تصویر کے کاپی رائٹ
قصور
میں ننھی زینب کے ریپ اور قتل کے بعد پاکستان بھر میں بچوں کے تحفظ کے بارے میں
بحث ہو رہی ہے۔ فائل فوٹو
پہلی بار جب مجھے ریپ کیا گیا تو میری عمر بمشکل سات
سال تھی۔
ریپ کرنے والا کوئی اور نہیں میرا اپنا کزن تھا جو مجھے
میرے والدین کے سامنے اپنے ساتھ لے کر گیا اور میں اپنی شرمندگی اور خجالت اور
کنفیوژن میں انہی کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
اگلے کئی دن میں اسی حالت میں رہا مگر میری ماں نے اسے
سمجھا نہ میرے باپ کو خیال آیا کہ آخر میں ایسا کیوں کر رہا ہوں۔
اور یہ ہوتا رہا۔ ایک کزن کے بعد دوسرا پھر تیسرا پھر
چوتھا کزن اور میرے لیے یہ بات معمول بن گئی۔
آج جب قصور کے واقعے کے بعد ریاست اور والدین کی ذمہ
داریوں کے بارے میں بحث چل رہی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے معاملے میں تو میرے والدین
ہی نے کچھ نہیں کیا۔
اس وقت بھی جب میں آدھی رات کو چیختا ہوا چھت پر گیا۔
جب میرے امی ابو کے کزن نے مجھے ریپ کرنے کی کوشش کی تو میرے والدین کچھ زیادہ دور
نہیں تھے۔ میرے خوف اور الجھے ہوئے ردِعمل کو انہوں نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اس وقت بھی جب میرے امی ابو کے ایک اور کزن نے مجھے
اپنے ساتھ سلایا اور پھر ریپ کیا تو میری ماں چند قدم کے فاصلے پر سو رہی تھی مگر
میں اپنی ماں کو بول سکا نہ ان سے کچھ کہہ سکا۔
یہ استحصال اور درندگی کا سلسلہ برسوں چلتا رہا جس میں
نہ پولیس کچھ کر سکتی تھی نہ ریاست مگر جو کر سکتے تھے انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ
وہ کیسے معاملے کو سمجھیں اور اگر سمجھیں تو کیا کریں۔
آج بھی میرے ماں باپ کو کچھ نہیں پتا اور جب وہ مجھ پر
شادی کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں تو میں انہیں نہیں بتا سکتا کہ میرے لیے شادی کے کوئی
معنی نہیں۔
کیونکہ مجھے پہلی بار ریپ کرنے والے کزن نے یہی کہا تھا
کہ ’سب شادی کرتے ہیں اور ہم بھی شادی کر رہے ہیں‘۔
مجھے ریپ کرنے والوں کی لمبی فہرست ہے۔ ملازم، میرے
والد کا باریش نمازی پرہیز گار دوست، میرے دوست، میرے کزن، میرے والدین کے کزن،
مسجد کا انتظام سنبھالنے والے صاحب کے دونوں بیٹے، دو استاد، ایک ٹیوٹر، پڑوسیوں
کے لڑکے اور نجانے کون کون مگر یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر ریاست سے زیادہ میرے والدین
کی دسترس تھی، ان کی عملداری تھی۔
میں اپنے ماں باپ کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور
اِس بارے میں کسی تعلیم و تربیت کا انتظام نہیں ہے۔ بچانا تو دور کی بات ہے انہیں
یہی نہیں پتا کہ اگر بچہ عجیب و غریب حرکت کر رہا ہے تو اسے کیسے بھانپیں اور
سمجھیں اور اس کا تدارک کرنے کی کوشش کریں۔
کیا ہمارا نظامِ تعلیم بچوں کو اس بات کی تربیت دیتا ہے
کہ وہ کیسے اپنا تحفظ کر سکتے ہیں اور کیا درست ہے اور کیا غلط کیونکہ دس سال تک
میں یہی سمجھتا رہا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے وہی نارمل ہے اور انسان ایک دوسرے
کے ساتھ ایسے ہی رہتے ہیں۔
تو بے شک آپ پولیس کو لتاڑیں کیونکہ بچوں کے قاتل اور
پے در پے واقعات کے نتیجے میں ان کا نظام حرکت میں نہیں آیا اور آتا بھی کیسے
انہیں وی آئی پی ڈیوٹیوں، سیاستدانوں کے سفارشوں اور ان کے جلدبازی کے فیصلوں اور
معطلیوں سے فرصت ملے تو ہی وہ کچھ کریں گے۔
مگر کیا کسی نے پوچھا ہے کہ پولیس کے نظام میں ان کی
تربیت اس قسم کے کیسز کو سنبھالنے کے لیے کی گئی ہے؟ جواب ہے نہیں ایسا کچھ نہیں۔
جب تک بچوں کو گھر میں تحفظ نہیں ملے گا یعنی اُن لوگوں
سے تحفظ نہیں ملے گا جن سے انہیں سب سے زیادہ خطرہ ہے تو بے شک آپ بچوں کو گھر پر
بٹھا لیں، انہیں خود سکول چھوڑ کر آئیں اور لینے جائیں، اس سے مسئلے کا حل نہیں
نکلے گا۔
بچوں اور ان کے والدین کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ وہ
اِس بات میں تمیز کر سکیں کہ کون بچوں کو بری نیت سے چھو رہا ہے اور کون اچھی نیت
سے۔ وہ بری اور اچھی نظر میں فرق کر سکیں اور اس موضوع پر بات کرنے کی آزادی ہو
تاکہ لوگوں کو بچوں کو سمجھنے میں مدد ملے۔
بچوں کی کونسلنگ کے انتظامات کریں اور اس سارے معاملے
کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھیں کیونکہ میں تو اس ساری تباہی سے بچنے میں کسی حد تک
کامیاب رہا لیکن میں بہت سوں کو جانتا ہوں جو آج بھی اس کشمکش میں ہیں کیونکہ ان
کے لیے ریپ ہی ’محبت‘ بن جاتی ہے اور ان دونوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو