’اپنے ایشیائی والدین کے سخت رویے کی وجہ سے تنہا محسوس کرتی ہوں‘

تصویری خاکےتصویر کے کاپی رائٹKATIE HORWICH/BBC

جب ایک نوجوان خاتون نے ایک آئن لائن فورم پر اپنے والدین کے سخت رویے اور اپنی تنہائی کا ذکر کیا تو دنیا بھر سے انھیں مدد اور دوستی کے پیغامات موصول ہونے لگے۔ اس نوجوان خاتون نے بی بی سی کی اِلین چونگ سے بات کی: 

جب میں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو میں ںے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے دنیا بھر سے ردعمل موصول ہو گا۔ اچانک ہی مجھے ایسے لوگ مل گئے جنھوں نے مجھے مشورے دیے اور دوست بننے کی پیشکش کی اور ان میں سے بہت سوں نے یہ کہا کہ وقتاً فوقتاً وہ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں۔

میں خود کو بہت کھویا ہوا محسوس کر رہی تھی تو میں نے اس وقت فیس بک کے ایک گروپ میں اپنی کیفیت شیئر کی۔ میں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس گروپ کے ارکان میری بات سمجھ سکیں گے کیونکہ ہم سب کا ثقافتی پس منظر ایک ہی ہے۔

انھوں نے بات کچھ یوں شروع کی

ہیلو، ایشین ساتھیوں

مجھے زندگی کے بارے میں مشورے کی سخت ضرورت ہے۔ میں نہیں جانتی مجھے کیا کرنا چاہیے۔

میرے والدین ہمیشہ ہی میرے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند رہے ہیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ بچپن میں کبھی مجھے اپنے کسی دوست کے گھر رات گزارنے کی اجازت ملی ہو۔

میں چینی نژاد آسٹریلوی ہوں اور میرا خیال ہے کہ میری حالت کا تعلق میرے خاندانی پس منظر سے ہے جو تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ ہمارے والدین ہماری پرورش میں خاصی سختی برتتے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملے میں۔

مجھے ان سے محبت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میرے والدین نے میری شخصیت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ میں شرمیلی اور خود میں گم سم رہتی ہوں، اور زیادہ عرصے تک دوستی نہیں نبھا سکتی۔

میں بچپن میں تنہا تھی اور کہہ سکتی ہوں کہ اب میں اس سے بھی زیادہ تنہا ہو گئی ہوں کیونکہ جوانی میں دوست بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس عمر میں تقریباً سب ہی لوگ دوستی کے مضبوط رشتے قائم کر چکے ہوتے ہیں۔

میں دوست بنانا چاہتی ہوں۔

گذشتہ برس میں نے اپنے والدین کا گھر چھوڑ دیا لیکن میں دنیا کی اونچ نیچ سے بے خبر ہوں۔ یہ کیسے چلتی ہے، کام، ڈیٹنگ اور روز مرہ زندگی کا کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم۔

مجھے لگتا ہے کہ میری ذہنی عمر میری طبعی عمر سے پانچ برس کم ہے۔

جلد ہی میری عمر 25 سال ہو جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے ابھی اپنے خول سے نکلنا ہی شروع کیا ہے۔ میں اس صورتحال کو بدلنا چاہتی ہوں مگر نہیں جانتی کہ آغاز کہاں سے کروں۔

جب تک والدین کے ساتھ رہی رات کے نو بجے مجھ پر کرفیو لگا دیا جاتا۔ مجھے ہمیشہ ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جیسا کہ تم کس کے ساتھ باہر جا رہی ہو؟ تم وہاں کیسے جاؤ گی؟ تمھیں لینے کون آ رہا ہے، وغیرہ۔

میری والدہ دروازے پر مجھے چھوڑنے آتیں تو کہتیں ’نو بجے سے پہلے واپس آ جانا ورنہ میں پولیس کو اطلاع کر دوں گی۔‘

گھر کے باہر کھڑی ماںتصویر کے کاپی رائٹKATIE HORWICH/BBC

جب میرے کرفیو کا وقت نزدیک آنے لگتا تو وہ مجھے ڈھیر سارے ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے لگتیں۔ اسی دوران میرے والد ای میلز بھیجنا شروع کر دیتے۔ لیکن کوئی بھی جب باہر ہوتا ہے تو ای میلز نہیں دیکھتا لہذا میں اگلے دن ہی ان کو اپنے ان باکس میں دیکھ سکتی تھی۔

