نبی پاک ﷺ کے دور میں جہاں ایک سے زائد بار بھی بیوہ ہوئی عورتوں کی شادی باآسانی ہو جایا کرتی تھی وہیں عمر کے فرق کو بھی کوئی ایسی خاص اہمیت حاصل نہ تھی۔ قبل از اسلام بھی، عرب میں آزادی کا عالم یہ تھا کہ خواتین بھی اپنی پسند کا نہ صرف بر ملا اظہار کردیا کرتی تھیں بلکہ اپنے من پسند شخص کوشادی کا پیغام بھی بھیج دیا کرتی تھیں۔ نبی پاک ﷺ کی پہلی زوجہ سے شادی اس بات کی واضح نشانی ہے۔ اس کے علاوہ نکاح کے بندھن میں بندھنے والوں کی باہمی رضامندی کی کیا اہمیت ہے اس بات کا اندازہ لگانا اس قدر سہل ہے کہ خاتون جنت کی شادی کا جب موقعہ آیا تو باوجود اس کے کہ شریک حیات شیر خدا اور شہر علم کا دروازہ علی مرتضیٰ (رض) تھے، نبی پاک ﷺ نے اپنی بیٹی سے ان کی مرضی معلوم کی۔
اب اگر بیوہ کسی سے شادی کرلے تو اسے بیوہ کی دور اندیشی کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے ہی ایک اور بندوبست کر رکھا تھا اور نجانے کیا کچھ۔ اور اگر عورت شادی کا پیغام بھیج دے تو مرد اسے کردار سے عاری تصور کرتا ہے۔ مرد کا کسی خاتون کو لے کر گھومنا پھرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن عورت کا ایسا کرنا گناہ کبیرہ۔ مرد کسی کو عورت کولباس کی طرح اوڑھ بھی لے تو پرانا نہیں ہوتا مگر عورت کسی کو چھو بھی لے تو پرانی ہو جاتی ہے۔
سگریٹ مرد کے پھیپھڑے خراب کرتی ہے اور عورت کا کردار۔ ہر گالی میں عورت ہی کوجگہ دی جاتی ہے۔ عورت کی زندگی کا ورق ورق سفید کاغذ ہونا چاہیے بھلے مرد کی زندگی کا ہر کاغذ پکاسو کی پینٹنگ ہو۔ عزت کا تمام بوجھ عورت کے کاندھوں پر آگیا اور مرد ہر بوجھ سے بے نیازجنگل کے بھوکے شیر کی مانند دندناتا پھرتا ہے۔
ماں! میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں۔ یہ جملہ تقریباً ہر گھر میں زندگی میں ایک بار توسنا ہی جاتا ہے اور پھر اس جملے کی تکمیل کی تیاریاں اور کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ لیکن، عورت کے دل میں اگر کوئی محبت جنم لے لے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس جذبے کی ایسی قبر بنا دی جاتی ہے جس پر صدیوں سے کوئی نہ آیا ہو۔ اس جذبے کا اظہار نہ خلوت میں کیا جا سکتا ہے نہ جلوت میں۔
کیا شریک حیات چننے کا حق کسی اور کو ہونا چاہیے؟ کیا میرے ذہنی، جسمانی اور روحانی سکون کو میرے علاوہ کوئی اور ناپ یا جانچ سکتا ہے؟
ماں باپ کی فرمانبرداری بہت احسن چیز ہے اور بر صغیر کی تہذیب کا ایک ایسا اہم جزو ہے جس کا فائدہ ماں باپ نے جائز اور ناجائز حد تک نیک اور بد نیتی کے ساتھ ہمیشہ اٹھایا۔ انہی روایتوں کے زیزاثر، رنگوں اور ذاتوں کی بنیاد پر والدین، اولاد کی خوشیوں کی بلی دیتے آرہے ہیں جسے اولاد خدا کی خوشنودی مان کر مانتی آرہی ہے۔ جب ثقافت اور تہذیب مذہب کے رنگ میں نہ رنگ سکی تو مذہب کو ہی رنگ دیا گیا۔
جب مذہب میں بھی ایسی کوئی پابندی نہیں تو ان چیزوں کا وجود کہاں سے آیا؟ اگر محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولادیں ناجائز ہیں تو زبر دستی اور انا کے ہاتھوں بنائے رشتوں سے ہوئی اولادیں کیسے جائز ہو سکتی ہیں؟ ایک عورت جس کا جسم کسی اور بستر پرہو اور دل کسی کافی شاپ کے میز پر رہ گیا ہو، اس کو جیتے جی قتل کرنے والوں کو سر فخر سے بلند کر کے چلنے کا حق کس نے دیا؟
نکاح کی مشکلات زنا کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ اگر محبت کی شادی میں مسئلہ صرف ذات، رنگ، قبیلے، کم یا زیادہ مالی حالات سے ہے تو مسئلہ ہمارے دماغ میں ہے۔ محبت کا جذبہ اختیاری نہیں اور ایسا ہوجانے کی صورت میں اسے فضول روایتوں اور بے سود اقدار کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اپنی اولادوں کو منطق اور دلیل سے قائل کریں۔ صرف عمر میں بڑے ہونے کا اتنا فائدہ نہ اٹھائیں کہ آپ کسی کی زندگی کو جہنم بنا دیں۔ ذات، نسل، وطن پرستی اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی بنیادوں پر کھڑے ہو کر مستقبل کی عمارتیں تعمیر نہیں کی جا سکتیں۔ یہ بنیادیں برف کی مانند قائم ہیں۔ جس دن پگھلیں، پیروں تلے کچھ نہ بچے گا۔
شکر ہے جانوروں کو عقل شعور نہیں کہ وہ کچھ سیکھ جائیں ورنہ ایسی روش وہ سیکھ لیتے تو لمبے کان کا گدھا، لمبے کان کی گدھی، دم کٹا کتا، دم کٹی کتیا، لال آنکھ کا کبوتر صرف لال آنکھ کی کبوتری ڈھونڈھتا اور پھر صحرا، سمندر اور جنگلوں کی بھی ذاتیں ہوتیں۔ کوئی جنگل شاہ جی ہوتا تو کوئی پہاڑ صوفی ہوتا اور کسی بیابان کا تعلق شاہی خاندان سے ہوتا۔ ان کے مکین اور سیاح بھی صرف ہم ذات اور ہم مرتبہ لوگ ہی ہوتے۔
اللہ تیرا شکر ہے کہ تونے عقل صرف ہمیں بخشی۔