(شمائلہ خان)
بی بی سی اردو
معاشرے کی نظر میں ایک اچھی عورت کیسی ہوتی ہے؟ اسلام آباد میں بھی اسی موضوع پہ ایک بحث رکھی گئی جس میں مقامی یونیورسٹی کی تین طالبات سعیدہ منصور، سارہ ہمایوں اور ماہین شاہد نے حصہ لیا۔
ان طالبات کا خیال تھا کہ پاکستانی معاشرے کی نظر میں اچھی عورت وہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔
’وہ خاموش طبع، سلیقہ مند، خوش اخلاق، فرماں برداراور تابع دارہوتی ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک اچھی عورت کے معیارات خود عورتوں کے بجائے معاشرہ طے کرتا ہے اور معاشرے کی کوشش ہے کہ خواتین ان طے کردہ تمام معیارات پر پورا اُتریں۔
بحث میں شامل طالبہ سعیدہ منصور نے کہا کہ ’ہمیں ہمیشہ سننا پڑتا ہے کہ دیکھو لوگ کیا کہیں گے۔ اگر آپ کا خاندان آپ کو آزادی دینے کا قائل ہو جیسے کہ رات کو دیر تک گھرسے باہر رہنا تو ایسی صورت میں بھی وہ پہلے یہ سوچتے ہیں کہ خاندان، پڑوسی، محلے والے، کمیونٹی اور پورا معاشرہ کیا کہے گا کیا سوچےگا۔‘
اس بات پر سب متفق نظر آئیں کہ خواتین کو مختلف شعبوں میں سامنے لانے کے لیے کوٹہ دیا جانا چاہیے۔
ماہین شاہد نے کہا: ’جب تک کوٹہ نہیں رکھا جائِے گا تب تک لڑکیاں آگے آ ہی نہیں سکتیں۔ اگر آپ کلاس میں دیکھیں تو 100 طلباء میں سے 20 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور جیسےجیسے پوسٹ گریجویشن تک پہنچتی ہیں تو یہ تعداد مزید کم ہوتی جاتی ہے۔‘
سارہ ہمایوں کہتی ہیں کہ ’آج سے 50 سال بعد آپ یہ سوچیے گا کہ میرٹ ہونا چاہیے کہ کوٹہ۔ ابھی توخواتین کے ساتھ ویسے ہی اتنی تفریق ہے۔ ابھی تو ملک وہاں کھڑا ہے جہاں سندھیوں اور بلوچوں کو کوٹے دیے جانے پر بات ہوتی ہے۔ ایسے میں خواتین کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے۔ فی الوقت کوٹے کا مطلب صرف ان خواتین کو موقع دینا ہے اور پھر 50 سال بعد آپ یہ جانچنے کی کوشش کریے گا کہ آیا مرد بہتر تھا یا عورت۔‘
معاشرے میں خوبصورت خواتین کی ترقی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ نہیں؟ اس پر بات کرتے ہوئے سارہ ہمایوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سےاعلی پوزیشنز پر عموما مرد حضرات ہوتے ہیں اور وہ خوبصورت خواتین کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
بحث میں شامل لڑکیوں کا موقف تھاکہ اگر لڑکیوں کو مثالی عورت بنانے کی کوششوں کو روک دیا جائے تو خواتین کی زندگی تھوڑی بہت بہتر ہوسکتی ہے
ماہین شاہد سمجھتی ہیں کہ’خوبصورتی کی بنا پر ملازمت حاصل کرنے والی خواتین کو ایک روز نکال ہی دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ باصلاحیت نہیں ہیں تو کام کیسے کریں گی۔‘
اسی بارے میں بات کرتے ہوئےسعیدہ منصور نے ایک واقعہ بتایا: ’میری دوست کی بہن نے پاکستان کی سب سے اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور ساتھ ساتھ بے حد خوبصورت بھی ہیں۔انھوں نے مینیجمنٹ کی پوزیشنز کے لیے درخواستیں دیں لیکن لوگ کہتے ہیں کہ آپ ’ریسیپشنسٹ‘ بہت اچھی ہوں گی اور وہ اس کے لیے بہت زیادہ تنخواہ دینے کو بھی تیار ہیں۔‘
ترقی کرنے اور اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے کیا عورتوں کو مردوں کی طرح پیش آنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں سعیدہ منصور نے کہا کہ ’انسانوں کی عام خصوصیات اور رویے، آج کل صرف مردوں کے لیے مناسب ہوتے ہیں عورتوں کے لیے نہیں۔‘
بی بی سی کی اس بحث میں شامل لڑکیوں کا موقف تھاکہ اگر لڑکیوں کو خوبصورتی کے معیارات پر تولنے، شادی کے لیے آئے دن دباؤ ڈالنے سمیت مثالی عورت بنانے کی کوششوں کو روک دیا جائے تو خواتین کی زندگی تھوڑی بہت بہتر ہوسکتی ہے۔