مہناز
رحمان
برسوں پہلے عورتوں کی آدھی گواہی کا غلفلہ اٹھا تھا۔ کہا گیا کہ مالیاتی امورمیں
دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی یہ ضیاءالحق کا دور تھا۔ اس کے بعد
بینظیر کا دور آیا تو پہلی مرتبہ سندھ ہائی کورٹ میں ایک خاتون جج کا تقریر ہوا
لیکن بنک میں مالیاتی امور کے حوالے سے ان سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ کسی مرد کے
دستخط در کار ہیں۔ اس پر ان خاتون نے کہا تھا کہ میں ایک جج ہوں۔ میرے دست خط سے
ایک مرد پھانسی پر چڑھ سکتا ہے لیکن بنک میں میرے ساتھ میرا چپڑاسی دستخط کرے گا۔
اسی قانون کے حوالے سے مرحومہ رشیدہ پٹیل نے اپنی تنظیم پاﺅلا کے تحت ایک سیمینار
کرایا تھا جس کے مہمان خصوصی شریعت عدالت کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ تھے۔ میں نے
بھرے مجمع میں ان سے سوال کیا تھا کہ اگر ایک عورت چارٹرڈ اکاﺅنٹیٹ ہو تو کیا مالیاتی
امور میں اس کی گواہی اس لئے آدھی مانی جائے گی کہ وہ ایک عورت ہے اور اگر ایک مرد
ناخواندہ ہو تو بھی اس کی گواہی صرف اس لئے پوری مانی جائے گی کیونکہ وہ ایک مرد
ہے۔
جسٹس صاحب سرجھکا کر رہ
گئے۔ ان کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔ آج یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آرہی ہیں
کہ چند روز ہوئے ہماری دوست” ش“ نے اطلاع دی کہ جب کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی
خاتون کو بیرون ملک ملازمت ملتی ہے تو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو اس سے شوہر کا
اجازت نامہ طلب کرتا ہے۔ اس کا پیغام پڑھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا
کیا ایک بالغ پاکستانی عورت ایک مکمل انسان اور ایک مکمل شہری نہیں؟ کیا پاکستان کے
آئین کے تحت اسے وہی بنیادی حقوق حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں؟
ابھی میں اسی پر اپنا سر
پیٹ رہی تھی کہ ”س خ“ نے اطلاع دی کہ نئے پاسپورٹ کے حصول پر بھی پاکستانی عورتوں
کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواہ وہ ادھیڑ عمر ہی کیوں نہ ہوں،
ان کے پاس شوہر یا باپ کا اجازت نامہ ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ عورت غیر شادی شدہ ہو
اور باپ کا انتقال ہوچکا ہو تو پاسپورٹ کا حصول ایک خوف ناک خواب سے کم نہیں ۔
ایک اور دوست ”ص“ نے
بتایا کہ بیرون ملک ملازمت ملنے کے بعد اپنی اپنے شوہر کو متعلقہ دفتر لے جانا پڑا
تھا۔ جہاں شوہر صاحب کو حلف نامہ جمع کرانا پڑا کہ انہیں اپنی بیگم کے بیرون ملک
جاکے ملازمت کرنے پر کوئی اعتراض نہیں (وہ خود بھی طویل رخصت لے کر ان کے ساتھ جا
رہے تھے) جب ”ص“ نے محکمہ والوں سے اس کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ایسا ہیومن
ٹریفکنگ کو روکنے خاص طور پر عرب امارات کے لئے کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں جانے والی
خواتین میں اکثریت گھریلو ملازماﺅں
کی ہوتی ہے جنہیں قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہاں جا کے انہیں کسی قسم کے حالات پیش
آسکتے ہیں۔
ظاہر ہے ہیومین ٹریفکنگ
کے خلاف ہم سب آواز اٹھاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صنفی مساوات کا خاتمہ
کردیا جائے۔ مذہب اور ثقافت کی آڑ میں اس طرح کے ضابطے بنائے جاتے ہیں اور مغربی
عورتوں کی مثالیں دے کر آپ کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔”ص“ کا تعلق
کارپورٹ شعبے سے ہے اور انہیں اچھا لگتا ہے کہ ”مرد عورت کے ناز اٹھائیں اور عورت
مرد کی دیکھ بھال کرے مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اس کا یہ مطلب
نہیں کہ ایک برتر ہے اور دوسرا کم تر۔“
ہم بھی اندھی مساوات
میں یقین نہیں رکھتے۔ مساوات کے لئے انصاف ضروری ہے اور عورتوں اور پیچھے رہ جانے
والے طبقات کے لئے خصوصی اقدامات بھی ضروری ہیں۔
قومی کمیشن برائے وقار
نسواں کی چیئر پرسن خاور ممتاز صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ جان کر ششدر رہ گئی تھیں
کہ ”ورک ویزا“ پر باہر جانے والی عورت کو شوہر یا باپ کے پروٹیکیشن سرٹیفکیٹ کی
ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی جاننے والی بچی کو ایئر پورٹ سے واپس گھر بھیج دیا گیا تھا کیونکہ
اس کے پاس یہ سرٹیفکیٹ موجود نہیں تھا۔ وہ اس مسئلے کو اٹھا نہیں پائیں۔ کیونکہ
عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان کی تقرری معطل ہو گئی تھی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر
قومی کمیشن یہ مسئلہ اٹھائے تو یہ صرف صوبائی کمیشن اس کا ساتھ دیں گے بلکہ سول
سوسائٹی بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