قندیل ہار گئی، فوزیہ سے قندیل بنانے والا معاشرہ جیت گیا

لطیف ابراھیم




کل سے سوچ رہا تھا قندیل تو ہار گئی، 
فوزیہ سے قندیل بنانے والا معاشرہ جیت گیا....


سب خاموش ہیں،

سناٹا چھایا ہے

قندیل کی قبر سے آواز آتی ہوگی
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑے ہیں کیا؟
نہیں ہم تو تماشائی ہیں
بس اتنا کہہ سکتے ہیں،
ویل پلیڈ قندیل، بیٹر لک نیکسٹ ٹائم........؟
لیکن تمہارے پاس تو اور وقت نا تھا...
نہیں ہم دوسری قندیلوں کو کہتے ہیں...
جو تمہارے بعد بغاوت کرینگی،
جب قندیل مری تھی،
قتل سے ایک دن پہلے قندیل بلوچ کا اسٹیٹس اپڈیٹ تھا کہ: "کوئی مسئلہ نہیں!!
چاہے جتنی بار بھی مجھے نیچے دھکیلا جائے، 
میں ایک فائٹر ہوں ہر بار واپس پلٹوں گی..
میں ایک "ون وومین آرمی" ہوں، 
میں ان عورتوں کے لیئے انسپائریشن ہوں جن کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے
اور جن کو سماج کی طرف غلام بنا کہ رکھا جاتا ہے.
تم مجھ سے نفرت کرتے رہو میں آگے بڑھتی رہوں گی،
قندیل کی لڑائی کس سے تھی؟
ایک نہتی قندیل کس کس سے لڑتی؟
کل اس کے والدین نے اس کے بھائی کو
اس کا خون بخش گیا......
کل میرا دل کر رہا تھا.... کہ لکھوں
ریسٹ ان پیس قندیل....
لانگ لائیو اور کریول سوسائٹی....
قندیل تم کو لوگ کیسے یاد کرینگے؟
ایک تھی فوزیہ
جس کو اس معاشرے سے لڑنے کیلیے
قندیل بننا پڑا....
قندیل لڑ رہی ہے
لڑتے لڑتے گھر کی بغاوت میں ماری جاتی ہے
اور پھر اس ملک کا قانون اس کا خون ڈیم میں بہا دیتا ہے
قندیل تم نہتی تھی!
تمہارا قاتل مولوی تھا
تمہارا قاتل خاندان تھا
تمہارا قاتل قانون تھا
تمہارا قاتل یہ ملک تھا
یہ سنسار تمہارا دشمن تھا
کس کس سے لڑتی؟
کب تک لڑتی تم
تھک جاتی
اچھا ہوا تم
ماری گئی
لیکن آج فیض کی نظم تمہارے نام کرنے کا دل کرہا ہے....
شاید اس نے بھی تیرے لیے لکھا تھا....

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 


دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے 

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی


تیری زلفوں کی مستی برستی رہی

تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی


کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے

ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے


جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

یہ بھی پڑھیں۔