کیا آپ عیسائی ہیں؟

 
دسمبر کا مہینہ ہر ایک کے لیے خوشگواری کا احساس لے کر نہیں آتا۔ دسمبر کے مہینے میں بہت کُچھ پرانا یاد آنے لگتا ہے، گزرا ہوا سال، اچھے برے سب لمحات، یہاں تَک کے پچھلے سال جو چوٹ لگی ہوتی ہے وہ بھی دوبارہ دُکھنے لگتی ہے۔ شاید اِس لیے کہ سردیوں کی تعطیلات ہو جاتی ہیں اور باہر کا ماحول قدرے پر سکون ہوتا ہے اور انسان کوغمِ دوراں سے کُچھ دیر کو چھٹکارا مِل جاتا ہے۔ انسان بھی عجیب ہے فرصت مِل جائے تب بھی دِل جلا کر ہی سکون پاتا ہے۔
لیکن میرے لیے دسمبر کا مہینہ میرے بچپن کی ایک خوبصورت یاد ہے۔ اِس سال کُچھ ایسا ہوا جِس نے مجھے اس موضوع پر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ہوا کُچھ یوں کہ فیس بُک پر ایک پوسٹ لگانے کی وجہ سے جب مُجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ”کیا آپ عیسائی ہیں؟ “ تو اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ انسانیت کا واقعی کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اگر ہے بھی تو اسلام کو انسانیت کا مذہب نہیں گردانا جاتا۔ انسان کو انسان سمجھنے کے لیے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارِج، ملحد یا کافر ہونا پڑتا ہے۔ اگر آپ بحیثیت مسلمان کسی عیسائی کے حق میں آواز اُٹھا لیں تو آپ پر فوراً کفر کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حالنکہ بحیثیت انسان سَب کی پیدائِش، بھوک، پیاس، خواہشات، غَم، سَب ایک ہی جیسے ہیں۔
میں عیسائی تو نہیں ہوں لیکن اُن مسلموں میں سے ضرور ہوں جن کو قسمت سے کانونٹ سکول سے تحصیلِ علم کا شرف حاصِل ہوا۔ کے جی سے لے کر میٹرِک تک کا گیارہ سالہ عرصہ میں سینٹ میریز کانونٹ سکول ملتان میں زیرِ تعلیم رہی۔ یہ گیارہ سالہ عرصہ میری زندگی کی سَب سے خوبصورت یادوں سے لبریز ہے۔ کانونٹ سکول کی سَب سے اچھی بات یہ رہی کہ مجھے عیسائی بچوں کے ساتھ پڑھنے کا اور اُن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے سکول میں ہی بہت شاندار گرجا گھر بھی تھا جس کی زیارت ہم ہر روز ہی کیا کرتے تھے۔
سکول میں داخِل ہوتے ہی ذرا آگے چلیں تو الٹے ہاتھ پر چند قدم چلنے کے بعد بی بی مریم کا ایک قد آور مجسمہ نصب ہے جِس کے نیچے اردو میں تحریر ہے ”میں ہوں ماں بے داغ کنواری“۔ اُس مجسمے میں بی بی مریم کی جو شبیہ بنائی گئی ہے اُس کو سَر تا پا انتہائی حجاب کے ساتھ ڈھانپا گیا ہے۔ انتہائی احترام کے ساتھ بنایا گیا وہ مجسمہ ہمیشہ ہی میرے دِل کو سکون بخشتا تھا۔ سارا بچپن یہی سوچنے میں گزر گیا کہ اِس جملے کا مطلب کیا ہے۔
