اندراوادن سنگھی جب یہ کہتے ہیں کہ 'اب میں کبھی اپنی بیٹی کو گلے نہیں لگا سکوں گا' تو ان کا گلا رندھ جاتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے کہیں دور دیکھنے لگتے ہیں تاکہ اپنے جذبات کو چھپا سکیں کہ 'اب میں اس سے کبھی نہیں مل سکوں گا۔'
بے دلی سے وہ اپنے دوستوں اور اہل خانے کو اپنے گھر میں آتے جاتے دیکھتے ہیں جو ان کے کمرے کو سنہرے اور گلابی پھندنوں سے سجا رہے ہیں تاکہ ان کی بیٹی دھروی کے تارک الدنیا ہونے اور راہبانہ زندگی میں داخل ہونے کا جشن منائیں۔
انڈیا میں جین مذہب کے سینکڑوں پیروکاروں نے مادی دنیا کو چھوڑ کر بھکشو (راہب) بننا شروع کر دیا ہے جس کے تحت وہ ہمیشہ ننگے پاؤں چلتے ہیں، بھیک میں دیا ہوا کھانا کھاتے ہیں، نہ کبھی غسل کرتے ہیں اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔
ترک دنیا کی رسم سے قبل ملک کے طول و عرض سے اندراوادن کے رشتے دار آئے تاکہ دھروی کے آخری ایام کو ان چیزوں سے بھر دیں جو انھیں پسند تھی جیسے مقامی پارک میں کرکٹ کھیلنا، گانے سننا اور گھر کے باہر ان کے پسندیدہ ریستورانوں میں کھانا۔
ترک دنیا کے بعد اب وہ کبھی یہ چيزیں نہیں کر سکیں گی۔ ایک راہبہ کے طور پر 20 سالہ دھرووی اب کبھی اپنے والد اور اپنی ماں کو ماں باپ نہیں کہہ سکیں گی۔ وہ اپنے بال خود نوچ لیں گی، تاحیات ننگے پاؤں چلیں گی اور جو کچھ بھیک کے طور پر ملے گا وہی کھائيں گی۔
وہ کبھی کسی سواری کا استعمال نہیں کریں گی۔ کبھی غسل نہیں کریں گی۔ کبھی کسی پنکھے کے نیچے نہیں سوئيں گی اور پھر کبھی موبائل فون پر بات نہیں کریں گی۔
سنگھی خاندان قدیمی جین برادری سے تعلق رکھتا ہے اور دنیا میں اس مذہب کے 45 لاکھ پیروکار ہیں۔ کٹر جینی راہبوں کی روحانی رہنمائی میں اپنے مذہبی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ ان میں روزانہ کی تفصیل ہوتی ہے جس میں بطور خاص کیا کھائیں، کیا نہ کھائیں اور کب کھائیں شامل ہیں۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اندراوادن سنگھی اور ان کی اہلیہ نے دیکھا ہے کہ کس طرح پھٹی جینز کو چاہنے والی اور ایک دن گیت کے شو انڈین آئیڈل جیتنے کی خواہش رکھنے والی ان کی بیٹی انتہائی مذہبی اور تنہائی پسند ہو گئی۔
ترکِ دنیا کی رسم دیکشا کے بعد دھروی اس دنیا سے علیحدگی اختیار کر رہی ہیں جن سے ان کی اب تک آشنائی تھی۔
وہ تنہا نہیں ہیں۔ جین مذہب کے سینکڑوں نوجوان اس راہ پر گامزن ہیں۔ ہر سال ترک دنیا کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور مردوں سے زیادہ خواتین اس میں شامل ہیں۔
ممبئی یونیورسٹی میں جین مذہب کا فلسفہ پڑھانے والے بپن دوشی کہتے ہیں کہ 'چند سال قبل تک اس قسم کی دیکشا کے بمشکل دس پندرہ واقعات ہوا کرتے تھے۔' لیکن گذشتہ سال یہ تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کر گئی اور رواں سال ایسا لگتا ہے کہ یہ تعداد 400 تک پہنچ جائے گی۔
جین مذہب کے رہنماؤں نے اس میں اضافے کی تین وجوہات بتائی ہیں: پہلا یہ کہ جدید دنیا کے دباؤ کے متعلق نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے رغبتی، دوسرے اس مذہب کے گرو کا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کرتے ہوئے لوگوں تک آسانی سے پہنچنا اور مذہبی عقیدے کو پہنچانا اور تیسرا اور آخری مذہب کی جانب رجعت کا سپر سٹرکچر ہے جس کے تحت لوگوں کو قبل از وقت راہبانہ زندگی کا تجربہ حاصل کرنے کی سہولت فراہم ہے۔
جدید زندگی کا دباؤ
