BBCShe#: پاکستانی عورت کی آواز دبانا اتنا آسان نہیں رہا

مرد کو اپنی کمزوریوں اور مثبت پہلوؤں کے حساب سے اپنی شاخت اور اپنی شخصیت کا تعارف بنانے کا حق حاصل ہے، لیکن عورتوں کی تعریف تو معاشرہ ہی طے کرتا ہے۔ جس کے حساب سے دنیا میں دو ہی طرح کی عورتیں ہیں۔ بےوقوف ہیں یا پھر آوارہ
میں تو اپنی والدہ کو اکثر کہتی ہوں کہ ماں آپ نے مجھے نہیں معاشرے کو پیدا کیا ہے۔ کیونکہ پال تو آپ معاشرے کو رہی ہیں‘۔
مرد اگر سگریٹ پیتا ہے تو مرد کے پھیپھیڑے خراب ہوتے ہیں اور اگر عورت سگریٹ پی لے تو اس کا کردار ہی خراب ہو جاتا ہے‘۔
لڑکیوں کو ایک غیر مرد سے دوستی کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن وہ ایک غیر مرد سے شادی کرسکتی ہے‘۔
جو عورت کام کرتی ہے اسے ہر وقت لوگوں کو یہ وضاحت کیوں دینا پڑتی ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے اور ان کا خیال رکھ سکتی ہے‘۔
ماہواری ایک نارمل عمل ہے۔ اس ملک میں جہاں انتہائی بیہودہ فلموں کی نمائش کی اجازت ہے وہاں ’پیڈ مین‘ جیسی فلم کو سنسرشپ کے نام پر بین کیوں کر دیا جاتا ہے‘۔
یہ بی بی سی شی سیریز کی میری آخری بیٹھک تھی جو ہم نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں منعقد کی۔
اور ایک کے بعد ایک طالبہ جب کھڑی ہو کر یہ فقرے ادا کر رہی تھی تو مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ایک خواب دیکھ رہی ہوں، جیسے یہ آوازیں کہیں دور سے سنائی دے رہی ہیں۔
وہ تمام معاملات جو عورتوں کی ذہنی جسمانی اور معاشرتی صحت سے جڑے ہیں اور جن پر بات کرنے کو ہی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیاں ایک کے بعد ایک انھیں سارے معاملات پر بات کررہی تھیں۔
انجان مرد سے دوستی نہیں کرنی لیکن انجان مرد سے شادی کر لو
ان کے لہجوں میں تلخی تھی۔ آنکھوں میں غصہ تھا اور انداز جارحانہ تھا۔ وہ بے خوف تھیں۔ ایک کے بعد ایک لڑکی کا ہاتھ اپنی رائے کے اظہار کے لیے اٹھ رہا تھا۔ ہر کوئی اپنی کہانی اور اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتی تھی۔
اس سیریز کا یہی مقصد تھا کہ ہم لڑکیوں کو ان کی رائے کے اظہار کا پلیٹ فارم دیں اور یہ سمجھ سکیں کہ وہ کون سے ایشوز ہیں جو ہمیں اپنی کوریج میں اٹھانے چاہیں۔
ہر لحاظ سے بی بی سی کی رہنمائی کے لیے یہ ایک زبردست تجربہ رہا۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں لڑکیاں اب ریپ اور جنسی زیادتی جیسے موضوعات پر خاموشی اختیار کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اب آتے جاتے سڑکوں پر اور کیمپسز میں گھروں اور دفتروں میں وہ جگہ بے جگہ چھوئے جانے پر چپ رہنا نہیں چاہتیں۔
وہ گھروں میں بھائیوں کو ترجیح دیے جانے اور لڑکیوں اور لڑکوں کی تربیت کے لیے الگ الگ معیار تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں۔
اب وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کے معاملات پر بات کرنا چاہتی ہیں۔ وہ شرم کے نام پر اپنی جنسی بیماریوں کو چھپا کر موت کے منھ میں جانا نہیں چاہتیں۔ وہ عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ جگہیں اور معاشرے بنانے کے بجائے ایک ہی معاشرے کو سب کے لیے محفوظ بنانے کی سوچ رکھتی ہیں۔
میرے لیے یہ سیریز کسی جذباتی بھونچال سے کم نہیں تھی۔ لڑکیوں نے خود پر بیتنے والی مشکلوں اور پریشانیوں کے بارے میں بات کی اپنے گھروں کی کہانیاں سنائیں۔ لڑکیاں ان سیشنز کے دوران آب دیدہ ہوتی رہیں لیکن شاید ہی کوئی ایسی لڑکی ہو جو مجمع میں موجود ہونے کے باوجود خاموش رہی ہو۔
مجھے لگا کہ بہت سی دبی ہوئی آوازوں کو پلیٹ فارم مل گیا۔ لڑکیاں فہم و فراست رکھتی ہیں۔ خود شناسی کی منزل پا چکی ہیں اور اپنے نکتہ نظر کو دلیل سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انھیں کبھی آزادی سے اپنی رائے کے اظہار کے لیے کوئی ایسا پلیٹ فارم دیا ہی نہیں گیا کہ جہاں وہ اپنی سوچ اور فکر کو آواز دے سکیں۔

کئی لڑکیوں نے خود کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی، بچپن میں ہونے والے حادثوں اور سماجی دباؤ کے نام پر موجود گھٹن کے بارے میں بات کی۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’اس گھٹن کے ماحول میں لڑکی کہاں جائے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت میں یہ خرابی ہے وہ خرابی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ عورت کیا کرے جب آپ نے اسے اعتماد ہی نہیں دیا آزادی سے سانس لینے کی گنجائش ہی نہیں دی۔ آپ نے اسے بتایا ہی نہیں کہ وہ بھی انسان ہے اس کے بھی حقوق ہیں تو وہ کہاں جائے‘۔
ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ عورت کی وقعت کا تعین اس کے رنگ قد اور سائز سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے تمہارا تو رنگ سانولا ہے تمھاری شادی کسی اچھے لڑکے کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتی، تمھارا قد چھوٹا ہے تمھاری ناک موٹی ہے تم کیسے ترقی کرسکتی ہو۔ عورت کی کیا زندگی ہے؟
لڑکیوں کے کمنٹس اتنے پر اثر تھے کہ کسی سخت دل انسان کو بھی عورتوں کی زندگیوں اور مسائل پر ہمدردانہ نظر ڈالنے پر مجبور کر دیں لیکن یہ دیکھ کر انتہائی تکلیف اور مایوسی ہوئی کہ ان لڑکیوں کو ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اسی ہراسگی اور غلاظت کا سامنا کرنا پڑا جو اس سماج میں ہر اس عورت کو کرنا پڑتا ہے جو اپنے پر ہونے والے جبر پر خاموش رہنے سے انکار کرتی ہے۔
لیکن ان لڑکیوں سے ملنے کے بعد مجھے اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ معاشرہ ایک نئے انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے، جہاں عورتوں کی آوازوں کو دبانا اتنا آسان نہیں رہے گا جتنا کہ ماضی میں تھا۔