جہیز، مرد اور فیمسنٹ عورتوں کا فالودہ

 
انٹرنیٹ پر ایک مرتبہ پھر جہیز پر لعنت بھیجنے کی دھوم مچی تو چند اداکاروں سمیت عوام نے اپنی ہتھیلیوں پر پیغامات لکھ کر تصاویر پھیلانا شروع کردیں۔ ایسے میں دل جلے بھی میدان میں کودے کہ صاحب ٹھیک ہے۔ جہیز ایک غلط روایت ہے جس کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے۔ مگر! لڑکی والوں کی جانب سے متوقع دولہے کی مالی حیثیت معلوم کرنا، اس کی تنخواہ، بینک میں پڑے روپے، گاڑی ہے یا نہیں؟ گھر اپنا ہے یا کرائے کا؟ ماں باپ خود کماتے ہیں یا اولاد پر انحصار ہے۔
حد تو یہ کہ لڑکے کی کوئی چھوٹی بہن ہے یا نہیں؟ کہ کل کو بھائی اپنی بہن کی شادی پر روپیہ خرچ کرے گا تو ہماری بیٹی کو ہاتھ تنگ کرنا پڑے گا۔ یہ سب بھی تو بند کیا جائے۔ صرف جہیز ہی کیوں؟ یعنی لڑکا جہیز لے تو وہ کمین کہلائے۔ اور لڑکی والے دولہے کی صورت میں پورا اسٹیٹ بینک بھی ڈھونڈتے پھریں تو کوئی بات نہیں! اب جب محنت ہورہی ہے تو ایک ہی مرتبہ تمام بری روایات ختم کرنے پر کیوں نہ ہوجائے؟
یوں بھی اکثر خواتین ایک لڑکے میں جو خصوصیات تلاش کرتی ہیں وہ ذرا مشکل ہی میسر ہوا کرتی ہیں۔ اب دیکھیے اکثریت کو لڑکے کا اپنا گھر، گاڑی اور کوئی بہت اچھی نوکری یا کاروبار درکار ہے۔ ایک گھر کی قیمت اگر پچاس لاکھ روپے بھی لگا لی جائے جو کہ نہایت کم ہے، تو بھی۔ چوبیس سے چھبیس برس کی عمر تک تعلیم لینے اور معمولی نوکریاں کرنے والا شخص نہ تو اپنا گھر بنا سکتا ہے، نہ ہی گاڑی لے سکتا ہے اور نہ ہی تگڑی رقم اپنے بینک میں جمع کرسکتا ہے۔
اچھی تعلیم لینے کے بعد نوکری حاصل کرتے اور قدم جماتے بھی وقت لگ جاتا ہے۔ اور اکثر یہی وہ عمر بھی ہوا کرتی ہے جب لڑکا سیٹل ہونے کی کوشش تو کر رہا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہوتے ہیں۔ طرح طرح کی بیماریاں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ اسپتالوں کے چکر لگتے ہیں۔ بھاری رقوم اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ اکثر جوان اس ہی عمر میں صرف بے روزگار ہی نہیں ہوتے۔ اپنے ماں باپ سے بھی محروم ہو رہے ہوتے ہیں۔ ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی خاص دوست کی۔ پارٹنر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مگر وہ میسر نہیں ہوتا۔ کیونکہ لڑکی والوں کی نظر میں وہ سیٹل نہیں ہوتا۔
خواتین کیوں پکاپکایا حلوہ کھانا چاہتی ہیں۔ ایک مرد کو کیوں اس وقت قبول نہیں کرتیں جب وہ لڑکھڑا رہا ہوتا ہے۔ چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے۔ زیر تعمیر عمارت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈال دیتیں۔ کہ کل کو جب اس کے دن بدلیں تو آپ نے زندگی کی دھوپ چھاؤں اس کے ساتھ دیکھ رکھی ہو۔
جہیز سے ابتدا ہوئی اور مردوں کے مالی معاملات کی بنیاد پر ان کو نہ پرکھنے تک پہنچی تو چند فیمنسٹ مرد بھی اس بحث میں کود پڑے۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ جناب مرد کا اسٹیٹس پرکھا جانا چاہیے تاکہ وہ عورت کو سکون اور ہر آسائش دے سکے۔ یعنی کہ مرد گدھوں کی طرح پیسے کمائے اور عورت بیٹھ کر کھائے۔
یہ دلیل عورت کے سراسر خلاف ہے۔ جب عورت ایسے مرد کو اپنائے گی جو کہ مالدار ہوگا۔ اور اس بات کا علم اس مرد کو بھی ہوگا، اس کے خاندان کو بھی۔ پھر وہ عورت اس پر مالی طور پر بوجھ بھی بنے گی تو مسائل جنم لیں گے۔ خاص کر مڈل کلاس میں۔ عورت کو اگر خود مختار ہونا ہے اور برابری کی سطح پر حقوق لینے ہیں تو پھر کام بھی کرنا پڑے گا۔ پیسے بھی کمانے پڑیں گے۔ اکثر عورتیں ایسا کر بھی رہی ہیں۔ مرد اور عورت اگر گاڑی کے دو پہیے ہیں تو دونوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا جب ہی آگے بڑھ پائیں گے۔
اگر لڑکی والے یہ بات سمجھ لیں، لڑکی صرف گھر سنبھالنے کے بجائے پیسے کمانے میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹائے اور شوہر بھی ایسا کرنے کی اجازت دے تو جہیز کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے اور لڑکے کو مالی طور پر پرکھنے کا بھی۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ لڑکوں کو جہیز درکار ہے اور ایسی بیوی بھی جو گھر میں سجا کر رکھی جا سکے اور جس سے گول روٹیاں بنوائی جا سکیں۔ اور عورت کو ایسا مرد درکار ہے جو بھرپور جوان بھی ہو، رئیس بھی ہو، اس کی کوئی بہن بھی نہ ہو اور عورت کو ملکہ بناکر کسی محل میں رکھے۔ یہ سب چاہنے کے بعد یہی مرد اور عورتیں خود کو فیمنسٹ بھی کہتے پھرتے ہیں!
اک شخص کررہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش! اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی