‘پہلی ہی دہائی کا لبادہ
جب عمر پہن سکی تھی آدھا
تب کچے بدن کی شوخ مٹی
کیسی بوندوں کے نم سے مہکی ’
وہ معض تین سال کی تھی فقط تین کی ہو پائی تھی کہ اسے سو سالہ حقیقت سے روشناس کرا دیا گیا، شاید اس کے ہاتھ میں ایک گڑیا بھی تھی ہاں ابھی تو وہ رنگوں اور پینسلوں سے کھیلنا سیکھ ہی رہی تھی، ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تو اسنے مما، پاپا، آپی اور بھیا کہنا سیکھا تھا ارے ابھی چند ماہ قبل ہی تو اسنے پہلا قدم اٹھایا تھا اور ایسے میں کھلکھلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے خوب تالیاں بھی بجائی تھیں۔ وہ ننھے معصوم ہاتھ وہ پاک مسکراہٹ وہ بڑی بڑی بھوری آنکھیں اور انہی کے پاس غم والم کی تصویر وہ مجبور باپ، جی ہاں وہ فریال تھی، وہی فریال جسے تین سال کی عمر میں زیادتی کا نشانہ بنا برہنہ کر کے ٹھنڈ اور ویرانے میں پھینک دیا گیا۔ سوچتے ہوئے دماغ ماؤف ہے کہتے ہوئے زبان میں لکنت ہے اور آنکھیں نم ہیں۔
ہم کہاں کے انسان ہیں، یہ کیسی انسانیت ہے کونسا معاشرہ ہے یہ جہاں ابھی تک وہ خونی درندے پکڑے نہیں جا سکے، ارے انسان تو دور ہم حیوان کہلانے کے لائق بھی نہیں رہے۔ یقین مانیے حیوانات بھی اپنے معصوموں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے۔ ہم اخلاقی پستی کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں، اتنی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ سال کے شروع میں نوچنے کو زینب اور سال کے آخر میں فریال کا جسم چائیے ہمیں ورنہ ہماری روحوں کو سکون کہاں اور اس کے درمیان نجانے کتنی زینب اور فریال بھینٹ چڑ چکی ہیں
احباب کہتے ہیں ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے ہمیں اچھے اور خوبصورت رخ پر توجہ دینی چایئے تو مطلب کہ الو کی طرح آنکھیں بند کر لیں ہم، نہیں اتنی بے حسی اتنی گراوٹ کہ کھلتی کلیاں مسلی جایئں اور خاموشی سے اچھائی اجاگر کریں نہیں ہم سے نہ ہو پائے گا یہ ملک ہمارا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں اور وہ واحد ملک جس کی بنیاد کلمہ اور اسلام تھی۔ یہاں ایسا ہونا اور مسلسل ہونا ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ مجھے اپنے گند سے غرض ہے باہر والے اپنا بندوبست کر لیں گے۔
جب بات شروع کی جائے تو لوگ موم بتی مافیا اور فلاں ڈھمکاں اور نجانے کیا کچھ کہنے لگتے ہیں مگر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس جرم کی سالانہ تعداد 3000 سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ وہ رجسٹرڈ کیسز ہیں جو کہ اصل کی ایک تہائی سے بھی کم ہیں اور اس کا شکار ہونے والوں میں بچے، خواتین اور تیسری جنس کے لوگ سبھی شامل ہیں، ان کیسز کی تعداد پچھلے دو سال میں سب سے زیادہ دیکھنے میں آئی ہے اور شرع تقریباً 40 فیصد کے لحاظ سے بڑھی ہے اور رجسٹرڈ کیسز میں زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی کے ہی ہیں۔
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ 91 فیصد کیسز کی ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوتی۔ ایک اور سروے کے مطابق صرف لاہور شہر میں ہی جنوری سے اگست کے دوران بچوں سے زیادتی کے 156 کیسز ملے ہیں جن میں 77 لڑکیاں اور 79 لڑکے اس کا نشانہ بنے ہیں اور سب کی عمریں 6 سے 14 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں اس سے بھی زیادہ دکھ کا مقام یہ ہے کہ ان میں سے ایک کا بھی ملزم پکڑا نہ جا سکا، قانونی نظام کو سلام۔
ایک اور سروے کے مطانق سال 2017 میں 3445 لوگوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے فقط 9 کو ہی سزا مل سکی اور ہر چار میں سے تین ملزم ان کے جان پہچان والے نکلتے ہیں بچوں کو باندھ دیجئے کیونکہ پاگل کتوں کا راج عام ہو چکا ہے۔
چلیں خواتین اور لڑکیوں پر تو فحاشی، بے حیائی اور سیڈیوس کرنے کا کہہ کر بات مکا دی جاتی ہے مگر مجھے بتائیے کوئی 8، 5 اور 3 سالہ بچی کیسے سیڈیوس کر سکتی یے، اس میں ایسا کیا نظر آتا ہے کہ حیوانیت کی انتہا پر پہنچا جائے یہ کیسی بیماری کیسی غلاظت ہے جو درندگی کے اس مقام پر لے آئے جس سے شیطان بھی شاید شرماتا ہو، ارے آپ خواتین اور بچیوں کا کہتے ہیں یہ چھوٹے معصوم سات آٹھ سالہ بچے ان کا قصور کیا ان کے رویے اور کپڑوں میں انقاص لیکن رہنے دیجئیے قصور کے بے قصور سینکڑوں بچے تو بھولنے کو ہی تھے
بحیثیت قوم ہم اس اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے کو ہی گنہگار بنا دیا جاتا ہے اس کی زندگی اس قدر اجیرن کی جاتی ہے کہ نہ وہ زندوں میں رہے نہ مردوں میں۔ پہلی بات تو یہ کہ 90 فیصد کیسز میں لوگ جگ ہنسائی اور بدنامی کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں اور اگر کوئی بیچاری آمنہ فریاد کرے تو اس کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ موت کو گلے لگا لے۔
1979 کے حدود آرڈیننس میں ترامیم کر کے اسے بہتر تو بنایا گیا ہے مگر اس میں ابھی مزید اصلاحات ممکن ہیں۔ رپورٹ کا عمل چند گھنٹوں میں مکمل کرنا لازمی ہو۔ ہر ایک وکٹم سے ملتے وقت خواتین پولیس اہلکاروں کی موجودگی۔ رپورٹ کے اندراج کے بعد نمٹنے کی مدت کو عرصہ چھ ماہ سے بدل کر جلد از جلد کیا جائے اور اگر ڈی این اے کے نمونے میچ کر جائیں تو ان وکٹمز کو مزید تھانے کچہری سے دور رکھا جائے ان کی سماجی زندگی اور ذہنی سکون کے لئے اور تمام لوگوں کو باعزت پیروی کا حق دیا جائے جس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے کو بھی قرارواقعی سزا دی جائے۔
کچھ ذمہ داریاں جو آج کل کے حالات کو دیکھتے والدین کوخود نبھانا چاہیئں۔ سب سے پہلے بچوں کو سب سے ایک حد میں ملنے قریب جانے کا شروع سے بتایا جائے، اکیلے جانے اور ملنے سے ہر ممکن حد تک روکا جائے، گھریلو ملازمین مکمل جانچ پڑتال کے بعد اور قابل اعتبار لوگوں کو رکھا جائے۔ بچوں ک appropriate and inappropriate touch کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ بچوں سے ان کی روٹین ملنے ملانے والوں کے بارے میں مکمل آگاہی اور بنیادی جنسی تعلیم اور یقین مانئیے جنسی تعلیم شرمندگی نہیں بلکہ اس حیوانیت سے بچنے کا ہی ایک حل ہے۔ اور ایک اپیل کہ خدارا ان معصوم کلیوں اور پھولوں کے مسلنے کچلنے والوں کو سرعام بیچ چوراہے لٹکایا جائے تاکہ دوبارہ کوئی زینب کوئی فریال اپنا بچپن لے کے ابدی نیند نہ سوئے۔ اور جاتے جاتے بتاتی چلوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں بچوں سے جسمانی تعلقات کے شوقین حضرات کا ایک بڑا حصہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے ۔