سینیٹر کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ ’کوشش کر رہے ہیں کہ تمام صوبوں کا یکساں قانون ہو۔‘
انھوں نے کہا: ’یہ بھی قابل غور ہے کہ صرف لڑکیوں کا مذہب تبدیل ہو رہا ہے لڑکے مذہب تبدیل نہیں کر رہے ہیں، جو مخصوص طبقہ ہے انھیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ دین کی خدمت ہے ریاست کی یا کسی اور کی۔‘
پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ غیر مراعات یافتہ طبقے کی ہندو لڑکیاں اس کا شکار ہو جاتی ہیں اور سماجی حالات کی وجہ سے انھیں سوشل کانٹریکٹ میں جانا پڑتا ہے۔
سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی لال مالھی کا کہنا تھا کہ شمالی سندھ میں ہندو کمیونٹی تجارت سے وابستہ ہے اور خوشحال ہے، وہاں جب کسی لڑکی کے جبری مذہب کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کو بھرپور انداز میں اٹھایا جاتا ہے لیکن میرپورخاص ڈویژن میں ایسے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق چونکہ یہ لوگ غریب ہیں اور کئی لوگ غربت کی لکیر سے بھی نچلی زندگی گزارتے ہیں، اس لیے پولیس ان کے مقدمات بھی دائر نہیں کرتی، چنانچہ ان واقعات کو اہمیت نہیں ملتی ہے۔