آج صبح سے انٹرنیٹ نہیں ہے ۔ رات ہمیشہ کی طرح بے چین تھی، آنکھ زیادہ جلدی کھل گئی۔ بہت وقت بعد وہ ساری چیزیں کام کرنا شروع ہوئیں جو وائی فائی سے پہلے کے انسان میں ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً کانوں میں وہ والے سناٹے کی آواز سنائی دی جس طرح سیٹیاں خود بخود دماغ کے اندر بج رہی ہوں۔
بچپن میں اس آواز سے بہت چڑ تھی، آج کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ گھڑی اب بھی ٹک ٹک کرتی ہے ، یہ کافی دنوں بعد یاد آیا۔ ساتھ والے کمرے میں دسمبر کا مہینہ بھی پنکھا بند نہیں کروا سکا؟
دور سڑک پہ کوئی ایمبولینس ٹائپ کا سائرن بجا ہے ، خیر ہو، سب کی خیر ہو۔ ٹرک کا ایک ہارن بھی کہیں ٹاں ٹاں کر رہا ہے ۔ نہیں ہے تو دور دور تک ٹرین کی سیٹی نہیں ہے ۔ پہلے یوں تھا کہ جب بھی آنکھ کھلتی تو کچھ دیر بعد کہیں نہ کہیں سے ایک لمبی سی آواز ریل گاڑی والے ہارن کی آ جاتی تھی۔ وہ بہت چھوٹا اور یوزر فرینڈلی شہر تھا۔
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نقش آپ کے دماغ پر رہ جاتا ہے لیکن اس وقت آپ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اب اس عمر میں، پینتیس چھتیس سال بعد آپ یہ فرق نہیں کر پاتے کہ ایسا ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔ مطلب اس وقت عمر تین سے پانچ سال ہوتی ہے اور سوچ بعد میں ہمیشہ اس چیز کے درمیان اٹکتی رہتی ہے کہ یار پتہ نہیں یہ کوئی خواب ہی نہ ہو، شاید ایسا کبھی ہوا بھی ہو گا یا ایویں اپنے دماغ کی خرابی ہے؟
بہرحال، بختی ماموں کے پاس ایک ویسپا ہوتا تھا۔ ویسے تو اس زمانے میں ہر شریف آدمی کے پاس ایک ویسپا ہوتا تھا کہ موٹر سائیکل تھوڑی بدتہذیب سواری سمجھی جاتی تھی۔ موٹر سائیکل میں دونوں ٹانگیں آر پار کر کے بیٹھنا پڑتا تھا، ویسپا کے اوپر آپ ذرا مہذب انداز میں بیٹھ سکتے تھے ۔
ویسپا ویسے بھی ایک قسم کی آدھی گاڑی ہوتی تھی۔ ٹانگیں سامنے کی ہوا سے بچی رہتی تھیں، گدی موٹرسائیکل سے زیادہ کمفرٹیبل تھی کیونکہ ایک تو چوڑی تھی پھر اس میں سائیکل کی طرح اپنے ذاتی سپرنگ بھی ہوتے تھے جو ہر جھٹکے پہ شفقت فرماتے تھے ۔ پھر پنکچر ہونے کی صورت میں سٹپنی بھی ساتھ ہوتی تھی۔
بلکہ سٹپنی کے بغیر تو ویسپا اچھا خاصا اجاڑ نظر آتا تھا۔ ایک عدد ڈگی ہوتی تھی، بیٹری کا خرچہ کوئی نہیں تھا۔ یہ الگ بات کہ رات کو موڑوں پہ ہر بار کلچ دبا کے ایکسیلیٹر دینا پڑتا تھا کیونکہ گھوں گھوں کی اضافی بجلی ڈینمو کو سپلائی کیے بغیر نہ لائٹ دور تک راستہ دکھاتی نہ ہارن کوئی خاص کام کرتا تھا۔
