ایک موچی کا بیٹا جو امریکہ کا صدر بنا

 

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ امریکہ کے واحد صدر ہیں جو اپنی ذاتی مالیت کے لحاظ سے ارب پتی ہیں اور ان کے اثاثوں کا تخمینہ ڈھائی ارب ڈالر کا ہے۔ اگر اسی طرح دیگر امریکی صدور کی ذاتی دولت کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر کروڑ پتی تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد دوسرے نمبر پر دیکھا جائے تو امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن آتے ہیں جن کی دولت آج کے ڈالروں میں 58 کروڑ سے زیادہ تھی۔

تھامس جیفرسن، ٹیڈی روزاولٹ، اینڈرو جیکسن اور امریکہ کی بنیاد رکھنے والے صدور جنھیں فاؤنڈنگ فادرز کہا جاتا ہے، ان میں سے زیادہ تر بہت امیر گھرانوں سے آئے تھے۔

دورِ حاضر میں بل کلنٹن کا ذکر کریں تو ان کی ذاتی دولت تقریباً 75 ملین ہے اور بیشتر صدور کی طرح انھیں یہ دولت ورثے میں نہیں ملی بلکہ انھوں نے خود کمائی۔

مگر امریکی تاریخ میں کچھ ایسے بھی صدر رہے ہیں جو ساری زندگی انتہائی غریب رہے یا یوں کہیں کہ کم از کم ان کی زندگی کی ابتدا انتہائی غربت میں ہوئی اور ان میں سے دو صدور ایسے ہیں جنھیں امریکی تاریخ کے اہم ترین صدور میں گنا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹرومین
US GOVERNMENT / NATIONAL ARCHIVES

،تصویر کا کیپشن

ہیری ایس ٹرومین

اربوں بانٹنے والا مفلس صدر

ہیری ایس ٹرومین امریکہ کے 33ویں صدر تھے اور وہ سنہ 1945 سے لے کر 1953 تک اقتدار میں رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب یورپ تباہ ہو چکا تھا تو ٹرومین نے مارشل پلان بنایا جس کے ذریعے امریکہ نے مغربی یورپ کی تباہ شدہ معیشتوں کو دوبارہ بحال کیا۔ انھوں نے اس وقت دنیا کی سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کی بنیاد بھی رکھی۔

ہیری ٹرومین تاریخ کے واحد انسان ہیں جنھوں نے دشمن پر ایٹمی بم گرانے کا حکم دیا۔

مگر حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کو اربوں ڈالر دینے والے اس قدر کامیاب صدر ذاتی طور پر امریکی تاریخ کے غریب ترین صدر مانے جاتے ہیں۔

ہیری ٹرومین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انھوں نے صدرارت چھوڑی تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ گھر خرید سکیں اور انھیں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی ساس کے گھر میں جانا پڑا۔

ہیری ٹرومین کے والد ریاست میزوری میں ایک کسان تھے۔ ہیری نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو انھوں نے شروع میں کچھ چھوٹی موٹی نوکریاں کیں، ایک اخبار کے میل روم میں کلرک بھی لگے اور ایک بینک میں نوکری بھی کی۔

انھوں نے اپنے والد کے فارم پر بھی کام کیا مگر وہ کہا کرتے تھے کہ میں ایک کسان کی آمدن سے زیادہ کمانا چاہتا ہوں۔ سنہ 1917 میں انھوں نے نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کر لی۔

فوج کے بعد جب ٹرومین نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد واپس آ کر سرمایہ کاری کی تو ان کی کوئی بھی کاوش کامیاب نہ رہی۔ انھوں نے اپنے ایک فوجی دوست کے ساتھ مل کر مردوں کے کپڑوں کی دکان کھولی جو چلی نہیں۔ انھوں نے معدنیات اور تیل کی تجارت کا کاروبار شروع کیا لیکن وہ بھی ناکام ہو گیا۔

ٹرومین

اس کے بعد فوج کے دوستوں کی مدد سے ہی ٹرومین سیاست میں آئے۔ سنہ 1923 میں وہ جیکسن کاؤنٹی میں ایک جج کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ پوزیشن زیادہ تر ایڈمنسٹریٹیو تھی اور اپنے فارغ وقت میں وہ کینسسز سٹی لا سکول میں پڑھتے تھے مگر انھوں اپنی زندگی میں کبھی وکالت کا لائسنس حاصل نہیں کیا۔

جب ہیری ٹرومین نے ملک کی صدارت چھوڑی تو اپنی ذاتی جمع پونجی وہ ناکام کاروباروں میں ختم کر چکے تھے۔ صدارت کے بعد ان کے پاس واحد ذریعہِ آمدن اپنی فوج کی پینشن تھی جو کہ 112 ڈالر (آج کے حساب سے تقریباً ایک ہزار ڈالر) ماہانہ تھی۔ انھوں نے کبھی کسی یونیورسٹی میں پڑھایا اور کبھی کسی یونیورسٹی میں۔

اتنی مشکلات کے باوجود ہیری ٹرومین نے متعدد کارپوریٹ نوکریاں ٹھکرائیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ٹرومین یہ بتاتے تھے کہ اس سے امریکی صدارت کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی۔

آخرکار ہیری ٹرومین کو اپنی آپ بیتی لکھنے کا کانٹریکٹ ملا جو کہ چھ لاکھ ستر ہزار ڈالر کا تھا مگر اس میں سے دو تہائی ٹیکس میں چلا گیا اور اخراجات کاٹنے کے بعد ہیری ٹرومین کے پاس تقریباً چالیس ہزار ڈالر ہی بچے۔

ہیری ٹرومین کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے پانچ سال بعد سنہ 1958 میں امریکی کانگریس نے فارمر پریزیڈنٹ ایکٹ منظور کیا جس میں سابق صدور کے لیے مراعات رکھی گئیں۔ اس میں پہلی بار سابق صدور کے لیے 25000 ڈالر کی پینشن رکھی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ امریکی کانگریس نے ایسا ہیری ٹرومین کی مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے کیا تھا۔ اس وقت صرف ایک اور سابق صدر ہربرٹ ہوور زندہ تھے جو کہ خود کافی امیر تھے اور اس پینشن کی انھیں کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔

مگر سابق صدر ہوور نے بھی یہ پینشن لینا شروع کی تاکہ ہیری ٹرومین کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ اگرچہ ہیری ٹرومین کبھی دیوالیہ نہیں ہوئے تاہم ان کی زندگی زیادہ تر قرضوں میں ہی گزری۔

لنکن
EPA

موچی کا بیٹا صدر

امریکی تاریخ کے عظیم ترین صدر کا اعزاز اکثر ابراہم لنکن کو دیا جاتا ہے۔ انھوں نے امریکہ میں سیاہ فام افراد کی آزادی کے معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو ٹوٹنے سے بچایا۔

مگر اتنے بڑے صدر کا بچپن شدید غربت میں گزارا۔ لنکن کے والد ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ان کے پاس ریاست کنٹکی میں تھوڑی زمین تھی جہاں پر وہ اپنا فارم چلاتے تھے۔ لنکن جب دو سال کے تھے تو ان کے والد اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہار گئے اور ان کے پاس یہ فارم بھی نہ رہا۔

لنکن فیملی اس موقعے پر ریاست انڈیانا منتقل ہوگئی۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے سرکاری زمین پر ایک غیر قانونی کیبن بنایا اور اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ ابراہم لنکن زندگی میں صرف ایک سال ہی سکول گئے اور ان کی دیگر تعلیم ان کی سوتیلی ماں سارہ جانسٹن کے ہاتھوں ہوئی۔

لنکن کا بچپن ایک غریب فارم پر گزارا جہاں زندگی اتنی آسان نہیں تھی اور ان کے دن اپنے باپ کے ساتھ محنت مزدور میں گزرتے تھے۔ انھوں نے اپنی نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی۔

اپنی عمر کی 20 کی دہائی میں انھوں نے ایک جنرل سٹور کھولا جو بالکل ناکام ہو گیا کیونکہ اس میں ان کے بزنس پارٹنر انتقال کر گئے اور دکان کھولنے کا سارا قرضہ لنکن پر آ گرا۔

مگر ابراہم لنکن کی شخصیت میں مشکلوں سے لڑنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اس موقعے پر لنکن نے وکالت کی تعلیم خود ہی پڑھنا شروع کی اور اپنے آپ کو غربت سے نکالا۔ وہ ریاست النائے کے کامیاب وکلا میں سے ایک بن گئے۔ بعد میں جب وہ سیاست میں آئے تو اسی ہمت نہ ہارنے والی شخیصت نے انھیں امریکہ کو بچانے میں مدد کی۔

ایسی ہمت شاید شدید غربت سے ہی آتی ہے۔

امریکہ
GETTY IMAGES

مگر ظاہر ہے کامیاب وکالت اور النائے میں کامیاب ریاستی سیاست کے باوجود ابراہم لنکن کا شمار اُمرا میں نہیں کیا جا سکتا ہے اور وقت کی اشرافیہ کو یہ بات پسند بھی نہیں تھی کہ یہ کسی غریب گھرانے کا شخص ہمارا صدر بن گیا ہے۔ جب ایبراہم لنکن صدر بنے تو ان کے والد ایک جوتا ساز یعنی موچی تھے۔

جب لنکن اپنی پہلی تقریر کرنے سینٹ میں گئے تو تقریر سے پہلے ایک شخص نے ان پر جملہ کسا کہ مسٹر لنکن یہ مت بھولنا کہ آپ کے والد میرے اور میری فیملی کے لیے جوتے بناتے تھے۔ یہ سن کر سینٹ میں قہقہے لگنا شروع ہو گئے۔

ابراہم لنکن نے مُڑ کر جواب میں کہا ’مجھے معلوم ہے کہ میرے والد آپ کے گھر میں آپ کے لیے جوتے بناتے تھے۔ یہاں اور بھی ایسے ہوں گے (جن کے لیے میرے والد نے جوتے بنائے ہوں) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جوتے میرے والد بناتے ایسے کوئی اور نہیں بنا سکتا۔ وہ ایک موجد تھے۔ ان کے جوتے صرف جوتے نہیں تھے بلکہ وہ ان میں اپنی پوری روح ڈال دیتے تھے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کوئی شکایت ہے۔ کیونکہ مجھے بھی جوتے بنانے آتے ہیں، اگر آپ کو شکایت ہے تو میں آپ کو ایک نیا جوڑا بنا دیتا ہوں۔ میری معلومات کے مطابق آج تک کسی نے میرے والد کے جوتوں کے بارے میں شکایت نہیں کی۔ وہ ایک جینیئس موجد، تخلیق کار تھے۔ مجھے اپنے والد پر فخر ہے۔‘