بچپن میں کیا پتا تھا کہ ”بے داغ کنواری“ کا کیا مطلب ہوتا ہے یا یہ کہ ایک ماں داغدار کیسے ہو سکتی ہے۔ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ تھوڑے بڑی ہوئی تو سمجھ میں آنی شروع ہوئی کہ اصل چکر کیا ہے۔ کانونٹ سکول کی انتظامیہ اِس قدر کشادہ دِل تھی کہ ہم مسلمانوں کو اسلامیات کے پیریڈ میں کھلم کھلا یہ پڑھنے کی اجازت دیتی تھی کہ خدا واحد و لاشریک ہے اور لم یلِد ولم یُلَد ہے۔ ہم بالکل یہ فرق جانتے تھے کہ ہم تعلیم تو ایک مشنری سکول میں حاصِل کر رہے ہیں لیکن ہمارا اپنا دین ہے اور یہ عیسائی ہمارے دین کی اُسی طرح عزت کرتے ہیں جیسے اپنے دین کی۔
اسی طرح ہم اُن کے دین کی عزت کرنے لگے کہ اگر وہ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں تو یہ اُن کا عقیدہ ہے اور ہمیں اِس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ عید ہو بکر عید ہو یا محرم، ہماری عیسائی استانیاں یہاں تَک کہ ہماری پرنسپل جو کہ ہمیشہ ”سسٹر“ کے درجے کی ہوتی تھیں ہمیشہ ہماری خوشی اور دُکھ میں شریک رہیں۔ یہ تو میری خوش قسمتی ہو گئی۔ اب کیا میں یہ تسلیم کر لوں کہ میرے اندر جو انسانیت ہے وہ اِس لیے ہی کہ میں نے ایک مشنری سکول سے تعلیم حاصِل کی؟
جواب ہے نہیں کیونکہ اُسی سکول سے تحصیلِ علم کے بعد با شعور ہو کر بہت سی لڑکیاں سختی سے شِدّت پسند عقاید کی پیروکار ہو گئیں اور عیسائیوں کے لیے رحم اُن کے اندر سے ختم ہو گیا۔ وہ امن، محبت اور بھائی چارے کے وہ تمام سبق بُھلا بیٹھیں جو سسٹر بینڈیکٹا اور سسٹر علوینہ ہمیں روز صبح اسمبلی میں دیتی تھیں۔ اسمبلی سے یاد آیا کہ اسمبلی کا آغاذ ایک انگریزی دعا سے ہوتا تھا جو غالباً قرآن کی ایات کا ترجمہ تھا۔ اُس کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں
”اؤ مائی لارڈ
آئی اڈور دی
آئی لوو یو وِد مائی ہول ہارٹ
ہیلپ می ٹو بی ویری گُڈ۔ ”
جِس کے بعد ہم سَب گلا پھاڑ پھاڑ کر بائیبل کی ایک دعا پڑھتے تھے اور اسمبلی کا اختتام قومی ترانے پر ہوتا تھا جس میں جَب سایہ ِ خدائے ذُوالجلال کا لفظ اتا تھا تو سب مسلمان عیسائی ایک ساتھ احترام میں سر جھکا لیا کرتے تھے۔
یہ وہ انسانیت کا پہلا درس تھا جو مجھے اپنے سکول سے ملا۔ ہم سردی کی تعطیلات شروع ہونے سے پہلے سکول کے آخری دِن اپنی عیسائی مسوں کو ہیپی کرسمس کہتے تھے اور اندر ہی اندر دِل چاہتا تھا کہ ہم بھی کرسمس ٹری دیکھیں اور اِن کے ساتھ کرسمس کی خوشیاں بانٹ سکیں۔ ایسا تو نہ ہو سکا لیکن میرے والدین نے یہ عادت کبھی نہ چھوڑی کہ وہ ہمیں لے کر ہر سال میرے بھائی کی عیسائی استانیوں کے گھر کرسمس کا کیک ضرور دینے جاتے تھے۔ میرا بھائی لاسال سکول میں پڑھتا تھا جو کہ آل بوائز مشنری سکول تھا۔ اور اِس طرح انسانیت کا دوسرا درس ہمیں اپنے والدین سے ملا۔
