ڈاکٹر شہناز شورو
پوسٹ باکس نمبر 203 /نالاسوپارا۔
ناول پڑھنا ہے تو اہتمامِ ناول تو کرنا ہی پڑے گا۔ وہ جو میرزا غالب نے کہا تھا نہ کہ:
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
مگر اس گلی میں جائے بغیر گزارہ بھی تو نہیں۔ اور جو گزارہ نہیں تو چترامد گل کے ہندی میں لکھے اس ناول کوجسے احسن ایوبی نے ہمارے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے، پڑھنے سے پہلے ذہن سے کہہ دیں کہ نئے خیالات کے لیے اپنی کھڑکیاں کھول دے، مبادا کتاب پڑھنے کے بعد آپ خود کو ایک مختلف انسان پائیں۔ آنکھوں سے اجازت لے لیں کہ ان پہ بار بار امڈ آنے والی بدلی سے بچاؤ کا انتظام کرنا کچھ ایسا آسان نہ ہو گا۔ اور کیا آپ دل کو مٹھی میں بھینچ لینے کا فن جانتے ہیں کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے دل سینے کے پنجرے میں مرغ بسمل کی طرح تڑپے گا۔
اس ناول کا آغاز مجھے گھسیٹ کر میرے بچپن کی دہلیزپرلیے جا رہا ہے۔ عیدالاضحٰی، عیدالفطر، شب ِبرات، شب ِمعراج یا پھر کوئی اور تقریب ہوتی، ایسے مواقع پر کوئی نہ کوئی ایسی شبیہہ دروازے پہ نظر آتی تھی جسے شاید میں اس وقت تک دیکھا کرتی تھی جب تک وہ چلی نہیں جاتی تھی یا پھر چلا نہیں جاتا تھا۔
”شانی بیٹا ماموں کے لئے چوکی رکھ دو۔ “ امی مجھے پکارتیں۔
ماموں نے سفید ململ کا دوپٹہ بڑے سلیقے سے اوڑھا ہوتا اور چھینٹ کے سادہ سے سوتی کپڑے پہنے ہوئے ہوتے۔ مگر ان کے بڑے بڑے پھولوں والے چھینٹ کے کرتے میں ہلتے دو بھاری بھرکم غبارے، میری آنکھوں اور دماغ کا امتحان لینے پر تل جاتے تھے۔ ماموں ہے نہ۔ تو آدمی ہونا چاہیے اورآدمی ہے تو پھر اس کے پاس دودھ کیسے؟ مرے پاس زنانہ چھاتیوں کے لئے ایک ہی لفظ تھا ”دودھ“۔ میرا ننھا ذہن خود سے اُلجھتا رہتا۔ وہ چوکی پہ بیٹھا یا بیٹھی امی سے باتیں کرتا رہتا، ان کی گفتگومیرے پلے نہیں پڑتی تھی۔
ابابھی احترام سے اسے ”فقیر سائیں“ پکارتے اورسلام دعا کر کے خیریت پوچھتے۔ جاتے سمے امی، چینی، چاول، آٹا اور دالوں وغیرہ کی پوٹلیاں اس کے حوالے کرتی تھیں۔ سوائے اس کی بھاری بھاری چھاتیوں، یا قدرے مختلف آواز کے کچھ بھی تو عجیب نہ تھا۔ وہ بہت مہذب انداز میں بات چیت کرتا تھا/تھی۔ اور ہمیشہ امی کے سر پر ہاتھ رکھ کردعا دیتا تھا۔ مجھے لگتا ہے، اگر اس کردار نے اپنی ماں کو کبھی خط لکھا ہوتا تو شاید بنی کی طرح ہی لکھتا:
”آٹھویں کلاس تک بھی میں وہی تھا جو آج ہوں، اس وقت اسکول کے سالانہ جلسہ میں مہمان خصوصی جب تقریر کرتے تھے تو میں بھی دیگر طلبا کی طرح تالیاں بجاتا تھا۔ بات بات پر تالی بجانا میری فطری عادت نہیں ہے۔ نسوانی صفات مجھ میں کبھی نہیں رہیں، اب بھی نہیں ہیں اور جو صفات مجھ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو کیا میں ان کو صرف اس لئے قبول کر لوں کہ میری برادری کے دوسرے افراد ان طور طریقوں کو اپنا چکے ہیں۔ کیا میں انہیں کے ساتھ بیٹھ جاؤں اور بلیڈ سے بانہوں اور سینہ کے جنگل صاف کر نے لگوں؟
محض اس لئے کہ ان کی شکل اختیار کیے بنا میرے سامنے زندگی بسر کرنے کے دوسرے راستے نہیں بچے؟ پچھلے پانچ برس سے میں اس متبادل کے سرے کی تلاش میں سرگرداں ہوں، ان سے الگ رہ کر کچھ آدھی ادھوری سانسیں جو بھی حصہ میں آئیں، میں ان پر قناعت کر لوں گا لیکن با! وہ سانسیں میری مٹھیوں کی قید میں آتی کیوں نہیں؟ ”
