شادی یوں تو ایک کٹھن کام ہے لیکن اس کا سب سے مشکل عنصر لڑکی کا جہیز بنانا ہے۔ مڈل کلاس گھرانوں میں یہ کام لڑکی کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ طبقہ بیٹی کے پیمپرز کا پیکٹ لینے جائے تو ساتھ ہی ایک ٹی سیٹ، بیڈ کور یا کچھ اور نہیں تو دو چار چمچے ہی خرید لیتا ہے۔ یہ سارا سامان ایک بڑی سی لوہے کی پیٹی میں جمع ہوتا رہتا ہے۔
شادی کے وقت اس جمع شدہ خزانے میں فریج، ٹی وی، اے سی، فرنیچر اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء کا اضافہ کیا جاتا ہے اور لڑکی بیاہ دی جاتی ہے۔
اس جہیز کا تعلق سسرال میں لڑکی کو ملنے والے مقام سے ہے۔ جو لڑکی جتنا زیادہ جہیز لے کر جاتی ہے اس کی اتنی ہی عزت کی جاتی ہے۔ جہیز نہ لانے والی یا کم جہیز لے کر آنے والی لڑکیوں کا ہم کیا حال کرتے ہیں، ہمارے اخباروں میں روز اس کی داستان چھپتی ہے۔ ایسی لڑکیاں یا تو چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہے یا سیڑھیوں سے پھسل کر گر جاتی ہیں، کسی کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا کسی کو سیدھے سیدھے گولی ہی مار دی جاتی ہے۔ جو ذرا تمیزدار ہوتے ہیں وہ بیوی کے کسی بھی قسم کی فرمائش کرنے پر ‘باپ کے گھر سے لے آنا تھا نا’ کہہ کر اس کا منہ بند کروا دیتے ہیں۔
جہیز کے معاملے میں فرمائشی پروگرام تو اب نہیں چلتا لیکن ‘ہم تھوڑی مانگ رہے ہیں، یہ تو خود اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں’ کے نام پر جہیز بے حد خوشی سے وصول کیا جاتا ہے۔ پائی پائی جوڑ کر اپنی بیٹی کا جہیز اکٹھا کرنے والا آدمی اپنے بیٹے کی شادی کی دفعہ دگنا تگنا جہیز وصول کرنا چاہتا ہے۔
جنوبی ایشیا کی نسبت افریقہ میں لڑکے والے شادی کے وقت جہیز دیتے ہیں جو عموماً لڑکی والوں کی فرمائش کے مطابق ہوتا ہے۔ لڑکی والوں کی مرضی ہے کہ وہ یہ جہیز لڑکی کو دیں یا خود رکھ لیں۔ وہاں بھی جوان لڑکے اور لڑکیاں اس رسم کے خلاف ہیں۔ بعض افریقی لڑکیوں کو لگتا ہے جیسے جہیز کے نام پر ان کی قیمت لگائی جا رہی ہے۔ کچھ افریقی لڑکیوں کا ماننا ہے کہ اس جہیز کی وجہ سے ہی ان کے شوہر اور سسرال والے ان کی قدر کرتے ہیں۔
پاکستان میں معاملہ الٹ ہے۔ جہیز لے جانے کے باوجود لڑکی کو سسرال میں دب کر رہنا پڑتا ہے۔ اپنی شخصیت کھو کر سسرال کی پسند کے مطابق ایک نیا چولا پہننا پڑتا ہے تاکہ سسرال میں قبولیت حاصل ہو۔ لڑکی کے گھر والوں کو شادی کے وقت جہیز دینے کے علاوہ بھی پوری زندگی اپنی بیٹی کو مختلف مواقعوں پر تحائف دینے پڑتے ہیں تاکہ بیٹی کا سسرال میں نام بنا رہے۔ جہیز کے خلاف تو بہت بولا جاتا ہے لیکن ان تحائف کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔
