”اوئی“ اس کی آنکھیں پھیل کر پورے جسم پر محیط ہو گئیں۔ منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، بالوں نے چہرے کو ڈھانپ لیا اور آنچل قدموں کو ڈسنے لگا۔ انور نے آج پہلی بار اپنی آنکھوں کی میخیں اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں گاڑ رکھی تھیں اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ صائمہ کا ہاتھ۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں تھا اور ہاتھ بھی کتنا؟ ایک چھنگلی۔ ۔ ۔ اور ایک چھنگلی پر پانچ انگلیوں کی گرفت۔ ۔ ۔ دھم دھما دھم دل کی ڈھولک بج رہی تھی۔ شاید معاملات سیکنڈ کے تھے۔ ۔ ۔ مگر ایسے وقت کا حساب کتاب کون رکھ سکتا ہے۔ دوپٹہ سنبھالنا۔ ۔ ۔ چھنگلی کی دھڑکن کو وجود کے زیروبم سے…
ڈاکٹر شہناز شورو پوسٹ باکس نمبر 203 /نالاسوپارا۔ ناول پڑھنا ہے تو اہتمامِ ناول تو کرنا ہی پڑے گا۔ وہ جو میرزا غالب نے کہا تھا نہ کہ: ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں مگر اس گلی میں جائے بغیر گزارہ بھی تو نہیں۔ اور جو گزارہ نہیں تو چترامد گل کے ہندی میں لکھے اس ناول کوجسے احسن ایوبی نے ہمارے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے، پڑھنے سے پہلے ذہن سے کہہ دیں کہ نئے خیالات کے لیے اپنی کھڑکیاں کھول دے، مبادا کتاب پڑھنے کے بعد آپ خود کو ایک مختلف انسان پائیں۔ آنکھوں سے اجازت لے …
Social Plugin