تو کیا بیہودہ طریقے سے تالی پیٹ کر، کمر کو لچکا کر، ہونٹوں کوعجیب طریقے سے گھما کر بات کرنے اور دیگر عجیب و غریب حرکات کروانے کا طریقہ بھی سوچا سمجھا آزمودہ ناٹک ہے؟ تب تو انسانوں کو ایسا تماشا بنانے والے خودغرض و مکار کرداروں نے، اس مکروہ جال کو بنُنے اور انسانوں کو اپنے پیاروں سے جدا کر کے ان کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بہت ہوشیاری سے تیار کیاہو گا۔ انسان کو تماشا بنانا اتنا آسان تو کبھی نہیں رہا ہو گا؟
بہت سفاکی، منافقت، بے رحمی، بے حیائی اور مکاری کی ضرورت پڑی ہو گی۔ اور جب یہ تماشا کاروبار بن گیا ہو گا تب نہ صرف ستم گروں کے گروہ در گروہ تشکیل دینے پڑے ہوں گے بلکہ ظلم کو جاری و ساری رکھنے کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کرنے پڑے ہوں گے جن کی وجہ سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار اپنے چھوٹے بھائی منجل کو سنبھالتے، ماں سے پوچھتا ہے۔
”میرے ننو کیوں نہیں ہے با؟ “
اورقدرت کے کارخانے کے خام مال اوراس کے بیوپاریوں کے مول تول سے خوفزدہ ومجبور مگر بہادری کے درس دیتی ماں بہلاتی ہے :
”بچہ کے پیدا ہوتے ہی آٹے کا ننو بنا کر لگانا پڑتا ہے، نرس بھول گئی تھی تجھے لگانا، لگوا دیں گے تیرے بھی۔ “
یہ قاتل سطریں پڑھتے ہوئے دل سے ہُوک نکلی۔ ۔ ۔ ہائے ساری دُنیا ماں کی طرح کیوں نہیں سوچتی؟ با بھی جانتی ہے کہ کیا کہہ رہی ہے مگرمعصوم بچے کو تسلی دینے کے لئے اس سے زیادہ مناسب الفاظ کہاں سے لائے سو نرس کو بھلکڑ کہنے میں ہی عافیت ہے۔ ۔ بھگوان کو کیسے کہے کہ بھگوان بھول گیا۔ مگر سوچنا تو بھگوان کو چاہیے نہ کہ کم از کم ایسے معاشرے میں تو ایسی فاش غلطیاں نہ کرے جہاں ”ننو“ مکمل انسان اور غیرمکمل انسان کا فرق بناتا ہے۔ جہاں پہ لوگ دماغ، عقل اور دل سے نہیں بلکہ ننو سے سوچتے ہیں۔
ماں جانتی ہے، جس سماج میں وہ رہ رہی ہے وہ بنانے کے نہیں بگاڑنے کے فن میں مشاق ہے۔ وہ جوڑتا نہیں ہے، توڑتا ہے اور ٹوٹے ہوئے کو مزید بکھیرتا ہے اور زخمیوں کے زخموں کے کھرنڈ کھرچ کر تفریح لیتا ہے۔ تماش بینی اس معاشرے کی سرشت بن چکی ہے۔ اس کے رواجوں میں ہمدردی اور محبت عنقا ہے۔ اسے کمزور کو تاراج کرنے میں لطف آتا ہے۔ اس نے صدیاں لگائی ہیں ظلم کرنے کی تربیت حاصل کرنے میں۔ اس نے طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو مذید کمزور کرنے کے مضبوط نیئم بنائے ہیں اور اب یہ رسوم و رواج اس کی قوت ہیں۔ یہ پورا دیمک ذدہ معاشرہ یرغمال ہے مذاہب و روایات کے ان دیکھے جال میں، جس کو جابر، مکار اور عیار قوتوں نے اپنے خصیص و رکیک مقاصد کے حصول کے لئے مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ مگر پھر بھی ماں اپنے بیٹے کے لئے ایک آبرو مند زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
” تو نے یہ بھی سمجھایاتھا کہ باؤلا! تو اور چھوکروں سے ذرا مختلف ہے، یہ تسلیم کر لینے میں ہی عافیت ہے، نہ کسی سے برابری کر اور نہ ہی اپنی اس کمی کا کسی سے تذکرہ۔ سماج کو ایسے لوگوں کی عادت نہیں ہے، وہ عادت ڈالنا بھی نہیں چاہتے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ حالات ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ وقت کروٹ لے گا اور وقت کے ساتھ ہی لوگوں کا نظریہ بدلے گا۔ تجھے کیسے سمجھاؤں؟ اب دیکھ بِنّی! نابینا لوگ ہمارے زمانہ میں اسکول جانے سے محروم تھے لیکن تو بتاتا ہے نا کہ تیرے اسکول میں دو نابینا طالب علم پڑھتے ہیں، بلکہ ان کی ضرورت کے مطابق الگ سے اسکول ہیں۔ انگلیوں سے پڑھی جانے والی زبان ہے، پیروں سے معذور انسان بھی تو مصنوعی ٹانگوں پر چلتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں اس ادھورے پن کا بھی کوئی علاج نکل آئے، تیرے پپا نے تجھے لے جاکر بڑے اسپشلسٹ کو دکھایا تھا نا!