اِس دوسرے درس کی اہمیت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ابھی حال ہی میں میں نے ایک انگریزی ادیبہ باربرا کولوروسو کی لکھی ہوئی کتاب ”کڈز آر ورتھ اِٹ“ کا مطالعہ کیا جو کہ اُنھوں نے اولاد کی تربیت کے بارے لکھی ہے۔ اُس کے ایک صفحے پر کچھ تحریر تھا جِس کا اردو ترجمہ کیے دہتی ہوں۔ باربرا کہتی ہیں
”اگر آپ اپنی اولاد کے سامنے کسی کے جسمانی نقص کے بارے میں، یا اُس کے مذہبی رجحان کے بارے میں، یا اُس کی جنس کے بارے میں، یا نسل کے بارے میں تحقیرانہ گفتگو کریں گے تو اِس بات کا پورا امکان ہے کہ آپ کی اولاد جوان ہو کر مذہبی، جنسی، معاشرتی شدّت پسندی کو اپنا شعار بنا لے گی“
یہ سطور پڑھ کر مجھے اِس بات کا اور بھی یقین ہو گیا کہ والدین جو کُچھ اپنی اولاد کے سامنے کہتے ہیں یا کرتے ہیں اُس کا ڈائیریکٹ اثر بچّے کی نفسیات پر ہوتا ہے اور وہ بچپن سے ہی تعین کر لیتا ہے کہ جوان ہو کر کس سے نفرت اور کس سے محبت کرنی ہے۔
میں جَب اپنے بچّوں سے بات کرتی ہوں تو اِس طرح سے سمجھاتی ہوں کہ اگر خدا مہربان نہ ہوتا تو وہ کبھی انسان کو ”بسم اللہ الرّحمان الرحیم“ کے الفاظ نہ سکھاتا۔ خدا تو جَبّار بھی ہے اور قہار بھی۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ اُسے رحمان و رحیم کہہ کر پکارا جائے۔
پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ خدا کی ”رحمان و رحیم“ صفت کی جگہ ”قہار و جبار“ والی صفت کا ذکر زیادہ کر دیا گیا، دینی مدارس کا ایک جنگل اُگا دیا گیا اور والدین اپنے بچوں کو اسلام کی اصل روح کی بجائے مولوی کے بتائے ہوئے ِاسلام سے روشناس کرانا شروع ہو گئے۔ اِن مدرسوں میں طلبہ کے ساتھ جنسی، نفسیاتی ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا۔ ان مدارس سے حصولِ علم کے بعد ایک ایسی نفسیاتی ڈنڈا بردار نسل پروان چڑھی ہے جسے دین کی سمجھ تو کیا ہوتی، انسان کو انسان تک سمجھنا ان کے لیے ایک مشکل فعل بَن گیا اور بات آسیہ بی بی کی پھانسی اور سلمان تاثیر کے ناحق قتل تَک جا پہنچی۔
اپنا بچپن یاد کرتی ہوں اور آج کا پاکستان دیکھتی ہوں تو یہی نظر اتا ہے کہ صرف مختصر سے عرصے میں ہم ایک شدّت پسند قوم میں تبدیل ہو گئے۔ گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی، عیسائیوں کو چوڑے مصلی کا خطاب دے کر انھیں نجس قرار دے دیا گیا۔ کاش سب لوگ میرے والدین جیسے بن سکتے۔ چاہے اپنے بچّوں کو مشنری سکول سے تعلیم نہ دلواتے لیکن انسان کو انسان رہنے دیتے۔ اور پھر ظلم یہ ہے کہ یہی لوگ مغربی ممالک کا پاسپورٹ حاصِل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور یہاں آ کر یہی مسلمان جب اُکڑوں بیٹھ کر بیت الخلا کی صفائی کرتے ہیں تو ایک ایک چوہڑا یاد اتا ہے اور پھر وہی آواز اتی ہے ”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے“