مشال
کیس میں ابتدائی عدالت نے تو اپنا فیصلہ دے دیا۔ اب ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ
میں اپیلیں اور پیٹیشنز داخل ہوں گی۔
ہو سکتا ہے سزائے موت کا معاملہ کٹہروں سے ہوتا ہوا صدرِ مملکت کی میز تک جائے اور
وہیں پڑا رہے۔ گویا اس کیس کے ابھی کئی ماہ بلکہ کئی سال اور قانونی و عوامی ریڈار
پر رہنے کے قوی امکانات ہیں۔
البتہ
پاکستانی عدالتی کلچر کے اعتبار سے یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ مشال کیس کو تیزی سے
نمٹایا گیا اور صرف آٹھ ماہ کی سماعت میں بنیادی فیصلہ آ گیا۔ کیا اس کا مطلب یہ
ہے کہ ایک کیس میں عدالتی مستعدی کے سبب توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے اور
اس قانون کو ذاتی مفادات و اننتقام کے لیے استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو
گی؟
ایسا
فوری طور پر تو نظر نہیں آ رہا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بنیادی کام تو بلآخر
پارلیمینٹ کو ہی کرنا ہو گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے
ایک فیصلے میں واضح کر چکے ہیں کہ جو سزا توہینِ مذہب کے لیے تجویز کی گئی ہے ویسی
ہی سزا کسی پر جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی ملنی چاہیے تب ہی قانون کے غلط
استعمال کا دروازہ بند ہو سکتا ہے۔
مگر صرف ایک جج کی واضح رولنگ سے حالات بدلنے والے نہیں جب تک اس معاملے میں
اسلامی نظریاتی کونسل کوئی دو ٹوک موقف اختیار نہیں کرتی کیونکہ سفارشاتی آئینی
ادارہ ہونے کے ناطے اس کی رائے کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس سے بھی اہم یہ ہے کہ
پارلیمانی وجود رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی توہینِ مذہب کے قانون میں
جھوٹی گواہی یا الزام کی کڑی سزا کی واضح حامی ہوں تاکہ اس نوعیت کے مقدمات کا
فیصلہ کرتے وقت عدلیہ کے قانونی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔
عملی
تصویر یوں ہے کہ توہینِ مذہب کا موجودہ قانون سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے زیادہ
استعمال ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں وقت و حالات کا رخ دیکھتے ہوئے بیک وقت شیر اور
شکاری کے ساتھ دوڑنے کی ماہر ہیں۔ بند کمرے میں تو سب ہی جید اتفاق کرتے ہیں کہ اس
قانون کا ذاتی و انتقامی استعمال روکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو انارکی سے
بچایا جا سکے مگر یہی رہنما کمرے سے باہر نکل کر یو ٹرن لینے سے بھی نہیں ہچکچاتے
کہ اس قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہی
دو عملی تعلیمی نصاب کے باب میں بھی نظر آتی ہے۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے
کے بعد تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے نیشنل ایکشن پلان کے جس خاکے پر
اتفاق کیا اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ سماج میں برداشت کے فروغ اور تنگ نظری
میں کمی کے لیے تعلیمی نصاب میں حرمتِ انسانیت، اعتدال پسندی، میانہ روی اور درگزر
کو زیادہ اجاگر کیا جائے گا اور انسانوں کو تقسیم کرنے کے بجائے جوڑنے والی مثالوں
کو شامل کیا جائے تاکہ کچے ذہنوں کی مثبت پختہ اٹھان کا راستہ کھل سکے۔
مگر
گذشتہ تین چار برس کے دوران اس سلسلے میں یا تو سنجیدگی سے کوشش نہیں ہوئی یا ہوئی
بھی تو اس پر انہی جماعتوں کی جانب سے میڈیا کے ذریعے طوفان کھڑا کر دیا گیا کہ
جنھوں نے نصاب میں سے انتہا پسندی کا درس نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔
مشال
خان کے قتل کے بعد سماج میں خود احتسابی کی روایت تو کیا ڈلتی الٹا شدت پسندی میں
اضافے کا موجب بننے والے کچھ نئے کرداروں کو سیاسی جیکٹ پہنا کر متعارف کروا دیا
گیا۔ ان کی تقاریر، دھرنوں اور ریلیوں کے سبب سیاسی تنوع کے بجائے تناؤ اور بڑھ
گیا اور ریاستی رٹ کو بیانیہ انتہا پسندی کا ایک اور نیا چیلنج درپیش ہو گیا۔
مشال
خان کے قتل کے بعد دوسرے کے ایمان اور عقیدے پر شک کی حوصلہ شکنی سے زیادہ یہ
رجحان فروغ پا رہا ہے کہ اب کوئی بھی گروہ یا مذہبی و نشریاتی و سوشل میڈیائی منبر
پر بیٹھا شخص کسی بھی فرد کو دوبارہ کلمہ پڑھنے یا تجدیدِ ایمان کے لیے اپنے حضور
طلب کر سکتا ہے اور حکم عدولی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے سکتا ہے۔
سوشل
میڈیا پر نفرت کا پرچار اگر بڑھا نہیں تو جوں کا توں ضرور ہے۔ سائبر کرائمز ایکٹ
کے تحت جو بھی تادیبی کاروائیاں ہو رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر انتہا پسند سیاسی
خیالات یا طے شدہ ریاستی سیاسی خطوط پر سوالات اٹھانے والے ناقدوں کے خلاف ہو رہی
ہیں۔ انتہا پسند مذہبی خیالات اور تفرقے بازی کے لیے سائبر سکرین آج بھی پہلے کی
طرح سازگار نظر آتی ہے۔
جب تک اپنے فوری مقاصد و فوائد کے اسیر سٹیٹ ایکٹرز اور اہلِ سیاست دو عملی کا
منافقانہ کھیل نہیں چھوڑتے تب تک ریاستی، سیاسی، مذہبی و قانونی بیانیے کی کشتی بے
یقینی کے سمندر میں عدم برداشت کی شارکوں کے گھیرے میں ڈولتی رہے گی۔
مشکل
یہ ہے کہ اس خطرے کو غیرسنجیدگی کی چادر سے نہ صرف ڈھانپنے بلکہ ایک گلیمرائزڈ
بیانیے کے طور پر بیچنے کی کوششیں بھی مسلسل ہیں۔ ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل اور
دوسرے ہاتھ میں پٹرول کا کنستر۔ آگ بجھانے کا یہ تجربہ موثر ہو نہ ہو مگر انہونا
اور دلچسپ ضرور ہے۔
بشکریہ ہم سب