تیرا دلاسا جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں یہ تسلیم کرکے چلتا رہا۔ مصنوعی ٹانگ کی طرح میں بھی اس ضروری عضو کے نقص سے ایک دن پاک ہو جاؤں گا۔ مگر بہت جلد میرا بھرم ٹوٹ گیا۔ تونے، میری با! تونے اور پپا نے مل کر قصائیوں کے ہاتھ میں مجھے معصوم بکری کی طر ح سونپ دیا۔ میری حفاظت کے لئے قانونی تدبیریں کیوں اختیار نہیں کیں؟ ”
”ضروری عضو“؟ کیا ہیں ”ضروری عضو“؟ مرد کے پاس چھ اِنچ کے گوشت کا لوتھڑا اورعورت کے پیٹ کے نیچے ناشپاتی کا ادھا۔ ۔ ۔ جوتعین کرتے ہیں مردانگی اور زنانگی کا؟ پورے یا ادھورے انسان ہونے کا؟ انسان کی ساری نیکی، اس کے عمل، اس کا کردار، ذہن، رُوح، احساس، ہمدردی ”دکھ، خوشی، سب پر غالب آ جاتے ہیں یہ دو عضو؟ انسان سے غیرانسان بنانے والے یہ دو عضو؟ گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسانوں کے جسم پریہ“ ضروری عضو ”نہ ہونے کی سزا ئیں دینے کے لئے سماج کے ٹھیکیداروں نے بڑے جتن کیے ہیں۔ ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ایک پورے سماج کو مختلف جسمانی ساخت رکھنے والے انسانوں سے نفرت سکھانے اور نفرت کے اس گھناوٴنے، مگر منفعت بخش کاروبار کو صدیوں کامیابی سے چلا کر دکھایا ہے۔
ماں کے لفظ، دنیا کی نظر میں ادھورے مگردھتکارے ہوئے بنی کی آس، امید اور زندگی ہیں۔ بنی کو چمپا بائی کے حوالے کرنے کے بعد، ماں اپنے گھر کے ہر فرد سے چھپا کراسے خط لکھتی ہے۔ ایک بار جب ماں کے خط کے طویل انتظار کے بعد، اس کی طرف سے بھیجے گئے بڑے سائز کے لفافے میں ماں کی مختصر تحریر دیکھتا ہے تودل مسوس کر لکھتا ہے :
”خط کھول کر تکلیف ہوئی، اتنے بڑے لفافہ میں اتنی مختصر سی تحریر۔ تیرے ہاتھ میں درد تھا با؟ موٹا بھائی اور سیجل بھابھی کے گھر لوٹنے کا وقت ہو گیا تھا؟ “
ایک اور خط میں درد کی اس گپھا میں خود کوڈھونڈتے، ادھورے مگر بے تحاشا محبت کرنے والے بنی نے ماں کولکھا :
” نالا سوپارا کے سمندر سے تیری دوستی یاری ہے کیا؟
میرے آنسوؤں میں پہلے اتنا کھارا پن نہیں تھا با۔
رک با! میں ذرا اپنا رومال ڈھونڈ لاؤں۔ ”
ایک کے بعد ایک خط پڑھتی جاتی ہوں اوراپنا حوصلہ آزماتی جاتی ہوں۔ ان خطوط کو جمع کر کے دستاویز کیا ناول ہمارے فرسودہ معاشرے کی ایک سفاک اوربے درد حقیقت کا آئینہ بن گیا۔ اب اس آئینے میں خود کو تکئے۔ بیٹھے کالک ملا منہ دیکھئے۔
با کا بڑا بیٹامکمل مردانہ اعضا رکھنے والا مرد ہے۔ جب اس کی بیوی امید سے ہوتی ہے تو وہ جنسی عضو سے محروم بھائی کی تصویر گھر کی ایک دیوار پر آویزاں دیکھ کر ماں پر بھڑک اٹھتا ہے۔ ماں ایک خط میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ اس موضوع پر ہونے والی بحث کے جملے دوہرا کر بنی کولکھتی ہے :
”با! اپنے کمرہ میں تم نے بِنّی کی تصویر کیوں ٹانگ رکھی ہے؟ سیجل کی نگاہ اس پر پڑتی نہیں ہوگی؟ کبھی سوچا ہے تم نے کہ اس کے دل ودماغ پر کیا اثر پڑتا ہو گا؟ تم بھلے کبھی اس کالی پرچھائیں کا نام اپنی زبان پر نہیں لاتیں لیکن یہ جو ہر تیوہار پر بلا وجہ تمہاری آنکھیں بھر بھر آتی ہیں کیا یہ اسے زبردستی اس گھر میں کھینچ نہیں لاتیں؟ “
میں آپا کھو بیٹھی تھی۔
تو جاہلوں جیسی کیا باتیں کر رہا ہے؟ میرے پیٹ سے جنم لینے والے کو تو کالی پرچھائیں کہہ رہا ہے؟ تو بھی تو اسی کوکھ سے جنما ہے، منجل بھی اسی کوکھ سے جنما ہے۔ کیا بگاڑا ہے اس نے ہمارا؟ قدرت نے اس کے ساتھ جو نا انصافی کی اس میں اس معصوم کا کیا قصور؟ اگر وہ تیری اولاd ہو کر پیدا ہوتا اور تو اسے گھر سے باہر نکالنے کی بے بسی جھیلتا تو بول تجھے کیسا محسوس ہوتا؟
”۔ “ دنیا میں آنے سے پہلے ہی میں اسے رخصت کر دیتا
بڑے بھائی کا زہر میں بجھا ہوا جواب ماں کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتا ہے۔ خون کے رِشتے ہی جب اس طرح بدل جائیں تو؟ درد کی بلکتی صورت میں بنی جواباً لکھتا ہے :
تو نے میرے پیدا ہوتے ہی انسان کے اس تیسرے روپ کو دیکھ لیا تھا نا با؟ ”
اسی وقت مجھے ختم کر دینا چاہیے تھا، تو کس موہ میں پڑ گئی تھی با؟ بول۔ ”
ہر جملہ زخمی ہے۔ ہر لفظ کی آنکھ نم ہے۔ ہر سطر سے آنسو بہتا ہوا، ہر بات تیزدھار خنجر کی طرح کلیجہ کاٹتی ہوئی اورمیرے ضبط کا پیمانہ چھلکتا جاتا ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے میں، اس پسماندہ اور آوٴٹ ڈیٹڈ سماج کے لکھے، زندگی کی اس دشا پہ ضبط کے بند باندھنے والے سارے مہارت ساز لفظوں کو کسی اندھے کنویں میں پھینک کر جلا ڈالنا چاہتی ہوں۔ ہے کوئی ایسا طریقہ جس کے ذریعے یہ ایک فیصد کے بنائے خودکش نظام کولامحدود اختیارات بخشنے والے، مصنوعی غیرت کی آن بانشان کو قائم رکھنے والے اورعام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر پاوٴں تلے روندنے والے مشرقی سماجی ضابطوں کی پوٹلی بنا کر دریا برد کر دی جائے؟ دوستو! یہ کس نے طے کیا کہ جس انسان کے جسم پر چار چھ اِنچ کا اضافی ٹکڑا نہیں لگا ہو یا آدھی ناشپاتی نہیں چپکی ہو، وہ انسان نہیں ہوتا؟ اسے عام انسانوں، اپنے پیاروں کے ساتھ رہنے کا کوئی حق نہیں؟ بنی کے لفظوں میں چھپی اذیت کو محسوس کرنے کی کوشش تو کریں۔
” کبھی کبھی میں چمگادڑوں سے پر عجیب سی اندھیری سرنگ میں خود کو گھٹتا ہوا محسوس کرتا ہوں، اس حبس زدہ ماحول سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مارتا ہوا انسان تو ہوں نا! اگر میرے اندر کچھ نقص ہے تو اس کی اتنی بڑی سزا؟
ایسی دل گرفتہ حالت میں میری آنکھوں سے کھارا پانی نہیں خون رسنے لگتا ہے با، گالوں اور گردن پر کتھئی لکیریں گہری نہروں کی طرح کھد جاتی ہیں۔ جو نہ کبھی سوکھتی ہیں نہ خالی ہوتی ہیں۔ جب انہیں اوپری سطح پر خود کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تبھی نظر آتی ہیں، یہ احساس دلانے کے لئے کہ اپنے کتھئی گیلے پن کو میری انگلیاں چھو سکیں۔ اور جب نظر نہیں آنا ہوتا ہے تو معدوم ہو کر میرے جسم کے ادھورے حصے میں جا کر جم جاتی ہیں۔ ایسی برف کی طرح جو اندھیر ا پی کر کالی ہو گئی ہو۔
یہ کھیل خود میری سمجھ سے پرے ہے
یہ کون سا جادو ہے با!
حیرت میں ہوں۔
سب نے مجھ سے منہ موڑ لیا
خوابوں نے منہ نہیں پھیرا۔ ”
اِنفرادیت اور ریشنل سوچ کے دُشمن یہ گلے سڑے اصول، ہر طورجبر کے نظام کو چلانے کے لئے بنائے بوسیدہ، بدبودار گھناوٴنے نیئم، جہاں کہیں ماوٴں کو زبردستی اپنے جگر گوشے گھروں سے نکال باہر کرنا پڑتے ہیں تو کہیں باپوں کو اپنی زندہ اولادوں کے مرنے کی خبر پھیلانا پڑتی ہے۔ جھوٹی آن کی مجبوری اور ذلت سے گندھے نظام میں جہاں کمزور پر ظلم ضابطہ بن جائے وہاں کوئی کتنی دیر لڑسکتاہے؟ مایوسی اور دکھ کے زندانوں سے ایسے تاریک خیال ہی جنم لیتے ہیں :
” اچاٹ من، اہانت کے احساس سے لبریز، فطرت کے مذاق کے نام پراذیت برداشت کرنے کی قوت نہیں بچی، کب تک لڑے کوئی اپنے سے۔ اپنوں سے۔
پپا کی خواہش پوری نہ کر دی جائے؟
قصہ ہی ختم!
کہاں مروں؟ مروں تو کیسے مروں؟
کیسے پیدا ہونا ہے اس کا اختیار تو مجھے نہیں تھا لیکن موت چن سکتا ہوں۔
شہر میں مروں گا تو لاش کنروں کے ہاتھ لگے گی، ان کے رسم و رواج کے مطابق نپٹارہ ہوگا، کنر کے روپ میں میں مرنا نہیں چاہتا، اپنی مرضی سے مر سکتا ہوں تو لاش کا نپٹارہ بھی میری مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بلند و بالا پہاڑ پر جا کر مرنا مناسب ہوگا، ہزاروں فٹ گہری ناقابل عبور گھاٹی میں کون میری لاش تلاش کرے گا؟ لاش کے ٹکڑوں سے لپٹ کر تجھے بھی چھاتی کوٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔ میں یہی چاہتا بھی ہوں۔ تجھے اندیشہ میرے خطوط نہ پہنچنے سے ہی ہوگا۔
جب پوسٹ باکس نمبر 203 نالا سوپارا سے تو مسلسل خالی ہاتھ لوٹے گی۔ اتنی ہمت تو خیر تجھ میں ہے نہیں کہ میرے ایڈریس پر کسی کو بھیج کر میرے بارے میں دریافت کرے، تجھے ایسا کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر چکی ہوتی۔ ایسی بات نہیں ہے با کہ تجھ میں ہمت نہیں ہے، عورتیں اپنی ہمت کا ستعمال ہی نہیں کرتی ہیں۔ ان کی اپنی آنکھیں نہیں ہوتیں، وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں حلقوں سے نکال کر شوہر اور بیٹوں کی جیبوں میں سرکا دیتی ہیں ”۔
ٹھیک ہی تو لکھا ہے بنی نے۔ ہم جو دنیا کی نظر میں کسی جنسی عضو کی کمی کا شکار نہیں، ہم بھی بھلا اپنی زندگیاں کہاں جیتے ہیں؟ رکھت رکھا ہے ہمارا جیون بھی سماج کے پاس۔ کیسے ہنسنا۔ کیسے جینا، کیا پہننا، کیا اوڑھنا، کیسے چلنا، کس سے کتنے تعلقات رکھنے ہیں، کس سے نہیں۔ کس مذہب سے محبت، کس دھرم سے نفرت کرنی ہے سب معاشرے نے طے کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ اس مہاجن سماج کے پاس رہن رکھی ہیں ہماری خوشیاں جو سود کا حساب کتاب دینے کے لئے تیار ہی نہیں، اور قرض ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔
مگروہ جو معاشرے کی نظر میں جسمانی طور پر نہ مکمل مرد ہیں نہ مکمل عورت، جن کو سماج نے ایک تہمت بنا رکھا ہے، ان کی اذیتوں کی تو کوئی حد بھی مقررنہیں کی ہے اس جابر معاشرے نے۔ لفظوں کی سفاکی کے چابک مارتے لوگوں کے لئے یہ لوگ کھسرے، کھدڑے، کنر، مخنث یا ہیجڑے ہیں۔ ۔ ۔ چلتی پھرتی بددعا ہیں، گالی ہیں۔ وہ جن کے وجود پر گوشت کا ہر ٹکڑا درست جگہ پرچپکا ہوا ہے ان کے لیے مزے لینے والی گالیاں اورجن کے وجود کا اڑھائی تین چار تولہ گوشت اِدھر اُدھرغلط جگہ پر لگ گیا۔ ان کے لیے کوڑے۔ ۔ ۔ رُوح پہ برسنے والے تارا میرا میں بھیگے کوڑے۔
بنی کا خیال رکھنے والی پونم کی بھی اپنی ہی کہانی ہے۔ ۔ ۔ اس کے نچلے دھڑ پے آدھی ناشپاتی نہیں لگی سو وہ بھی سماج کی دھتکاری ہے مگر اس کے لئے بنی سلمان خان ہے اور جو اس کی پڑھائی کے لئے پورے آٹھ ہزار روپیہ جوڑتی ہے۔ یہ جینے کے آزار سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے، بچگانہ کوشش۔ مگر اس انتہائی قابل قدر کوشش کے نتیجے میں درجہ (ب) میں رول نمبر اٹھارہ کا شاگرد جسے باپ دنیا کی نظر میں مار چکا، ماں کو بنتی لکھ بھیجتا ہے
