کیا حرم پاک میں بھی جنسی ہراسانی کے واقعات ہوتے ہیں؟



تحریم  عظیم
کچھ روز قبل کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سبیکا خان نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں اپنے ساتھ حرم میں پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے ایک واقعے کے بارے میں لکھا۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا واقعہ ہے۔ کم از کم میری نظر میں اس سے پہلے کبھی کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں حرم میں پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہو۔
سبیکا اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھتی ہیں کہ ”میں عشاء کی نماز کے بعد کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی۔ یہ میرا تیسرا طواف تھا، میں نے اپنی کمر پر ایک ہاتھ محسوس کیا۔ مجھے لگا کہ غلطی سے لگ گیا ہوگا، میں نے نظر انداز کر دیا۔ میں دوبارہ سے طواف کرنے لگی۔ چھٹے طواف کے دوران میں نے محسوس کیا کہ کوئی جارحانہ انداز میں میرے کولہوں کو چھیڑ رہا ہے۔ میں منجمد ہو گئی، مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ ارادتاً کیا گیا ہے۔ میں نے نظر انداز کیا اور آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگی۔ جب میں رکنِ یمانی میں پہنچی تو کسی نے میرے کولہوں کو پکڑ کر چٹکی کاٹنے کی کوشش کی، میں نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے جسم سے پرے جھٹک دیا، میں نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ کون انسان تھا مگر نہیں دیکھ سکی، وہاں بہت سے لوگ تھے۔ “
سبیکا کی اس پوسٹ پر بہت سی خواتین اور مرد حرم میں اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعات دہرانے لگے جو میں یہاں لکھ رہی ہوں۔
ایک خاتون نے کمنٹ کیا کہ 1990ء میں اپنے پہلے طواف کے بعد سے انہوں نے جنسی ہراسانی کا بہت بار تجربہ کیا۔ وہ حیران تھی کہ سبیکا اس سب کے لیے پہلے سے تیار کیوں نہیں تھی۔
ایک اور خاتون نے اپنے کمنٹ میں لکھا کہ انہیں بھی طواف کے دوران جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ”میں حرم میں کچھ شیطانوں کی ہوس زدہ نگاہوں سے بھی محفوظ نہیں تھی۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ دنیا کی سب سے پاکیزہ جگہ بھی خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ “
ایک خاتون نے کہا کہ صرف ایک عمرہ یا ایک حج پر نہیں بلکہ وہ جتنی بار بھی حرم گئیں، ہر بار جنسی ہراسانی کے واقعات ان کے ساتھ پیش آئے۔
ایک آدمی نے کمنٹ کیا کہ ایسے واقعات صرف اہل تشیعہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں ان کے اس کمنٹ پر کافی لوگوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اس سارے واقعے کو تعصب کا رنگ نہ دیا جائے۔ کئی خواتین نے اس کمنٹ کے جواب میں کہا کہ وہ سنی ہیں اور انہیں بھی حرم میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایک خاتون نے کہا کہ ان کے جاننے والوں میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔
ایک آدمی نے کمنٹ کیا کہ وہ ایک سال تک مکہ میں کام کی غرض سے مقیم رہے تھے۔ بہت سے جوان سعودی لڑکے جو مکہ یا اس کے ارد گرد کے علاقے میں رہتے ہیں، باقاعدگی سے حرم میں آتے ہیں تا کہ ایسی حرکتیں کر کے لطف اندوز ہو سکیں۔
ایک اور آدمی نے اپنے کمنٹ میں لکھا کہ دو سال پہلے ایک ایسا ہی واقعہ ان کی دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ان کی دوست نے انہیں بتایا کہ وہ زندگی میں کبھی بھی اتنا باپردہ نہیں رہیں جتنا اس وقت تھیں لیکن پھر بھی کچھ آدمیوں نے انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔
ایک اور آدمی نے کہا کہ ”ایسے واقعات وہاں عام ہیں۔ میں نے بہت سے حج اور عمرہ کیے ہیں۔ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ اس کے گھر بغیر خوف کے آؤ لیکن میں وہاں اپنا اقامہ، بٹوہ، فون اور دیگر اشیاء کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا تھا۔ “
ایک اور خاتون نے لکھا کہ جب انہوں نے کعبہ کی ایک دیوار پر اپنا ہاتھ رکھا تو ایک آدمی نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جمانے کی کوشش کی۔ ایک دوسرے آدمی نے انہیں زبانی طور پر بھی ہراساں کیا۔
ایک خاتون نے کمنٹ کیا کہ حرم میں ان کی دوست کے سینے کو پکڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جہاں کئی لوگ یہ پوسٹ لکھنے پر سبیکا کو سراہ رہے تھے اور ان کی ہمت کی داد دے رہے تھے وہیں کئی لوگوں نے سبیکا کو ہی اس واقعے کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔ کچھ نے کہا کہ انہیں پہلی حرکت کو ہی نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے تھا، انہیں چاہئیے تھا کہ وہ فوراً مڑتیں اور ہراساں کرنے والے کے منہ پر تھپڑ مارتیں۔ ایک کمنٹ میں لکھا گیا کہ اسی لیے اکیلے طواف نہیں کرنا چاہئیے۔ آئندہ طواف کے دوران کسی کو اپنے ساتھ رکھیں اور ایسا لباس پہنیں جس سے آپ کا جسم نمایاں نہ ہو۔ ایک خاتون نے لکھا کہ اسی لیے اسلام میں ہر جگہ محرم کے ساتھ جانے کا حکم ہے۔


بشکریہ ہم سب