گزشتہ روز محترمہ تحریم عظیم صاحبہ کی ایک تحریر بعنوان ”کیا حرم پاک میں بھی جنسی
ہراسانی کے واقعات ہوتے ہیں؟ “
نظر سے گزری۔ جس میں ایک خاتون کے ذاتی طور پر جنسی ہراساں ہونے کا واقعہ بیان کیا
گیا اور اس سے منسلک دیگر کمنٹس کو تحریر میں لایا گیاہے، اگرچہ اس نکتے سے اختلاف
نہیں ہے۔ تاہم اس حوالے سے چند گزارشات ضرور بیان کرنی ہیں۔
حرمین
پاک وہ مقدس مقامات ہیں، جہاں دنیا بھر سے لوگ اپنی اسی فطرت کے ساتھ آتے ہیں، جس
پر وہ کاربند ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ سفاکیت ہو یا درندگی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ
وہی مقدس مقام نہیں ہے، جہاں پیشہ ور افراد بھیک مانگتے ہیں؟ کیا یہ وہی پاک جگہ
نہیں ہے جہاں پیشہ ور عمرہ و حج پر آئے افراد چوریاں کرتے ہیں؟ کیا اسی پاک مسجد
میں تجارت نہیں ہوتی؟
پھر کسی درندہ صفت انسان کی موجودگی میں جنسی طور پر ہراساں کیئے جانا کیوں ممکن نہیں!
پھر کسی درندہ صفت انسان کی موجودگی میں جنسی طور پر ہراساں کیئے جانا کیوں ممکن نہیں!
مضمون
ہذا میں سبیکا خان نے جتنا مفصل اس کو بیان کیا ہے، کیا اتنے وقت میں وہ عملی طور
پر اس مسئلے کو حل نہ کر سکیں؟ یا پھر اس طرح بیان کرنے سے یہ مسئلہ ختم ہوا ہے یا
ایک نئی جہت سے شروع ہوا ہے۔ یہ سمجھنے سے میں قاصر رہی ہوں!
اسی مقدس شہر میں، میں نے آنکھ کھولی ہے، اور گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مقیم ہوں،
ایسے ایک دو نہیں بلکہ متعدد واقعات پر موثر کارروائی کی گئی ہے، طواف کعبہ کے چاروں
طرف نصب کیمروں کی مدد سے موقعہ پر کارروائی کر لی جاتی ہے۔ یہ باتیں بھی ریکارڈ
میں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن لوگوں کو بالخصوص حجاج اکرام کو اپنے ”حقوق“ سے آگاہی
نہیں ہوتی جن کی بنا پر وہ کچھ نہیں کرتے۔
اس
حوالے سے دوسری گزارش یہ ہے کہ مذہبی مقدس مقامات گرجا، مندر، خانقاہوں کے مجاور
اور مقدس ہستیوں کے مزارات پر بظاہر پارسا نظر آنے والے گدی نشین کس طرح خواتین کی
عظمتوں کی قبائیں تار تار کرتے ہیں، وہ ہر گز اب پوشیدہ نہیں ہے۔ خواتین کے تنہا
ان مقامات پر حفاظت کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا، اور وہ کونسا مذہب ہے جس کی
تاریخ میں ایسی مثالیں موجود نہیں ہیں، تو پھر مقدس مقام کے حوالے سے تصویر کا ایک
پہلو ہی زیر بحث کیوں!
پچھلے
ایک مختصر عرصے کے دوران سے مایہ نا ز، نامور اور معزز اسلامی اسکالرز اس مبینہ
”غفلت“ کے الزام تلے ہیں، اور یہ صورتحال ایک المیہ ہے۔ معاشرے کے قابل ترین افراد
اس میں شامل ہیں، دراصل ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ لوگ اندرونی طور پر اخلاقیات
کی پستی سے گزر رہے ہیں۔ لوگوں کے اعتبار گم ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں صرف بیان کر
دینے سے ہمارے کچھ جانتے رہنے کی جستجو تو مٹ سکتی ہے، لیکن ایسے لوگ، ایسے گروہ
اور عناصر کے عزائم تناور ہی رہیں گے، جب تک حل کی طرف نہیں بڑھا جائے گا۔
جہاں تک حرم پاک کی حرمت کا تعلق ہے، یہ تاریخ کے بڑے مشکل مرحلوں سے بھی گزرا ہے،
اسی مقدس شہر میں تاریخی حملوں میں تیس ہزار سے زائد حاجیوں بشمول شہریوں کو شہید
کیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور بچوں کو خوف و ہراس کا نشانہ بنایا گیا،
اور تو اور بیت اللہ سے حجر اسود کو چوری کر کے 22 سال تک قید میں رکھا گیا۔ ایک
مقدس مقام مسجد اقصیٰ بھی ہے، جہاں بے حرمتیوں کی ایک لمبی داستان موجود ہے، جسے
فی الوقت قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔ کیا ان تمام حالات کے پیش نظر اب بھی کوئی
اچنبھے کی بات باقی ہے؟
بشکریہ ہم سب