”با! ایک اجازت چاہتا ہوں تجھ سے۔
احسان کریں گی نا اپنے اس بیٹے پر؟
اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی میں کرسپانڈینس کورس کے ذریعہ بورڈ ایگزام میں بیٹھنا چاہتا ہوں، تیرے بیٹے کے روپ میں اپنا نام بھر دوں؟
تو منع کرے گی تو کوئی بات نہیں۔ دکھ بہت ہوگا مگر ہوتا رہے۔ ”
دل چاہ رہا ہے تہذیب یافتہ ہونے کی ساری سندوں کو آگ لگا دوں۔ ۔ ۔ باہر نکل کر پتھر ماروں۔ اپنا بھی تماشا بناوٴں اور ہمارے اس بدبودارسماج کے بھونڈے اور ظالم رویوں کابھی۔ سلیقے، قرینے، تہذیباور نفاست کے بناوٹی چہرے سے نقاب کھرچ کراس جھوٹے پا کھنڈی معاشرے کو اس کی اصل حقیقت دکھاوٴں۔ اتنا چلاوٴں کہ میری آواز دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جائے۔ اور ہمارے سڑے ہوئے سماج کے بدبودار نظام کے قانون پہ۔
یہ موٹی موٹی گالیاں چسپاں کر کے چیخ چیخ کر دنیا کو بتاوٴں کہ جھوٹی روایات اور پرم پرا کے فرضی قصے گھڑنے والو۔ ۔ ۔ تمہارا پورا بگلا بھگت، زرد گوش، کینہ توز اورکینہ پرور معاشرہ ننو کے گرد ناچ رہا ہے۔ تمہارے منافق سماج کی اخلاقیات ننو پہ کھڑی ہے۔ اورناشپاتی کے ادھے پہ تمہاری نامراد غیرت کی بدبودار لاش گڑی ہے۔ دو ٹانگوں کے بیچ کھڑا ہے تمہارا الف ننگا سماج۔ وہیں سے شروع، وہیں پر ختم۔ ۔ ۔ تف ہے ایسے سماج پر۔ ننو پہ کھڑے بے حیا سماج۔ ڈوب مر۔
خبریں تو سنتے ہوں گے آپ بھی؟ ٹی وی، اخباراوراب سوشل میڈیا۔ سب کے فون پر لگے کیمروں سے بنی وڈیوز تو پہنچتی ہی ہوں گی آپ تک۔ خواجہ سراوٴں۔ ہیجڑوں۔ اور تیسری جنس۔ کے ساتھ روا رکھے جانے والی المناکیوں کی۔ جسے معمول کی خبر یں سمجھ کر ہمارے احساسات نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ رات رات بھر شرابی کبابی، رکیک جنسی مزے کے لئے انہیں نچاتے ہیں، حیاسوز سلوک کرتے ہیں۔ صبح تک کوئی ہیجڑا بچ جائے تو ٹھیک۔ مر جائے تو بھی کیا؟ اس کے لئے کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ قانون تو خود ان سے کھلواڑ کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ان کی کمائیوں کو لوٹتا ہے اورانکو بے عزت کرنا اپنی شان سمجھتا ہے۔ باقی رہ گئے ہم۔ ۔ ۔
ہم معززتماش بین
ہم جھوٹی عزتوں کے رکھوالے
دکھاوے کے غیرت مند
پڑھے لکھے دانشمند
خودساختہ دانشور
ہم جو ”پورے انسان“ ہونے کی سند گلے میں لٹکا ئے، بے غیرت خاموشی کے ساتھ مُردوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم جو خود کو حساس لوگ کہتے ہیں مگر اپنے خول سے باہر نہیں نکل سکتے اورکبوتروں کی طرح آنکھیں بند کیے سب اچھا ہے کا ورد کرتے رہتے ہیں اور مظلوموں پر بیتنے والے ہر قہر پرخاموش رہ کر، حالات کے ساتھ مطابقت کی کوششوں میں، خود بھی ظلم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ تیسری جنس اس بے رحم زمانے کی تنہا جنس ہے، ان کے ماں نہ باپ، نہ کوئی بہن نہ بھائی، نہ سماجی انصاف، نہ نوکری، نہ اعلٰی تعلیم کاحق، نہ گھر نہ گھاٹ، نہ آبرومندانہ زندگی کی کوئی امید۔ موت ان کی آزادی کا پروانہ سمجھی جاتی ہے۔ ان کی بے رحم یا بے وقت موت پر کسی آنکھ کا نم ہونا ان لکھا اور ان سنا فسانہ ہے فی الوقت۔
میرے تصور میں، میرے کلفٹن کراچی والے تیسری منزل کے فلیٹ کے نیچے کا بکھرا بازار آ جاتا ہے۔ وہ منظر جو بھلانے سے نہیں بھولتا اور جس کے یاد آنے سے رگوں میں دوڑتے خون کی روانی میں فشار برپا ہوجاتا ہے۔
چہرے پر پھیلتا ہوا بھدا لال گلابی میک اَپ۔ سستے نقلی زیورات کی لپک، شوخ و شنگ رنگوں کے تنگ کپڑوں میں ابھاری ہوئی چھاتیاں نمایاں، آنکھوں میں نیتیں پڑھنے کے سوفٹ وئیر نصب، ہونٹوں پر مجبوری اور ذلت کے بھونڈے رنگوں سے رنگی بھدی آواز میں ہر کس و ناکس کے حسن و جوانی کے تا ابد برقرار رہنے کے مصنوعی تعریفی جملے۔ اور اِردگرد جمع بے شرم مسکراہٹوں اور ننگے اشاروں میں ڈوبی اوباشوں کی ٹولیاں۔
کوئی کولہوں کے قریب، کوئی کھلے گریبان کے اندر گہرائی تک جھانک لینے کے جتن کرتا، تو کوئی کمر کا گوشت نوچ لینے کے لئے بے قرار۔ نہ جانے کیسے کیسے فحش مذاق کرتے ہوں گے کہ ان کے بے حیا قہقہے منظرکی پستی اورسفلے پن کو مذیدعریاں کرتے رات کی تاریکی اورسٹریٹ لائٹس کی روشنی پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر چند روپوں کا سودا کرتی۔ اوہو کرتا۔ ۔ ۔ اتنے میں ایک لفنگا اس کے گال کا گوشت نوچتا ہے، وہ گال چھڑانے کے لئے اس کی کلائی پکڑتا ہے۔
۔ ۔ اور ان سفلوں کے درمیان مائک پکڑے، پاوٴ بھر میک اپ چہرے پر لیپے ایک فیشن ایبل مگرمذہبی حوالوں سے لیس، کسی ٹیلیویژن کی ریٹنگ کو بڑھاوا دینے کے لئے رکھی گئی خاتون رپورٹردندناتی ہوئی آتی ہے اور اس بے مغز بھیڑ میں گھرے ”بے بس تماشے“ سے اس کے جسمانی طور پر مرد ”نہ“ ہونے کا سرٹیفیکٹ طلب کرتی ہے۔ رپورٹر کی آنکھوں میں نفرت اور حقارت کی لپٹوں اور ہونٹوں سے چنگاریاں برساتے لہجے کے سامنے وہ ٹھہر نہیں پاتا/پاتی اورسراسیمہ ہو کر اس بھیڑ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر کیمرہ مین، رپورٹر اور تماش بین کہاں اس سمے ایسا ناٹک ادھورا چھوڑ سکتے ہیں۔ ماحول کا رنگ مزید چوکھا ہونے لگتا ہے۔
میں، سدا کی بزدل، آگے نہیں دیکھ سکتی۔ کھڑکی بند کر دیتی ہوں۔
مکروہ حرکتوں والے یہ ہوسناک چہرے۔ برتر انسان سمجھے جاتے ہیں کہ ان کی ناف کے پاسچند اِنچ کا سالم ٹکڑا جڑا ہے۔ میری آنکھوں سے آنسو نہیں سوکھتے تھے۔ دو بچے پیدا کر کے تو میں جیتے جی مر گئی تھی۔ میں خود سے بار بار پوچھتی تھی، یہ بچے کیسے رہیں گے اس بے حس، وحشی اور ظالم سماج میں؟ کیا سیکھیں گے؟ کیا اس عقل و خرد سے بے گانہ انبوہ کا حصہ بنیں گے یا اس ظلم و زیادتی کے خلاف لڑیں گے؟ اور لڑیں گے تو کتنی دیر لڑ سکیں گے؟ پھر میں کینیڈا آ گئی ان دونوں کو سینے سے چمٹائے۔ اس ملک میں، جہاں جب بھی کوئی فارم فل کرنے لگتی ہوں تو کئی خانے میرے سامنے کھل جاتے ہیں۔
Man/Woman/Bio/Gay/Other
آپ جس شناخت کے ساتھ جی رہے ہیں، اس پر کراس لگا دیجئے۔ کوئی جینڈر کسی جینڈر سے زیادہ محترم نہیں ہے۔ انسان ہونے کے ناتے آپ کے حقوق یکساں ہیں۔ آپ کے جسم کی مختلف ساخت کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہکوئی خود کو آپ سے برترسمجھے اوراگر کوئی ایسا کرے گاتو قانون اس کے اس عمل کے خلاف حرکت میں آئے گا۔ اس ملک میں کسی کا بیٹا یا بیٹی جسم کے گوشت کی معمولی سی بے ترتیبی کی وجہ سے ماوٴں سے نہیں چھینے جاتے۔ ان کی مائیں ساری زندگی انہیں دیکھنے کو نہیں ترس جاتیں۔
ان معصوم اولادوں کو بے رحمی اور بے حسی سے دھتکاری نسلوں کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ انہیں انسانوں کی سفلی خواہشات کی غلامی کے لئے تیار نہیں کیا جاتا۔ یہاں چمپا بائی نہیں آ سکتی، اس کے رسوم ورواج نہیں پنپ سکتے اور کوئی سردارکسی با کے دیکرے کو عام انسانوں والے کام کرنے سے منع نہیں کر سکتا۔ یہاں کسی بچے کے نچلے دھڑ پر محض ننو لگا ہوا نہ ہونے پر باپ اس کی موت کی خبرنہیں پھیلا سکتے۔ یہاں وہ معاشرے کے معزز شہری ہیں۔ وہ ہر جگہ باعزت کام کرتے ہیں۔ بنکوں میں، آفیسوں میں، دکانوں میں، بزنس میں، ہرجگہ قابل احترام۔ یہاں، میں با کے بیٹوں سے دوستی کرتی ہوں۔ وہ مجھے، مجھ سے، تم سے۔ ہم سب سے زیادہ پیارے لگتے ہیں۔ سچ پوچھو تو وہ دنیا کے مکمل ترین انسان ہیں۔
مگرہندوستان سے احسن ایوبی نے یہ ناول بھیج کر گویا مجھے پھر وہاں بھیج دیا جہاں مری آنول نال گڑی ہے اور اس سے منصوب قصے گڑے ہیں اور میرا ماضی گڑا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چھ اِنچ کے اضافی گوشت والے مکروہ۔ گھناوٴنے کرداروں کے بھیانک چہرے اور ان کی زیادتیوں کی کئی ان لکھی بے درد داستانیں ذہن کی سلیٹ پرنقش ہیں۔
چترامد گل اور احسن ایوبی!
بات یہ ہے کہ ہم اور تم ایک سے ہیں۔ ہم دو کہاں؟ بلکہ یہ ویزے کی دقت نہ لگی ہوتی تو تم آکر دیکھتے، تمہارا اور ہمارا گھر، رسوئی، چھتیں، دیواریں، اسکول، رستے، شہر، دیہات، چلتے پھرتے لوگ، ناچ، گانا، ہنسی مذاق، مٹی، پھول، گندم، پانی، بھوک، ننگ، امارت کا اوج اورغربت کا پاتال، سب کچھ بالکل ایک سا ہے۔ بیہودہ سماج کی فرسودہو غیر منطقیسوچ سے لڑنے کا حوصلہ نہیں جُٹا پائے ہیں ہم دونوں ابھیتک۔ ہم ایک ہی طرح سوچتے ہیں اوربدلنا نہیں چاہتے۔ ہماری معاشرت میں، ہمارے نصاب میں، ہمارے ذہنوں میں، اب تک۔ چھ اِنچ کا لٹکتا گوشت۔ اور آدھی ناشپاتی۔ انسانوں کے نارمل اور ایبنارمل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
یہ ناول پڑھتے پڑھتے میرا گمان پختہ ہو گیا ہے کہ میری جڑیں ابھی تک وہیں اسی دھرتی میں پیوست ہیں، جہاں کا قصہٴ درد مجھ تک پہنچا ہے۔ یہاں توگویامیں اپنی جڑوں سے دور، اپنے وجود کے پیڑ کو اپنی ہتھیلی پر دھرے بیٹھی ہوں۔ شاید اسی لئے مجھے ایسا لگتا ہے گویا ”با“ کا دیکرا مجھ سے دور نہیں ہے۔ میرے ساتھ اس کا کسی نہ کسی جنم میں، کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور رہا ہو گا، اسی لئے اس کا لکھا لفظ لفظ میرے دل نے خود پر لکھ لیا ہے۔ دنیا کی سب سے با کمال، سب سے زیادہ محبت کرنے والی ”با“ کے دیکرے!
تو نے ہر لفظ کے آخر میں احتراماً لکھا ہے ”تیرا دیکرا“
تو وقت کی چالیں اورہوشیار لوگوں کی سازشیں دیکھ دیکھ کر کتنا سیانا ہو چکا ہے، مگر ترے اندر تلخی نہیں گھلی۔ کیسی پوتر ہے تری روح اور کیسا پیارا ہے تیرا لہجہ۔ تو تو اپنے دل میں موٹا بھائی کے لئے بھی پیار ہی پیاررکھتا ہے جنہیں خدا معلوم کیوں تجھ سے اتنا بیر ہو گیا کہ گھر میں لگیتیری تصویر تک اتروا دی۔ میرا دل چاہ رہا ہے تجھ سے ملنے آوٴں۔ تیری ”با“ کے پیر چھووٴں۔ اور تجھے گلے لگا کر کہوں ”میرابہادر دیکرا“۔
تو نے دیکھا نہ، بوڑھی ہوتے ہوتے، دکھ سہتے سہتے، تجھے تسلیاں دیتے دیتے، سماج کے اندھے، بہرے اورظالمانہ رویوں سے لڑتے لڑتے تیری ”با“ کیسی مضبوط ہو گئی کہاپنے حوصلے سے صدیوں پرانے دستور کو ایک جھٹکے سے ڈھا بیٹھی۔ اور دیکھ دنیا کی ساری مائیں تیری ”با“ جیسی حوصلہ مند ہو جائیں تو کیا پھر بھی تیرے جیسے محبت سے بھرے دیکرے کو کوئی چمپا بائی اپنی ماں سے چھین کر لے جا سکتی ہے؟ اورکھسرے، کنر، مخنث، خسرے، کھدڑے، ہیجڑے، بیچ والے۔
کہاں کہاں سے آئے ہیں یہ، جیسے بدصورت الفاظ کہہ کر کوئی انہیں تالیاں پیٹنے، بھونڈی حرکتیں کرنے، آنکھوں میں بھر بھر کاجل اور ہونٹوں پہ بیہودہ لالی لگانے پر مجبور کرسکتا ہے بھلا؟ معاملہ یہ ہے کہ سنجیدگی اور دردمندی سے ہمارے ملکوں کے کرتا دھرتاوٴں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دلچسپی ہی نہیں لی۔ یہ سارا معاملہ ماوٴں اوران کے دیکروں کا تھا۔ جن کے بیچ میں زبردستی گھس کر، گھناوٴنی سازشیں رچا کے، سماج کے ان ظالم ٹھیکیداروں نے یہ نرک بنا دیا۔
کیسا اچھا کیا تو نے کہ اس معاشرے کواس کا اصل چہرہ دکھا نے کے لئے سب کچھ لکھ دیا۔ سمجھا دیا سب کو۔ بتا دیا کہ کیا ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ یہ سب کیسے ٹھیک ہو گا۔ دیکھ، سب تیرے لکھے لفظ پڑھ کرقوانین بنا رہے ہیں۔ انصاف کی باتیں کر رہے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں۔ تیرے لفظ آنے والے زمانوں میں تیرے جیسے مکمل خوبصورت انسانوں کو مکمل دنیا دلائیں گے۔ تو نے لکھا ہے :
” میری ہمیشہ خواہش رہی کہ عضو تناسل میں نقص والاشخص قدرت کی جانب سے ملے اس جہنم کوعذاب نہ سمجھ کر اس سے نجات کا راستہ تلاش کرے، اپنے طرز حیات پر تدبر و تفکر کرے، سماج اس کے لئے نجات کے راستے نہیں تلاش کرے گا۔ اکیسویں صدی میں جیتے ہوئے جو سماج صدیوں پرانے اندھ وشواس کوگلے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے اور آج بھی اسے جھٹکنے کے لئے راضی نہیں ہے۔
سماج کی ذہنیت تبدیل کرنی ہو گی۔
لیکن بدلے گی کیسے؟ کوئی متبادل ہے؟ کسی کو پہل کرنی ہو گی۔
کسی سرپرست کو پکار لگانی ہو گی با۔
بوسیدہ و فرسودہ روایتوں کو پھاڑ کر پھینک دینا ہو گا۔ جلا دینا ہو گا۔ بھسم کر دینا ہو گا۔
دلیری اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، محض حوصلہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جنسی عضو میں نقص والی اولاد سے معافی مانگتے ہوئے۔
عوامی سطح پراعلان کرتے ہوئے۔
میرے بیٹے!
میری بیٹی!
جہاں بھی ہو، جیسے بھی ہو، اپنے گھر لوٹ آؤ، گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
ہم اپنی غیر انسانی حرکت کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے بچے کی گھر واپسی چاہتے ہیں۔
با! یقین ہے کہ ان کی پکار رائیگاں نہیں جائے گی۔
ان کی گستاخی دوسروں کے لئے حوصلہ بن جائے گی۔
ریزرویشن انہیں تیسرے خانہ میں بندکردے گا۔
تیسرے خانہ میں کیوں؟
تیسرے خانہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اس کھیل کو جنسی عضو سے محروم افراد سمجھ نہیں پا رہے ہیں، سمجھ بھی نہیں پائیں گے۔
سرکار کو ریزرویشن دینا ہی ہے تو انہیں دو خانوں کے اندردے جن دو خانوں کے اندر سبھی جنم لینے والے انسانوں کو ملتا ہے۔ انہیں چننے کی سہولت دے، جس خانہ کو وہ خود کے لئے منتخب کرنا چاہیں یا جو ہونا چاہیں۔
عورت یا مرد۔ خاموشی سے۔ ”
دیکھ بنی، جیت تیری ہے مگر یہاں مجھے حق دے کہ میں تجھ سے تھوڑا سا اختلاف کروں۔ یوروپیئن اقوام کی جارحانہ یلغار سے پہلے مظاہر فطرت سے رہنمائی اور زبان کائنات سے کلام کرنے والے امریکہ اور نارتھ امریکہ کے اوریجنل مگر اب ایبوریجنل کہلائے جانے والے انڈین باشندوں کے پاس تو ”تھرڈ جینڈر“ کو ”ڈبل سپرٹ“ کہہ کر مرد اور عورت سے زیادہ مان سمان دیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں ایک ریسرچ ابھی حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ دراصل دنیا میں، آج تک کی تحقیق کے مطابق تریسٹھ جینڈرز ہیں۔ اوراببہت سے یوروپیئن، امریکن اور نارتھ امریکن ملکوں نے صرف تیسرا نہیں بلکہ بہت سارے خانے بنا دیے ہیں کہ تم جس خانے میں مناسب سمجھو خود کو شامل کر لو۔ پہلے ایل جی بی ٹی تک محدود تھے۔ ابھی حال ہی میں ایل جی بی ٹی کے ساتھ قیو، آئی، اے بھی شامل کر دیا ہے تو سارا بنا۔ ۔ ۔
lesbian, gay, bisexual, transgender, queer or questioning, intersex, and asexual or allied
ہے نہ بڑی بات؟ سیکھ رہے ہیں نہ یہ ملک؟ ننو کے بجائے دماغ استعمال کرنے لگے ہیں نہ؟ تو ہمارے لوگ کب تک نہیں سوچیں گے کہ مختلف ہونا عیب نہیں ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کسی شاعر نے کسی مظلوم باکے دیکرے یا دیکری کے دکھ کو ان لفظوں میں زبان دی تھی:
”میرے باپ کے پانچ بچے تھے
دو لڑکے، دو لڑکیاں
اور ایک میں ”
ہندوستان میں اس ”ایک میں“ کو ستائیس دسمبر کو ”با“ کی ساری زندگی کی قربانی اور وصیت نے نام دے دیا ہے۔ کیسی کیسی مشکل گھڑیاں دیکھیں تم دونوں نے۔ ۔ ۔ ساری عمر لگا دی ”با“ نے تجھے شناخت دینے میں۔ اور تو اور، تو خود اپنا پورا نام لکھنے کو ترس گیا۔ کبھی اپنی پہچان کے لئے عرف بنی لکھا تو کبھی عرف بملی اوربہت ساری بے نام عرفیتیں سوچتا رہا ہو گا مگرمجھے ایسا لگتا ہے کہ اب کسی ”ونود شاہ“ کو شناخت کے ایسے ہولناک بحران سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
تو نے ایک خط میں با کو لکھا تھا نہ کہ ”جانتا ہوں با! ترے ناسور پہ ناخن رگڑ رہا ہوں۔ “ پر سچ پوچھ تو، تو نے ہماری پست سوچ کے ناسوروں پہ ناخن رگڑنے کے لیے یہ سب لکھا۔ دیکھ تیرے ناخن کی رگڑ فرسودہ رسموں کی صدیوں پرانی کہنہ عمارت کو ہلا سکتی ہے۔ گرا سکتی ہے۔ مسجود کرسکتی ہے۔ مگر بنی، ستائیس دسمبر کے اخبار میں ایک دوسری بھی بہت پریشان کن خبر ہے۔ دل دہلا دینے والی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ روشنی اور امید کا سورج موت کی سی تاریکی سے ہی کیوں طلوع ہوتا ہے؟ ایسا ہوتا تو آیا ہے پر جی نہیں مانتا۔
تو ٹھیک تو ہے نہ با کے دیکرے۔ ۔ ۔ میرے دیکرے؟