بلکہ ویسپے کے ہارن کی تو عام حالات میں بھی اپنی نوعیت کی عجیب ہی آواز تھی۔ ٹی ای ای ای… پھر ایک لمبی سی ای ی ی ی… دوبارہ دبائیں تو پھر کوئی شدید مطمئن سا اور زوال پذیر سا نیا سُر ہوتا تھا۔
تین چیزیں اوپر تلے ہوئی ہیں۔ چونکہ سردیوں کی ایک رات کا احوال ہے اس لیے ان کا ذکر کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ ایک تو ساتھ والے کمرے کا پنکھا بند ہو گیا ہے ۔ دوسرا کہیں پہ مرغا بولا ہے ۔ پتہ نہیں ادھر کس نے مرغے رکھے ہوئے ہیں، آس پاس تو سب مہذب لوگ نظر آتے ہیں جو ہر ایسا جانور رکھنے کے شوقین ہیں جس نے انڈہ نہ دینا ہو۔
انڈہ تو مرغا بھی نہیں دیتا لیکن بہرحال مرغے کی بانگ کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ اپنے کنبے سمیت آباد ہو گا۔ بہت سی اذانیں شروع ہو گئی ہیں۔ وہاں جب ہم لوگ کڑی مصری خاں میں رہتے تھے تو چمن بھائی کے ابو اذان دیتے تھے ۔ ان کی اذان کا فارمیٹ تھوڑا الگ تھا۔ وہ جگہ چھوڑنے کے بعد ان کی اذان مس کی جاتی ہے۔
اس وقت اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ بہت سی ایسی چیزیں بھول جائیں گی جو شدید ترین پیاری لگتی ہیں اور بہت سا ایسا کچھ یاد رہ جائے گا جو بالکل ایک روٹین ہے ، روز کی بات ہے ، صبح شام کی بات ہے ، پانچ وقت کی ہیپننگ ہے ، شاید ایک عادت ہے ۔
تو ویسپے کی بات ہو رہی تھی اور وہ یوں چھڑی تھی کہ بعض واقعے ایسے ہوتے ہیں جن کا دھندلا سا نقش دماغ میں ہوتا ہے اور پتہ نہیں وہ ہوئے بھی ہوتے ہیں یا نہیں ہوئے ہوتے ۔ اور واقعہ یوں ذکر میں آنے لگا تھا کہ شہر ملتان کا آسان اور چھوٹا سا ہونا ڈسکس ہو رہا تھا۔ تو وہ جو ویسپا تھا، جو بڑے ماموں کا تھا اور جو پشاور میں چلایا جاتا تھا، اسے گڈو ماموں نے کچھ دن پہلے نیا نیا چلانا شروع کیا تھا۔
ایک مرتبہ ان کے ساتھ فقیر بھی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ اب ہم دونوں قصہ خوانی پہنچ چکے ہیں۔ واجد انکل کو دیکھ کے ماموں نے سکوٹر روکا ہے یا روکنے کے بعد وہ سامنے کھڑے دکھائی دئیے، یہ صورت حال دھندلی ہے ۔ جو یاد ہے وہ معمولی سا ایک ڈائیلاگ ہے لیکن اسی کی انگلی پکڑ کر اب تک کی ساری ہفوات نگاری کی ہے ۔
واجد انکل نے پہلے تو گڈو ماموں کو ایپریشئیٹ کیا کہ واہ بھئی اب تم بھی سکوٹر چلانے لگے ہو، اس کے بعد سوال کیا کہ یار کیسا مزہ آتا ہو گا؟ ایکسیلیٹر گھمایا اور دو منٹ میں وہاں پہنچ گئے جہاں جانا تھا؟
