حال
ہی میں ایک بلوچی فلم زراب کی سکریننگ بلوچستان کے شہر پسنی میں کی گئی۔ یہ بلوچی
زبان میں بنی ہوئی پہلی فلم ہے جو پردے تک پہنچی ہے۔
پسنی کے سوشل ویلفئیر
کلب میں شام پانچ بجتے ہی گہما گہمی شروع ہوگئی جب ایک ایک کر کے کئی لوگ فلم
دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ اس فلم کی رونمائی کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر ہال کو
بھی کئی برسوں بعد لوگوں کے لیے کھولا گیا ہے۔
فلم کے ہدایت کار اور
پروڈیوسر جان البلوشی، بحرین میں مقیم پاکستانی ہیں اور اب تک فلم کی رونمائی
بحرین کے کئی مالز اور کلبوں میں کروا چکے ہیں۔
پسنی سے پہلے اس فلم کی
سکریننگ گوادر میں کی گئی جس کے بعد یہ فلم تُربت اور پھر کراچی میں دکھائی جائے
گی۔
ایک گھنٹے پر مشتمل اس
فلم میں چار اہم کردار ہیں جن کے گرد یہ کہانی گھومتی ہے۔
ایک طرف ہیں ماما صوبان
(انور صاحب خان) جو اپنے ایک بیٹے (شاہ نواز) کی کاہلی اور دوسرے (احسان دانش) کی
معذوری کی وجہ سے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کم عمر بچے (عاقب آصف) کے ساتھ
فلم کے کردار پورے ہوجاتے ہیں جس میں ایک بھی عورت کا کردار نہیں ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹZARAABImage captionایک گھنٹے پر مشتمل اس فلم میں چار اہم کردار ہیں جن کے گرد یہ کہانی
گھومتی ہے
فلم کے بارے میں بات
کرتے ہوئے اداکار ذاکر داد نے بی بی سی کو بتایا کہ فلم بیس دن میں مکمل ہوئی اور
گوادر میں ہی عکس بند کی گئی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کی زندگی اور اس سے منسلک
جدوجہد کو سامنے لانا ہے۔
’یہ سبھی کردار ہماری
عام زندگی سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ یہاں کہ لوگوں کی کہانی ان
کی زبانی سنائی جائے۔‘
فلم میں صرف مردوں کی
موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذاکر نے کہا کہ، ’1970 کی دہائی میں ایک فلم
بنی تھی جس کا نام تھا حمّل و ماہ گنج۔ یہ فلم ابھی پردے تک پہنچی بھی نہیں تھی کہ
فلم میں موجود لڑکی کے کردار پر نکتہ چینی اس حد تک ہوئی کہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔
اور آج تک وہ فلم منظرِ عام تک نہیں آسکی۔ ہم اس وقت ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے جو
بعد میں ہمارے لیے یا ساتھ کام کرنے والوں کے لیے پشیمانی کا سبب بنے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹZARAABفلم بیس دن میں مکمل ہوئی اور گوادر میں ہی عکس
بند کی گئی ہے
بلوچستان کا چھوٹا سا
شہر پسنی ایک طویل عرصے تک ’لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ذاکر داد بتاتے ہیں
کہ پسنی کو یہ نام یہاں پر تھیٹر، شاعری اور ادب سے منسلک سرگرمیوں کی وجہ سے دیا
گیا۔
لیکن ضلع کیچ میں ریاست
اور آزادی پسند گروہوں کے درمیان جنگ کا ایک بڑا اثر اس علاقے پر اور خاص کر کے
یہاں پر پنپنے والے ادب پر پڑا۔
اسی سوشل ویلفئیر کلب
کے احاطے میں کارڈ کھیلنے اور بیٹھنے کے لیے لوگ آتے ہیں، لیکن کئی برسوں سے بند
اس ہال میں پہلی بار فلم کی سکریننگ کروائی گئی جس میں ٹکٹ اور بغیر ٹکٹ بھی کئی
لوگوں نے شرکت کی۔
’ہماری اس چھوٹی سی کاوش
کا مقصد بلوچستان کے لوگوں خاص کرکے بچوں اور خواتین کو ہدایت کاری، فوٹوگرافی اور
اداکاری کی طرف راغب کرنا ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنی کہانیاں ہم سے
بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔ ہم صرف ایک ذریعہ ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو