معروف مذہبی عالم جاوید احمد غامدی نے علما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قدرتی آفات اور وباؤں کے لئے عورتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے باز آجائیں اور پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے بڑے گناہوں پر نگاہ ڈالیں۔ جاوید غامدی نے صحافی شاہ زیب خانزادہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے علما کی اس رائے پر تبصرہ کیا کہ قدرتی آفات ’بے ہودہ خواتین‘ کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وبائی امراض اور قدرتی آفات خدا کے قانون کے مطابق واقع ہوتی ہیں اور قدرت کسی خاص صنف یعنی عورت یا مرد سے کوئی امتیاز نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ جب ہم سماجی مشکلات پر…
خواتین کے لباس، کردار اورعذاب الٰہی کے بارے میں مولانا طارق جمیل نے تو جوکہنا تھا کہہ دیا، لیکن بلا جواز اور بغیر دلیل کے اس پر تبصرے کرنے والوں نے ایک دوسرے پر بازی جیتنے کے چکر میں وہ بکھیڑا ڈال رکھا ہے کہ اصل عنوان کو پس منظر میں دھکیل دیاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک جنگ ہے جس کا اختتام دوسرے کی اعلانیہ معافی یا موت پر ہو گا۔ کورونا جیسی آفت کی دنیا پر آمد کا سبب کچھ بھی رہا ہو، لیکن کسی ایک جنس یا مخصوص طبقے کو اس کی وجہ قرار دینا واقعتاً ناقابل قبول ہے۔ لیکن کسی بیماری یا خرابی کی ذمہ داری خواتین کے لباس یا کردار پر ڈالناعجیب و غریب ہ…
(شمائلہ خان) بی بی سی اردو معاشرے کی نظر میں ایک اچھی عورت کیسی ہوتی ہے؟ اسلام آباد میں بھی اسی موضوع پہ ایک بحث رکھی گئی جس میں مقامی یونیورسٹی کی تین طالبات سعیدہ منصور، سارہ ہمایوں اور ماہین شاہد نے حصہ لیا۔ ان طالبات کا خیال تھا کہ پاکستانی معاشرے کی نظر میں اچھی عورت وہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ ’وہ خاموش طبع، سلیقہ مند، خوش اخلاق، فرماں برداراور تابع دارہوتی ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک اچھی عورت کے معیارات خود عورتوں کے بجائے معاشرہ طے کرتا ہے اور معاشرے کی کوشش ہے کہ خواتین ان طے کردہ تمام معیارات پر پورا اُ…
کیسے مردوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر گلے کو دبا کر تعفن اگلتے ہوئے گندے نالوں میں لڑھکاتی، یادور کھیتوں میں اور کوڑے دانوں میں پھینک آتی ہیں سنگ دل سارے منظر کو اک آن میں بھول کر آگے بڑھ جاتی ہیں بے حیا عورتیں فاحشہ عورتیں ان کی رالیں ٹپکتی ہیں معصوم جسموں کو گر دیکھ لیں مرد،عورت ہویا کوئی خواجہ سرا اپنی وحشت کی تسکین کے واسطے عمر، رنگت، قبیلے یا طبقے کا کچھ مسئلہ ہی نہیں جان سے مار دینا بھی مشکل نہیں بلکہ قبروں میں تازہ دبی لاشوں کو نوچنے میں انہیں ہچکچاہٹ نہیں یہ بلا عورتیں وحشیہ عورتیں اپنی غی…
ہاں میں اِک بے حیا عورت ہوں اور وہ مجسّم پارسائی ہے وہ جو ستر لبادوں میں چُھپے حورروں کے ننگے جسم کے نشیب وَ فراز دیکھتا ہے پستانوں کی گولائیاں ناپتا ہے سڈول ٹانگوں کے قصّے سُناتا ہے شیطانی مُسکراہٹ لبوں پہ سجائے ٹانگوں کے درمیاں ہونے والی الف لیلٰی سُناتا ہے سامنے بیٹھے مدقوق وحشت زدہ چہروں کی شہوت بڑھاتا ہے جو دودھ اور شہد سے گُندھی حور کے بدن کی حلاوت دکھاتا ہے مُشک و عنبر میں رچے جسم کے فسانے سُناتا ہے وہ پارسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بے حیا عورت ہوں! مشقت کی چُکی میں پسے بدبودار پسینوں …
مغلیہ دور میں خواجہ سرا حرم کی تمام سر گرمیوں پر نظر رکھتے تھے اور اُس کی اطّلاعات بادشاہِ وقت کو پہنچاتے تھے۔ اُن کا دربار میں کافی اثر ہوتا تھا۔ اکثر امرا بادشاہِ وقت کی خوش نودی کے لیے بھی اُنھیں استعمال کرتے تھے۔ مغلیہ دور میں محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں خواجہ سراﺅں کو ایک خاص حیثیت حاصل ہوئی۔ ”فرہنگِ آصفیہ“ میں اِس کا ذکر یوں ہے: ہمارے ہندوستان میں محمد شاہ رنگیلے کے وقت سے اِس فرقے نے رونق پکڑی، کیوں کہ بادشاہِ مذکور نے محلوں میں آنے جانے کے واسطے قلماقنیوں، ترکنوں، جسولنیوں، یعنی بساولنیوں وغیرہ کے بجاے ایسے ہی لوگوں کو مقرّر فرما …
پہاڑوں سے گھرے اس گاؤں سے جہاں باکو رہتا تھا بڑے شہر کا فاصلہ پچاس کلو میٹر تھا۔ باکو ایک ترکھان تھا، خراد کی مشین اس کی زندگی کا محور تھی، اسے اپنی خراد اور اپنے ہنر پر بڑا فخر تھا۔ وہ اس خراد پر لکڑی کی خوبصورت چیزیں ایسی مہارت سے بناتا کہ دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ۔ لیکن اسے عرصے سے شراب کی لت پڑی ہویٔ تھی۔ خراد سے جتنے پیسے کماتا، آس پاس کے علاقوں کے شراب خانوں میں صرف کر دیتا۔ اس کی بیوی تانیا کی طبیعت کیٔ دن سے خراب تھی۔ آج اسے تانیا کو ہسپتال لے کر جانا تھا۔ اسے پچاس کلو میٹر کی اس مسافت کے بارے میں سوچ کر ہی الجھن ہو رہی تھی۔…
Social Plugin