میرے والد کے پیغامات کچھ اس طرح ہوتے تھے: ’تم ابھی تک واپس کیوں نہیں آئی! میں سمجھ جاتی کہ وہ غصے میں ہیں۔ تاہم کبھی کبھار ان کے پیغامات قدرے نرم لب و لہجے والے بھی ہوتے تھے، مثلاً ’کھانا تیار ہے‘۔

جب میں 21 برس کی تھی تو ایک بار تو انھوں نے واقعی پولیس کو اطلاع کر دی تھی۔ میں کام کی تربیت حاصل کرنے کے لیے تین ماہ کے لیے کینبرا سے سڈنی منتقل ہوئی تھی۔ میرے والدین نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ میرے رہنے کا انتظام کیا تھا۔ یہ لوگ میرے آنے جانے کے معمولات کی نگرانی کرتے تھے۔

انٹرن شپ کے اختتام پر ہماری ایک پارٹی تھی۔ میرے والدین کے دوستوں نے میرے والدین کو اطلاع کر دی۔

میری والدہ اور والد مجھے میسیجز بھیجتے رہے ’تم گھر کیوں نہیں آئی ہو؟ تمھیں اب واپس چلے جانا چاہیے؟‘ میں نے انھیں میسیج کیا کہ میں کام سے متعلق ایک پارٹی میں ہوں اور یہاں بہت شور ہے لیکن میری والدہ مجھے فون کرتی رہیں۔

میں نے آخر کار ان کی چیخ و پکار سننے کے لیے فون اٹھا لیا، ’ہمیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ تمھیں یرغمال نہیں بنایا گیا ہے اور تمہارا فون کوئی اغوا کار استعمال کر رہا ہے؟‘ اگرچہ میں نے انھیں بتایا کہ میں ٹھیک ہوں لیکن وہ شدید جذبات میں چیختی رہیں ’کسی نے تمھیں یرغمال بنا لیا ہے۔‘

یہ وہ موقع تھا جب میں نے اپنی ماں کو سب سے زیادہ غصے میں پایا۔ میرے والدین نے اپنی دھمکی پر عمل کیا اور پولیس کو اطلاع کر دی، جنھوں نے میرے والدین کو بتایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ میں 21 برس کی ہو چکی ہوں۔

گزشتہ نئے سال کی رات میں ایک بجے تک باہر جشن منا رہی تھی۔ میرے والدین نے پولیس کو بلانے کی دھمکی دی۔ انھوں نے ان سب لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کے میں ان کے ساتھ ہو سکتی ہوں۔ یہ میرے لیے بہت پریشان کن تھا کیونکہ میرے لیے باہر پارٹی میں جانے کے مواقع کم ہی ہیں۔ میں لطف و اندوز نہ ہو سکی کیونکہ میرے والدین مجھے مسلسل فون کر رہے تھے۔

اس طرح کی باتوں کے لیے اب میری عمر گزر چکی ہے۔

میرے خیال میں میرے والدین کے رویے نے مجھے اچھی دوست بنانے سے باز رکھنے میں لازمی کردار ادا کیا ہے۔

پرائمری سکول میں وہ مجھے میرے دوستوں کے گھر نہیں جانے دیتے تھے، ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو باہر نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اس سے برا تاثر لیا جاتا ہے۔

انھیں ہمیشہ میرے ہر کلاس فیلو کے بارے میں ہر تفصیل جاننا ہوتی تھی۔ انھوں نے مجھے ویتنام کی ایک لڑکی کے ساتھ گھومنے کی اجازت دی تھی کیونکہ وہ اس کے والدین کو جانتے تھے۔ ایک اور دوست لبنان کی لڑکی تھی کیونکہ میرے والدین کے نزدیک وہ بہت محنتی تھی۔ سب دوستوں کا لڑکی ہونا ضروری تھا۔

لڑکی دوستیںتصویر کے کاپی رائٹKATIE HORWICH/BBC

جب میں تیرہ برس کی تھی تو میرے والدین ان تمام لوگوں کا ریکارڈ رکھتے تھے جن سے میں آن لائن بات کرتی تھی۔ ایک دفعہ انھوں نے میرے پورے ای میل اِن باکس کا جائزہ لیا اور میری کئی ای میلز ڈیلیٹ کر دیں۔

پندرہ برس کی عمر میں بھی میری والدہ سڑک پار کرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ لیتی تھیں۔

ہم سب میں سے میرا سب سے بڑا بھائی میرے والدین کے رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ وہ تقریباً تیس برس کا ہے اور اس نے کبھی کام نہیں کیا۔ وہ گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا بس سارا دن ویڈیو گیمز کھیلتا رہتا ہے۔

اس کی ذمہ داری وہ میرے والدین پر ڈالتا ہے۔

وہ ٹیسٹ میں 100 میں سے 96 نمبر حاصل کرتا مگر اسے اچھا پرفارم نہ کرنے پر ڈانٹ پڑتی۔ اس نے ایک اچھی یونیورسٹی سے ماسٹر کی سند حاصل کی، اور اب اسے چھوٹی موٹی نوکری قبول نہیں۔ بلکہ ایڈمن کی ایک معمولی نوکری کو ٹھکرانے پر وہ فخر محسوس کرتا ہے۔ میری والدہ اس کے اس رویے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ میرے والد نے اسے ہر قسم کی نوکری دلانے کی کوشش کی لیکن میری والدہ اس کے خلاف ہیں کیونکہ بقول ان کے ’اس کے پاس ماسٹر کی ڈگری ہے۔‘ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ 29 سال میں بھی ان پر ہی انحصار کرتا ہے۔

وہ انکار برداشت نہیں کر سکتا اور اس میں جذباتی پختگی اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

یہ مضحکہ خیز ہے کہ میرے والدین جب باہر تفریح کے لیے جاتے ہیں تو اسے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک بچہ ہے۔

میرے دوسرے بھائی کے سکول کا رزلٹ برا تھا لہذا اس پر دباؤ کم تھا۔ وہ یونیورسٹی تک تعلیم حاصل نہیں کر سکا، اس نے 16 سال کی عمر سے کام شروع کر دیا۔ بطور مالیاتی مشیر اب اس کی تنخواہ اوسط سے زیادہ ہے۔

میری بہن سب سے چھوٹی ہے۔ اسے والدین کو چکنی چوپڑی باتوں سے شیشے میں اتارنا آتا ہے۔ اس نے جھوٹ بولنا سیکھ لیا تاکہ وہ تھوڑی سی آزادی حاصل کر سکے۔ وہ ساز باز کرنے میں ماہر ہو چکی ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ والدین کے سلوک سے واقف ہے۔

ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ سے براہ راست پوچھ لیا،’آپ کس وقت میری نگرانی کرنا چھوڑیں گی۔‘

انھوں نے جواب دیا، ’تم چالیس کی بھی ہو جاؤ تو میں ایسا کروں گی۔‘ وہ مکمل طور پر سنجیدہ تھیں۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ میں پوری زندگی اکیلی ہی رہوں گی۔‘

میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ لڑکیوں کے سپورٹ گروپ ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے کام یا ڈیٹنگ کے بارے میں بات کرتی اور مشورے دیتی ہیں۔ اگر میری بھی اس طرح کی دوست ہوتیں تو میرا نہیں خیال کہ مجھ سے رومانوی رشتوں کی کوشش میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں وہ ہوتیں۔

میری اس پوسٹ کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور میں ان کو جتنا جلدی ہو سکتا ہے جواب بھی دے رہی ہوں۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔

ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ اس کے والدین بھی سخت تھے لہذا اس نے بغاوت کی۔ اس نے باہر جانا شروع کیا اور ہر اس چیز کا تجربہ کیا جو وہ پہلے نہیں کر سکا تھا: منشیات، الکوحل اور کسی کے ساتھ ایک رات گزارنا۔ اس نے کوئی امید نہ ہونے کے احساس کے بارے میں بھی بات کی۔ ہم نے فون پر دو گھنٹے بات کی۔ میرے خیال میں وہ میرا رہنما بننے والا ہے۔

