خواتین کے لباس، کردار اورعذاب الٰہی کے بارے میں مولانا طارق جمیل نے تو جوکہنا تھا کہہ دیا، لیکن بلا جواز اور بغیر دلیل کے اس پر تبصرے کرنے والوں نے ایک دوسرے پر بازی جیتنے کے چکر میں وہ بکھیڑا ڈال رکھا ہے کہ اصل عنوان کو پس منظر میں دھکیل دیاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک جنگ ہے جس کا اختتام دوسرے کی اعلانیہ معافی یا موت پر ہو گا۔ کورونا جیسی آفت کی دنیا پر آمد کا سبب کچھ بھی رہا ہو، لیکن کسی ایک جنس یا مخصوص طبقے کو اس کی وجہ قرار دینا واقعتاً ناقابل قبول ہے۔
لیکن کسی بیماری یا خرابی کی ذمہ داری خواتین کے لباس یا کردار پر ڈالناعجیب و غریب ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے، کیونکہ افراد باہم معذوری کو والدین کے گناہوں کا نتیجہ قراردیا جانا بھی ایسے ہی مولانا حضرات اور سماجی رہنماؤں کے بیانات اور کہانیوں کا مرہون منت ہے۔ مولانا طارق جمیل کے حالیہ بیان کے بعد خواتین کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، جس سے افراد باہم معذوری دو چاررہے ہیں۔ اوراس تناظر میں مردانہ معاشرے میں کسی کی ماں بہن، بیوی، بیٹی کے احترام کو نظر انداز کرتے ہوئے اخلاقی اقدار کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالا جا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو معاشرے میں اب بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جس نے آبادی کے نصف جیتے جاگتے انسانوں یعنی خواتین کے اجتماعی مسائل و ضروریات کو پسِ پردہ ڈال کر وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ طبقہ خود کو معتبر اور حاکم سمجھتے ہوئے صنف نازک کے ہر بنیادی حق پر روک لگانے اور ان کی ترقی و بااختیار بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کو اپنا فرض قرار دیتا ہے۔ سو مردانہ معاشرہ خواتین کو متعصبانہ رویے، معاشی تنگی، امتیازی رسم ورواج، سیاسی بے نوائی او ر دوہرے معیارات کے سبب قعرِمذلت میں دھکیلنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ ایسے میں قوانین کی موجودگی کے باوجود تیزاب پھینک کر خواتین کے چہروں کو بگاڑنے، غیرت کے نا م پر قتل، اور لواحقین کو مجبور کر کے مجرموں کو آزاد کروانے، بچوں کو جنسی زیا دتی کا نشانہ بنا کرقتل کرنے، گھریلو ملازماؤں پر بات بے بات تشدد کرنے، یا پھر جنسی تسکین کے لیے انہیں ہراساں کرنے جیسے مظالم ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آرہے۔
یہی وجہ کہ پدرسری معاشرے میں خواتین کو معاشرتی اور معاشی فیصلہ سازی سے دور کر کے ان کی ذمہ داری کو کبھی تنہا اور کبھی گھر کے سربراہ کے ساتھ مل کر بچوں کو پالنے، گھرداری اور گھریلو امور کو چلانے تک محدود کردیاگیا ہے۔ نیز وسائل پرغلبہ پانے والے افراد نے کہیں ثقافتی و سماجی رسوم سے ڈرا کر اور کہیں مذہب کو ڈھال بنا کرخواتین کو سما جی، معاشی اور سیاسی ترقی کے دھارے سے باہر کر دیا ہے۔ اور خواتین خد ا کی مکمل تخلیق ہونے کے باوجود اپنے حقوق سے محروم ہیں، حتیٰ کہ اُنہیں اپنے وجود جس کی وہ خود مالک ہیں اس پر بھی مکمل حق اور اختیار نہیں۔
یہاں تک کہ ان کے وجود کو لے کر نت نئی اصطلاحیں اور الزامات ایجاد ہوتے رہتے ہیں اورحالیہ دنوں میں بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ عوامی و میڈیائی افق پر ابھر رہا ہے۔ جہاں کورونا جیسے وبائی مرض کو خواتین کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جب پوری دنیا کورونا سے نبرد آزما ہے، وہاں ہم جیسے ترقی پذیر ملک میں ماضی کی طرح اس وائرس کو جنس و صنف کی بنیا د پر تعصب برتتے ہوئے خواتین کی مفروضہ بے حیائی سے منسلک کر دیا ہے۔
گو کہ خواتین کی سیاسی و سماجی عمل میں شمولیت اور پذیرائی بھی جاری ہے لیکن قلیل تعداد اور عمومی رویوں کی وجہ سے ان کی سماجی حیثیت میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اور خواتین کے مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہی کہ ابھی تک خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے، عورتوں کے خلاف تمام امتیازات کو ختم کرنے، انصاف تک رسائی، سماجی نا ہمواریوں کے خلاف کام کرنے والی تحریکوں کو سماجی اور حکومتی سطح پرقبولیت اور پذیرائی نہیں مل سکی۔
گو کہ خو اتین کے خلاف امتیازی رویوں میں تبدیلی کسی ایک مخصوص جنس یا فرد کا کام نہیں اس کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے ضرورت ہے۔ اور اس مقصد کے لیے نہ صرف بلا جواز اور بے ہودہ گفتگو کا سدباب کرنا ہو گا، بلکہ ایسے متنازع بیانات دینے والے، اور اسے پھیلانے والے عناصر کو بھی قائل کرنا ہو گا، کہ انسان اور انسانیت کی بات بلا تفریق جنس، رنگ اور مذہب کریں، کیونکہ موجودہ دور گلوبل ویلیج کا ہے، جس میں ایک انسان کو دوسرے انسان سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