ڈاکٹر جوشی کہتے ہیں کہ 'ہائپر کنیکٹڈ' دنیا کے معاشی اور سماجی دباؤ نے اس امر میں اضافہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا: 'نیویارک میں یا یورپ میں جو ہو رہا ہے آپ اسے اسی لمحے دیکھتے ہیں۔ پہلے ہمارا مقابلہ صرف ان گلیوں تک محدود تھا جہاں ہم رہتے تھے۔ اب ساری دنیا سے مقابلہ ہے۔' اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں 'کہیں کچھ چھوٹ نہ جائے' قسم کا خوف نوجوانوں کو تمام چیزوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی تحریک دے رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب آپ دیکشا حاصل کر لیتے ہیں اور دنیا کو ترک کر دیتے ہیں تو آپ کی روحانیت کی سطح اور آپ کا مذہبی رتبہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ انتہائی امیر شخص بھی آپ کے پاس آ کر جھکتا ہے۔'
گذشتہ ماہ ایک فزیو تھراپسٹ پوجا بنکھیا نے دیکشا لی۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ راہبہ بن گئيں تو ان کی زندگی کا مقصد ہی بدل گیا۔
جہاں پہلے انھیں گھر والوں کی، دوستوں کی، اپنی خوبصورتی اور کریئر کی فکر ہوا کرتی تھی اب انھیں یہ نہیں سوچنا ہوتا کہ وہ اپنے دوستوں کے سامنے کیسی نظر آئيں گی۔
انھوں نے پرسکون انداز میں کہا: 'ہم یہاں صرف روح اور روح کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔'
سوشل میڈیا گرو
دھروی اپنی دیکشا سے قبل کہتی ہیں کہ ان کے گرو ہی ان کے لیے 'سب کچھ' ہیں۔ ’وہی میری دنیاہیں، وہ جو کہیں، اور بس۔'
تقریباً تمام جین مذہب کے نئے چیلے اپنے گرو کے بارے میں اسی گرمجوشی اور عقیدت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ یہ مذہبی رہنما ان میں زبردست تابعداری اور وفاداری جگا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر جوشی کہتے ہیں کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ 'پہلے تارک الدنیا زیادہ خود میں رہنے اور اور اپنی اصلاح پر نظر رکھنے والے ہوتے تھے'۔
لیکن ان کے خیال میں اب وہ زیادہ فعال طریقے سے بطور خاص نوجوانوں تک پہنچنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ 'وہ اچھے خطیب ہیں اور لوگوں کو ایک سہل راستہ پیش کرتے ہیں جس کی جانب لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔'
صرف دس سال پہلے تک جین لوگ اردھ مگدھی یا سنسکرت زبان میں موجود کتابوں پر منحصر تھے۔ اور اب مذہبی لٹریچر بہت سی زبانوں اور بطور خاص انگریزی میں پیش کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر جوشی نے کہا: 'جین مذہب پر چھوٹی چھوٹی فلمیں بنائی جا رہی ہیں جو سوشل میڈیاپر شیئر کی جا سکتی ہیں۔ ایک کتاب کا پڑھنا اہم نہ ہو لیکن ایک چھوٹی سی کہانی ایک دو منٹ میں دیھکنے سے نوجوانوں پر بہت اثر پڑتا ہے۔'
یہ ویڈیوز جو زیادہ تر واٹس ایپ کے ذریعے گردش میں رہتے ہیں وہ اچھی طرح سے بنائی گئی فلمیں ہیں جو ترک دنیا کی عظمت کے قصیدے کہتی ہیں اور بعض اوقات راہبوں کو سپرہیرو کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
ایک جین راہب مونی جن وتسلیا وجے مہاراج صاحب کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران جین این جی او کی جانب سے بنائی جانے والی فلموں نے نوجوانوں تک مذہب کو پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
انھوں نے خود ہی متعدد یوٹیوب ویڈیوز شائع کی ہیں جنھیں دس لاکھ بار سے زیادہ دیکھا جا چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'اگر آپ کو نوجوانوں تک پہنچنا ہے تو وہاں جائیں جہاں وہ ہیں نہ کہ انھیں اپنے یہاں بلانے کی کوشش کریں۔ یوٹیوب بہترین انتخاب ہے کیونکہ وہیں نوجوان اپنا زیادہ تر آن لائن وقت گزارتے ہیں۔'