تو سجنو شہر ملتان بھی ایسا ہی تھا، چھوٹا سا، یوزر فرینڈلی سا، پورے شہر میں کہیں بھی گھر بنا لیں ریل کی سیٹی نے صبح کو وقت بتانا ہی ہوتا تھا۔ اب تو ملتان بھی اتنا پھیل چکا ہے کہ سنا ہے ڈیفنس وہاں بنے گا جہاں کبھی سیلاب آنے پہ اس کا پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ اسی طرح کھاد فیکٹری شہر کا آخری لینڈ مارک سمجھی جاتی تھی، اب تو یہ سامنے کھڑی ہے کھاد فیکٹری، ساری وسعتیں سمٹ گئیں، نئے کنارے ، نئی لمٹس، نئی حدیں اور نئی سوسائٹیاں بن چکیں۔
تو ملتان ہو یا لاہور، نئی سوسائٹیوں میں ایک تو وہ ریل کی آواز اپنی حاضری نہیں لگواتی اور دوسرے پڑوسی کو جاننا کوئی پسند نہیں کرتا۔ جیسے وہ گھر جہاں ریل کی سیٹی سنائی دیتی تھی وہاں آس پاس جتنے گھر تھے ایک ایک کے رہنے والے کا نام یاد تھا۔ سیدھے ہاتھ پہ غنی صاحب، سامنے امجد بھائی، پھر غنی صاحب کے بعد شہزاد بھائی چمن بھائی، پھر شفیق بھائی کا گھر، پھر خالی پلاٹ، پھر اس کے سامنے والی لین میں اسد کا گھر، سہیل کا گھر، حیدر بھائی کا گھر۔
الٹے ہاتھ والی لائن پہ چلیں تو مہر صاحب، زمن خان، حاجی اسحاق، قریشی صاحب، صوفی اکرم، ماسٹر مجید، خورشید خان، جمیل صاحب، اور سامنے نکڑ پہ عبدالغفور صاحب۔ یہ گھر کا الٹا سیدھا ہاتھ ہو گیا۔ سامنے پہلا گھر وسیم بھائی، پھر نورالحق بھٹہ، پھر ماسٹر رشید، پھر اللہ بخش کی دکان، پھر ڈاکٹر عشرت، مطلب یار قسم سے بندہ چار گلیاں گنوا دے اور سب لوگوں کے حلیے تک لکھوا دے، اب ساتھ والے گھر سے اگلے میں کون رہتا ہے کیا آپ کو معلوم ہے ؟
کیا ہم ایک نیا تھیسس قائم کر سکتے ہیں کہ جن گھروں میں ریل کی سیٹی سنائی دیتی ہے ادھر رہنے والے بچوں کو پورے محلے کے نام یاد رہتے ہیں؟ نہیں۔ اب ہر نئی چیز سٹرینجر ہے ۔ ریل کی سیٹی ایک ایلین کی آواز ہو گی جو اگر ایسے کبھی سناٹے میں سنائی دے جائے ۔ اب تو یوں ہے کہ آپ کو کسی دوست کا بچہ بہت زیادہ پیارا بھی لگے تو آپ زیادہ پوچو پوچو نہیں کر سکتے ۔
بچہ یا اس کے والدین برا منا سکتے ہیں، آپ خود بھی آکورڈ سا محسوس کرتے ہیں۔ وہ جو نیچرل طریقے سے شادی بیاہ پہ نامعلوم کتنے انکل آنٹیاں آپ کے گال کھینچتے تھے اور کہتے تھے ، ماشاللہ کتنا گپلو ہو گیا، امید ہے اب وہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہو گا۔ تو کل ملا کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل اور وائی فائی کے بعد خود تو اپنے خول میں بند ہوئے ہی ہیں، ہمارے بچے بھی گھر کی دیواروں کے باہر کسی چیز سے واقفیت نہیں رکھتے ۔
وہ دس سال کی عمر میں اتنا سب کچھ جانتے ہیں جو ہم شاید ساری عمر نہ جان پاتے لیکن وہ ساری عمر اتنا انٹریکٹ نہیں کر سکتے جتنا ہم دس سال کی عمر میں آس پاس کے سارے گھروں کے رہنے والوں سے کر چکے ہوتے تھے ۔ ان کے پاس کرنے کو یہ ہوتا ہے ، ہمارے پاس کرنے کو بس وہی ہوتا تھا۔