رضوانہ یوسف
دو دن پہلے پارک میں دوران چہل قدمی ایک دوست دوسرے کو بتا رہا تھا۔ کہ ہم دونوں میاں بیوی کی تنحواہ سے گھر کا گزارہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ دوسرا دوست سوال کرتا ہے کہ کتنا خرچا ہوتا ہے تمہارا ایک مہینے میں؟ ہمارا 70 ہزار خرچ ہو تا ہے۔ راشن، بچوں کی فیس، اور ہمارے دفتر آنے جانے کا خرچ ملا کر۔ میری بیوی کی تنخواہ 65 ہزارہے میں اس کو مہینے کا 5 ہزار اور دے دیتا ہوں اس طرح اس کے پاس 70 ہزار ہو جاتے ہیں۔ اور میری تقریباً ساری تنخواہ ہی بچ جاتی ہے۔
اپنی تنخواہ تم اپنی بیوی کو دے دیتے ہو کیا؟ دوسرے دوست نے سوال کیا۔ نہیں نہیں وہ میں اپنے پاس بچا کر رکھتا ہوں۔ پہلے دوست نے جواب دیا۔ لیکن بچوں کے اور تمہاری بیوی کے جوتے کپڑوں کے بھی اخراجات ہوں گے۔ ایک تو ان کو ننھیال سے عیدی آ جاتی ہے اور سال میں ایک بار میری بیوی کو ایک تنخواہ بونس ملتی ہے اس سے وہ اپنے اور بچوں کے ذاتی اخراجات پورے کر لیتی ہے۔
یہ کہانی تو دو دوستوں کی تھی۔ لیکن اسی طرح کی صورت حال آج کل ہمیں اپنے اردگرد بھی نوکری پیشہ خواتین کے ساتھ نظر آتی ہے۔
تقرئبا دوسے ڈھائی دہائیں پہلے پاکستان میں خواتین اور ان کے والدین کاعورت کے اعلیٰ تعلیم کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ اعلی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ حصول روزگار بھی خواتین اور ان کے والدین کی ترجیحات میں شامل ہوگیا۔ تاکہ بڑھتے ہوے معاشی مسائل، مناسب رشتوں کے نہ ملنے کی صورت اور شرح طلاق میں اضافے اور نا مساعد حالات کے باعث خواتین اپنے آپ کو سپورٹ کر سکیں۔
لیکن اس روزگار سے کچھ نئے معاشی مسائل نے جنم لینا شروع کر دیا۔ لوگوں نے رشتہ کرتے وقت پڑھی لکھی کے ساتھ ساتھ برسرروزگار لڑکیوں کے انتحاب کو ترجیح دینا شروع کی۔ اس کی بہت سی توجیحات پیش کی جاتی ہیں بڑھتے ہوے معاشی دباؤ کی وجہ سے گھرکا ہر شخص کمائے تو ہی اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
لیکن شادی شدہ عورتیں کے لئے ان کا روزگار ہی مسائل کی جڑھ بننے لگا۔ کیونکہ ان کی کمائی نے ان کو خود مختار بنانے کی بجائے پہلے سے زیادہ محتاج بنا دیا۔ کیونکہ کام نہ کرنے والی عورتوں کو شوہر سے اخراجات مانگنے پڑتے تھے اور اپنی اسطاعت کے مطابق ان کے اخراجات اٹھاتے تھے جس پر اکثریت جل کڑھ کر یہ سوچتی تھیں کہ نوکری کرنے والی عورتیں اچھی ہیں کہ ان کو کسی سے خرچا مانگنا نہیں پڑتا اور اپنی مرضی سے کماتی اور خرچ کرتی ہیں۔
دوسری طرف کمائی کرنے والی عورتوں کے مسائل اور طرح کے ہیں۔ ان کے شوہر اور سسرالی ان کی تنخواہ کا نہ صرف مکمل حساب رکھتے ہیں بلکہ ان کی تنخواہ کب، کہاں اور کسے خرچ کرنی ہے اس کا فیصلہ بھی وہ ہی کرتے ہیں۔ اگر عورت اس حساب کتاب سے انکار کرتی ہے تو یہ اور بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اور بہت سے کیسیز میں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ بہت ساری عورتیں طلاق کے داغ سے بچنے کے لئے ایک نئی مختاجی کے ساتھ گزارہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
اور بہت ساری عورتیں پڑھی لکھی، باشعور اور برسرروزگار ہونے کی وجہ اس پریشر کو لینے سے انکار کر دیتی ہیں تو بہت سے لوگ ان کو سبق دینے کی کو شش کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی محنت سے کمائی ہوی روزی دبوچ لی جاے گی تو وہ ردعمل بھی دے گی اور بولے گی بھی کیونکہ وہ سولہویں صدی کی عورت نہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے عورت اگر کما رہی ہے تو اس نے پیسے کہاں خرچ کرنے ہیں ظاہر ہے گھر میں ہی۔ لیکن اگر اس کی عزت نفس مجروح کی جاے گی تو وہ ٹوٹ جائے گی یہ اکٹر جائے گی۔ لیکن اگر اس کو عزت، محبت اور مقام دیا جاے تو کمائی تو بہت چھوٹی چیز ہے عورت تو اتنی جذباتی مخلوق ہے کہ جان بھی دینے پر بھی تیار ہو جاتی ہے۔