حوا کی مامتا اور آدم کی ولدیت سے محروم تخلیق

لطیف ابراھیم

ساہیوال میں ایک خواجہ سرا کو زندہ جلا کر قتل کردیا گیاَ

حوا کی بیٹیاں بھی کافی خوش ہیں 
ابن آدم بھی خوش ہیں
کچھ گمنام لوگ ہیں
چھپ چھپ کر جیتے ہیں
نا رشتے ہیں نا ناتے ہیں
نا اپنے نا پرائے
جو ملے انہیں دھتکارے
بس حوس پرست ہی ان کا آسرا
یہ کون ہیں؟
یہ بھی انسان ہیں
یا یہ انسان ہی نہیں
تو یہ کون ہیں؟
میں ان کو کس کے نام سے پکاروں؟
ابن آدم کہوں؟؟؟
بنت حوا کہوں؟؟؟
کس نام سے پکاروں؟؟؟
خدا بھی مجھے منجھا سا لگے
مذہب بھی الجھن کا شکارہے
اس نگر میں یہ انسان کتنا لاچار ہے
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
ساحر کو بڑا درد تھا حوا کی بیٹی کا......
!مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی 
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی 
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی 
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں 
بلاؤ خدایان دیں کو بلاؤ 
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ 
ثناخوان تقدیس مشرق کو لاؤ 
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
کاش!!!
ساحر اس پر بھی لکھ جاتا کہ 
یشودھا کی ہم جنس نہیں نا ہے رادھا کی بیٹی 
نا پیمبر کی امت نا زلیخا کی بیٹی 
آج اس ختے کا شاعر کیوں نہیں لکھتا؟
مدد مانگتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یہ آدم کی تخلیق یہ رادھا کی بیٹی
یہ یسوع کی مسیحائی سے کیوں محروم ہے
نا آدم اسے قبولے
نا حوا اسے اپنائے
یہ کہاں جائے؟؟؟؟
انصاف بھی نہیں
نا امان ہے اسے
انسان ہے لیکن شرمندہ ہے انسان اس سے
اسے بھی نام دو
اے آدم اس اپنی تخلیق کو نام دو!
اے حوا اس گمنام کو نام دو!!!
اے ابن آدم.....
اسے امان دو!
اسے امان دو!