جہیز کی اس رسم کے خلاف یونائیٹد نیشنز ویمن سوشل میڈیا پر ‘جہیز خوری بند کرو’ کے نام سے ایک کیمپین چلا رہی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں اپنی ہتھیلی پر مہندی سے ‘جہیز خوری بند کرو، لکھ کر تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں۔ اب تک بہت سے اداکاراور سماجی کارکن اس کیمپین کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس کیمپین کے جواب میں لڑکوں کی طرف سے بھی ایک کیمپین چلائی جا رہی ہے جس میں وہ پوچھ رہے ہیں کہ جہیز لینا غلط ہے تو لڑکے کا سٹیٹس دیکھنا کیسے صحیح ہے؟ اس کیمپین کو چلانے والے لڑکوں کا کہنا ہے کہ جس لڑکے کے پاس اپنا گھر، گاڑی، اچھی نوکری اور آگے بڑھنے کے مواقع ہوں اسے کم ہی انکار کیا جاتا ہے۔ جس بےچارے کی حالت ذرا پتلی ہو اس کی دفعہ استخارہ بھی ٹھیک نہیں آتا۔
ہمارے ہاں عموماً ماں باپ کی مرضی سے شادی طے پاتی ہے۔ لڑکے والے اپنے بیٹے کو جنتی سمجھتے ہوئے اس دنیا میں ہی اس کے لیے حور تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ لڑکی والے اپنی بیٹی کا بہتر مستقبل ایک لڑکے کی صورت میں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق بیٹی کا مستقبل سوچا ہوتا ہے۔ کسی کے لیے نوکری پیشہ آدمی اچھا مستقبل ہے تو کوئی کاروباری کو بہتر مستقبل سمجھتا ہے۔ کچھ لوگ باہر کے ممالک میں سیٹل لڑکوں میں اپنی بیٹی کا اچھا مستقبل دیکھتے ہیں تو کچھ لوگ اپنے خاندان کے ہی کسی لڑکے کو بہترین جانتے ہیں۔
جہیز بمقابلہ لڑکے کا معاشی سٹیٹس ایک نہائیت بے کار موازنہ ہے۔ جہیز کا موازنہ اگر کیا جائے تو شادی کے وقت لڑکوں کو اپنے ماں باپ کی طرف سے ملنے والے تحائف سے کیا جا سکتا ہے جو اکثر شادیوں میں زیرو ہوتے ہیں۔
لڑکے کے معاشی سٹیٹس کا موازنہ لڑکے والوں کی ان توقعات اور خواہشات سے کیا جاسکتا ہے جو وہ اپنی بہو چنتے ہوئے رکھتے ہیں۔ جیسے کہ لڑکی کھانا بنا سکتی ہے یا نہیں، گھر سنبھال سکتی ہے یا نہیں، بچوں کو اچھا مستقبل دے سکتی ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
یونائیٹد نیشنس ویمن کی یہ کیمپین بے حد ضروری ہے۔ جہیز کی رسم ختم ہونی چاہئیے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ یہی جہیز سسرال میں لڑکی کے پیر مضبوط بناتا ہے؟ اگر بیٹیاں جہیز کے بغیر بیاہی جانے لگیں تو ان کی پر امن زندگی کی ضمانت کیا ہو گی؟ اگر ان بیٹیوں اور ان کے سسرال والوں کو ہر عید، شبِ برات، بچے کی پیدائش پر لڑکی کے گھر والے مہنگے کپڑے، جوتے، زیورات یا دیگر تحائف نہ دیں تو لڑکی کو سسرال کی طرف سے طعنے نہیں ملیں گے، اس کی ضمانت کیا ہےَ؟
لوگ اپنی بیٹیوں کو جہیز اس لیے نہیں دیتے کہ انہیں شادی کے بعد اس سامان کی ضرورت ہوگی بلکہ اس لیے دیتے ہیں کہ جہیز نہ لانے کی صورت میں بیٹی کی سسرال میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسی وجہ سے اگر کوئی جہیز سے منع کر بھی رہا ہو تب بھی بیٹی والے جہیز دیتے ہیں۔
جہیز کی رسم کے خلاف کیمپین چلانے کے ساتھ ساتھ ہمیں لوگوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عورت بھی ایک انسان ہے۔ ایک شادی میں عورت کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہے جتنا کہ مرد کا۔ اگر مرد کما کر گھر لاتا ہو تو عورت اس پیسے کا استعمال کرتے ہوئے گھر کو سنوارتی ہے۔ جب ہم شادی میں مرد اور عورت کے کردار کی برابری کو سمجھ لیں گے تب ہم عورتوں سے جہیز نہیں مانگیں گے اور نہ ہی کوئی عورت شادی کے دس سال بعد جہیز نہ لانے کا طعنہ سنے گی۔