لوگوں نے کتابیں، اپنی مدد آپ سے متعلق کتابیں اور ناول تجویز کیے۔ میرے کمرے میں بہت زیادہ پوسٹرز ہیں اور میں ان کی تجاویز اور ترکیبوں کو اپنے کمرے کی دیواروں پر آویزاں کر رہی ہوں۔

ایک پیغام جو بہت مددگار ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ میں کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کروں اور یہ بات بھول جاؤں کے کہ اپنی ذہنی صحت کے بارے میں کسی سے بات نہیں کی جا سکتی۔

ایک اور مشورہ کوئی مشغلہ اپنانے کا تھا جس سے خود بخود دوست بننے لگتے ہیں۔ یہ مجھے اچھا لگا لیکن یہ اتنا آسان نہیں جتنا سننے میں لگتا ہے۔

جب میں چھوٹی تھی تو میں پیانو بجاتی تھی، آرٹ کاش شوق تھا اور مجھے سلائی بھی پسند تھی۔ لیکن یہ سب تو تنہائی کے مشاغل تھے۔

پیانو بجاتی بچیتصویر کے کاپی رائٹKATIE HORWICH/BBC

مجھے بورڈ گیمز بھی بہت پسند تھے لیکن یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ انتظار کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ انھیں شروع کریں۔

اب بہت سی اور چیزیں ہیں جو میں کرنا چاہوں گی جیسے کہ ٹیبل ٹینس یا بیڈ منٹن۔

میری خواہش ہے کہ میں کسی کے ساتھ پہاڑوں پر گھوموں، ساحل سمندر پر جاؤں اور نئی چیزیں دیکھوں۔ میں سمندر پار جانا پسند کروں گی۔

مجھے معلوم ہے کہ مجھے خود کو اپنے محفوظ دائرے سے باہر نکالنا ہوگا۔ آخر کار کو میرا مقصد خوشی ہے لیکن ایک مبہم تصور ہے۔ لیکن اگر میرا مقصد ایک چیلنج پر پورا اترنا ہے تو اس کے نتیجے میں مجھے خوشی اور دوست دونوں ہی مل سکتے ہیں۔ یہ کام زیادہ آسان ہے۔


کیرن کو ملنے والے چند مفید مشورے

  • اگر آپ کو کوئی ٹی وی سیریز پسند ہے تو اس بارے میں لوگوں سے بات کرنے میں مت ہچکچائیں۔ بالعموم لوگ بہت دوست نواز ہوتے ہیں، اور لوگوں سے ان چیزوں کے بارے میں بات کرنا جو آپ کو پسند ہیں، تعلق قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 
  • ایک نفسیاتی طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے جملوں میں مثبت الفاظ شامل کریں۔ مثلاً اب میں اپنے والدین سے بات کرتے وقت ’یقین کیجیے، یا سچ میں جیسے الفاظ کا بکثرت استعمال کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھتے ہوئے اپنا سر ہلاتے رہیں اور مسکراتے رہیں۔
  • کسی خیراتی کام میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیں، بک کلب میں شامل ہوں، کچھ بھی کریں۔ بہت سی مختلف چیزیں کریں چاہے وہ آپ کو پسند نہ بھی ہوں۔ آپ دنیا کو جتنا دیکھیں گی اتنا ہی سیکھیں گی اور بحیثیت انسان پروان چڑھتی جائیں گی۔
  • بہادر بنیں اور لوگوں کو اپنے ساتھ باہر چلنے کی دعوت دیں۔ اگر وہ انکار کر دیں تو برا نہ منائیں اور آگے بڑھ جائیں۔
  • اگر آپ کھل کر بات نہیں کر سکتیں تو آپ ناکام ہوجائیں گی۔ اپنی رفتار کم رکھیں اور قربت اور وقت کو اپنا کام کرنے دیں۔
  • یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ درحقیقت کون ہیں۔ باہر جائیں اور لطف اٹھائیں۔ آپ میں جتنی خود اعتمادی آئے گی اور خود سے جتنا خوش ہوں گی اتنے ہے ہم خیال لوگ آپ کو ملتے چلے جائیں گے۔