مذہبی گوشہ نشینی
دھروی کہتی ہیں کہ پانچ سال قبل انھوں نے اپدھیان کیا تھا جو 48 دنوں کی گوشہ نشینی تھی اور 'اسی نے مجھ میں یہ جوت جگائی کہ میں راہب کی زندگی کو منتخب کروں۔'
ایک گرو کی رہنمائی میں یہ گوشہ نشینی عام جینیوں کو راہبانہ زندگی کا تجربہ فراہم کرتی ہے کہ کس طرح آپ بغیر جوتوں، بجلی اور غسل کے رہ سکتے ہیں۔ زیادہ تر نئے چیلے انھی مشکل گوشہ نشینیوں کے دوران راہب بننے کی جانب راغب ہوتے ہیں جس میں ان کے گرو ان کو 'دکھوں سے بھری اس دنیا' کو ترک کرنے پر زور دیتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی گوشہ نشینی یک بیک نہیں لی جاسکتی۔
ممبئی میں دیکشا کا انتظام کرنے والے ہتیش موٹا کہتے ہیں کہ زیادہ تر حاضرین پہلے چھوٹی چھوٹی گوشہ نشینی اختیار کرتے ہیں اور 'رفتہ رفتہ اعتماد بڑھتا ہے کہ ہاں ہم اب اگلی بار اس سے زیادہ طویل گوشہ نشینی اختیار کریں گے۔'
'آپ کو راہب کی زندگی کا خوف معلوم ہے، تمام چیزیں چھوڑنے کا خوف۔ اس طرح کے خوف کو ان گوشہ نشینی میں ختم کیا جاتا ہے۔ یہ کسی تربیتی کیمپ کی طرح راہب بننے کی راہ میں پہلا قدم ہے۔'
گذشتہ ماہ مغربی شہر ناسک میں ایک گوشہ نشینی کا خاتمہ ایک رتھ پر نکالے جانے والے ایک جلوس پر ختم ہوا جس میں 600 حاضرین چمکدار کپڑوں میں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر 25 سال سے کم عمر کے تھے اور مبینہ طور پر ان میں سے سینکڑوں نے دیکشا حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ان میں ایک 12 سالہ ہیٹ دوشی بھی تھے۔ ہیٹ ایک تیز طالب علم اور سکیٹنگ کے چیمپیئن ہیں۔
انھوں نے اس گوشہ نشینی کے سبب تین سکیٹنگ کی دوڑ اور کئی ہفتے کا سکول چھوڑ دیا۔ ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے، آبلے بھرے ہوئے تھے اور گوشہ نشینی کے دوران ان کا وزن 18 کلو کم ہو گیا لیکن ہیٹ کا کہنا ہے کہ ان کے دل میں روشنی جل پڑی ہے۔
ہیٹ نے ایسے الفاظ کو جھنیں وہ شاید ہی سمجھتے ہوں دہراتے ہوئے کہا: 'میرے گرو نے کہا ہے کہ اس دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔'
انھوں نے کہا: 'مجھے اس دنیا کی کوئی چیز نہیں بھاتی۔ میں اپنے عمل اور اپنے گناہوں سے دور ہونا چاہتا ہوں۔ اس لیے میں دیکشا لینا چاہتا ہوں۔ میرے گرو کہتے ہیں کہ میں جلد از جلد دیکشا لے لوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ 15 سال کا ہونے سے پہلے ہی میں دیکشا لے لوں۔'
ان کو والدین نے فخر کے ساتھ اسے دیکھا۔ لیکن ہر کوئی اپنے بچے کی ترکِ دنیا کو جوش کو اسی طرح نہیں لیتے۔
دھروی کو اپنے والدین سے اجازت لینے میں بہت مشکلات پیش آئيں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'جب میں نے انھیں بتایا تو میری فیملی بہت اپ سیٹ ہو گئی۔'
انھوں نے حکمت عملی کے طور پر دیکشا کا ذکر کرنا بند کردیا کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ اگر انھوں نے زیادہ ضد کی اور بہت جلدی مچائی تو انھیں ان کے گرو کے ساتھ سفر کرنے کی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
ہر چند کہ انھوں نے بالآخر اپنے اہل خانہ کی مخالفت کو ختم کردیا لیکن اب بھی ان میں سراسیمگی نظر آتی ہے۔
دھروی کی ترکِ دنیا کی رسم کے دن صبح میں راہبہ کا لباس پہننے سے قبل ان کے والد نے آخری بار ان کو گلے لگایا تو غم کی پرچھائیں ان کے چہرے پر ابھر آئی۔
انھوں نے کہا 'یہ تمام نمود و نمائش ایک چیز ہے۔ دو سال بعد آ کر دیکھیں کہ چیزیں کس رخ پر ہیں۔'