تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان
کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملک میں بچوں کی فحش
(پورنوگرافک) فلمیں بنانے اور اُن کی برہنہ تصاویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کے
معاملات میں صوبہ پنجاب سب سے آگے ہے
خیال رہے کہ قصور میں
بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے
کے ڈائریکٹر جنرل نے بچوں کے جنسی تشدد پر مبنی فلمیں بنانے والوں کے خلاف
کارروائی کے لیے ایک دو رکنی ٹیم تشکیل دی ہے جو ملک میں ان واقعات کے سدباب کے
لیے اقدامات کرے گی۔
ایف آئی اے کے حکام کا
کہنا تھا کہ بچوں کی عریاں فلمیں بنانے کے حوالے سے اب تک جو ایک درجن سے زیادہ
مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر پنجاب میں ہوئے ہیں اور گرفتارشدگان کی
اکثریت کا تعلق بھی پنجاب کے مختلف شہروں سے ہے۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلی
مرتبہ ہے کہ اس معاملے پر الگ سے ایک ٹیم بنائی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے سائبر
کرائم کے حکام ہی انٹرنیٹ سے متعلق تمام معاملات کو دیکھتے تھے۔
اس دو رکنی ٹیم کے
سربراہ عمران حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے
علاوہ مقامی افراد سے بھی مدد حاصل کی جائے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسے
افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی جو انٹرنیٹ پر مختلف لڑکیوں کی فحش تصاویر اپ
لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں اور ان دنوں ملک کی مختلف جیلوں میں قید
ہیں۔
عمران حیدر نے کہا کہ
بچوں کے جنسی تشدد کے مواد کے خلاف پاکستان میں اس لیے موثر کارروائی نہیں ہوسکی
کیونکہ یہاں پر متاثرہ لوگ متعلقہ حکام کو اس بارے میں شکایت درج نہیں کرواتے۔
اُنھوں نے کہا کہ جن
افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر معلومات مختلف ممالک سے
انٹرپول کے ذریعے پاکستانی انٹرپول کو بھجوائی گئی تھیں۔
پاکستان ٹیلی
کمیونیکیشن اتھارٹی نے بھی اس ضمن میں ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے جو انٹرنیٹ پر
بچوں کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنے والوں کی نشاندہی کرے گا اور ان معلومات کی
روشنی میں ایف ائی اے کا سائبر کرائم ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔
ایف آئی اے نے حکومت سے
درخواست کی ہے کہ وہ ایسے جرائم میں ملوث افراد کی فیس بک آئی ڈی کی فوری معلومات
حاصل کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے بات کریں کیونکہ اس ضمن میں معلومات حاصل کرنے کے
لیے تفتیش کاروں کو چار سے چھ ہفتے تک انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ ایسے مقدمات کو
اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں جن افراد
کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان میں زیادہ تر پاکستانی بچوں کی عریاں فلموں کی
تیاری یا اپ لوڈنگ میں ملوث تھے۔
ایف آئی اے کے اہلکار
عمران حیدر کے مطابق پاکستانی بچوں کی عریاں تصاویر اور فلمیں انٹرنیٹ پر بھی
فروخت ہو رہی ہیں اور ٹیم کے ارکان ان افراد کی تلاش بھی کر رہے ہیں جو اس مکروہ
دھندے میں ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ
اطلاعات کے مطابق ان مقدمات میں اب تک جتنے بھی افراد گرفتار کیے گئے ہیں ان میں
سے زیادہ تر پڑھے لکھے اور پروفیشنل ڈگری ہولڈرز ہیں۔
ایف آئی اے نے حال ہی
میں انٹرپول کینیڈا سے ملنے والی معلومات کے مدد سے جھنگ کے رہائشی تیمور مقصود کو
بچوں کی پورنوگرافی پر مبنی ویڈیوز اور تصاویر رکھنے اور انٹرنیٹ پر جاری کرنے کے
الزام میں گرفتار کیا ہے۔
بچوں کی فحش فلمیں
انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم تیمور مقصود بھی الیکٹریکل
انجینئیر ہے۔ ملزم کو پیر کو مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور تفتیش کی غرض سے
مقامی عدالت سے ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
دوسری طرف پاکستان کے
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مرادن میں کسمن بچی عاصمہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے
کے بعد قتل کیے جانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے منگل کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی
پولیس کے سربراہ کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل کو بھی پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کردیا
گیا ہے۔ عاصمہ کو دو ہفتے قتل جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا
تاہم ابھی تک اس واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
بشکریہ بی بی سی اردو