مہنگائی کا رونا روتی خواتین کو سب سے زیادہ بے جا اسراف کرتے دیکھا گیا ہے اگر ہمارے یہاں ریسرچ کا کوئی سلسلہ ہوتا تو یقیناً بات ثابت ہو جاتی ۔ ہم سب سے زیادہ جہیز کا رونا روتے ہیں ۔ شادیوں کے اخراجات کا رونا روتے ہیں ۔
شادی کرنا ہما رے معاشرے میں ایک مشکل ترین مسلۂ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ہم سادگی اور جہیز کا راگ الاپتے رہتے ہیں دوسری طرف جن فضولیات پر ہم خرچ کرتے ہیں اسے ہم حساب میں ہی نہیں رکھتے بلکہ ہمیں وہ فضولیات ہی سب سے زیادہ اہم لگ رہی ہوتی ہیں ۔ اور اس میں سب سے زیادہ اہم کردا ر ادا کرتے ہیں بلکہ کررہے ہیں ۔ ہمارے مارننگ شوز اور خواتین جن کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا سب سے اہم موقع ہے جو دوبارہ نہیں آئے گا اس لیے آپ اس کو بھرپور طریقے سے مناؤ دل کھول کر خرچ کرو (خواہ بعد میں ادھار ہی چکاتے رہو) ہماری ذہن کی یادداشت میں ایک مارننگ شو ہے جس کی شروعات ” نیلم کے خواب ”سے شروع ہوئی ہم اس چکر میں اپنا آدھا گھنٹہ برباد کر گئے کہ شائد کوئی ایسی بات ہو جس سے کوئی سبق حاصل ہو ۔
مگر حقیقتاً ہم نے سر پیٹ لیا جب پتا چلا کہ نیلم کا خواب اپنی شادی کی کوریج کروانا ہے ۔وہ بھی اسی چینل پر ، ایک ایسی لڑکی جو اپنے آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ ایک کمرے گھر میں رہ رہی ہے اس کا خواب یہ ہے کہ بس اس کی شادی بے انتہا زبردست طریقے سے ہو جائے خواہ بعد میں فاقوں مرنا پڑے ۔ اور اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے میڈیا سر گرم عمل ہے ۔
ہمارا مقصد یہاں میڈیا کو برا کہنا یا ان پر تنقید کرنا نہیں یہ کام ہم بہت اہتمام کے ساتھ کسی اور مضمون میں کریں گے ابھی تو ہم ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو مہنگائی سے پریشان ہیں ، جہیز سے پریشان ہیں ، مگر میک اپ اور مووی تصاویر پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں ۔
شادی کرنا ہما رے معاشرے میں ایک مشکل ترین مسلۂ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ہم سادگی اور جہیز کا راگ الاپتے رہتے ہیں دوسری طرف جن فضولیات پر ہم خرچ کرتے ہیں اسے ہم حساب میں ہی نہیں رکھتے بلکہ ہمیں وہ فضولیات ہی سب سے زیادہ اہم لگ رہی ہوتی ہیں ۔ اور اس میں سب سے زیادہ اہم کردا ر ادا کرتے ہیں بلکہ کررہے ہیں ۔ ہمارے مارننگ شوز اور خواتین جن کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا سب سے اہم موقع ہے جو دوبارہ نہیں آئے گا اس لیے آپ اس کو بھرپور طریقے سے مناؤ دل کھول کر خرچ کرو (خواہ بعد میں ادھار ہی چکاتے رہو) ہماری ذہن کی یادداشت میں ایک مارننگ شو ہے جس کی شروعات ” نیلم کے خواب ”سے شروع ہوئی ہم اس چکر میں اپنا آدھا گھنٹہ برباد کر گئے کہ شائد کوئی ایسی بات ہو جس سے کوئی سبق حاصل ہو ۔
مگر حقیقتاً ہم نے سر پیٹ لیا جب پتا چلا کہ نیلم کا خواب اپنی شادی کی کوریج کروانا ہے ۔وہ بھی اسی چینل پر ، ایک ایسی لڑکی جو اپنے آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ ایک کمرے گھر میں رہ رہی ہے اس کا خواب یہ ہے کہ بس اس کی شادی بے انتہا زبردست طریقے سے ہو جائے خواہ بعد میں فاقوں مرنا پڑے ۔ اور اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے میڈیا سر گرم عمل ہے ۔
ہمارا مقصد یہاں میڈیا کو برا کہنا یا ان پر تنقید کرنا نہیں یہ کام ہم بہت اہتمام کے ساتھ کسی اور مضمون میں کریں گے ابھی تو ہم ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو مہنگائی سے پریشان ہیں ، جہیز سے پریشان ہیں ، مگر میک اپ اور مووی تصاویر پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں ۔
ہمیں سب سے زیادہ اعتراض دولہن کے میک اپ پر ہوتا ہے ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ اس بات پر بہت سی خواتین نے ہم پر انگلی اٹھانی ہے ، تو بات یہ ہے کہ اس بات پر ہم شادی سے پہلے بھی قائم تھے اور شادی کے وقت بھی قائم رہے تھے ۔
ہم صرف خواتین کو اس بات کا احساس دلانا چاہتے ہیں کہ کچھ گھنٹے کی تقریبات کے لیئے ہم خواتین کتنے پیسے برباد کردیتی ہیں ۔ اگر صرف میک اپ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو بات ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔ اور وہ لڑکیاں جنہیں برانڈڈ میک اپ استعمال کرنے کا شوق ہوتا ہے وہ خود بھی اپنا میک اپ کر نے سے قاصر ہوتی ہیں ۔
ہم نے اچھی خاصی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو دیکھا ہے کہ اس اہم موقع پر ان کی عقل کہیں جا کے سو جا تی ہے ۔ نامی گرامی بیوٹی پاالر سے میک اپ کروایا جاتا ہے شکل ویسے بہت اچھی ہوتی ہے مگر ہیوی میک اپ کی وجہ سے دور دور سے اچھی بھی لگ رہی ہوتی ہیں اور تصاویر میں تو حسن کی پری لگ رہی ہوتی ہیں ۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کس کو دھوکہ دے رہی ہوتی ہیں اتنے ہیوی میک اپ اور تصاویر کے بعد ہمیں عام زندگی میں اسی چہرے کے ساتھ گھومنا ہے لوگوں سے ملنا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ زندگی کے اس اہم موقع پر بھی کچھ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر لیا جائے۔ آج کے زمانے میں پیسا کمانا سب سے مشکل ترین کام ہے اور سب سے آسان کام پیسہ اڑانا ہے اور ہم خواتین کو اس بات کا احساس تک نہیں ہو تا کہ ہم اپنے ایک بالشت کے منہ پر ہزاروں روپئے آٹھ نو گھنٹے کے لیے خرچ کر دیتے ہیں اور ظاہر ہے بعد میں جب منہ کو صاف بھی کرنا ہوتا ہے تو یوں سمجھیں آپ نے ہزاروں روپئے پانی میں بہا دیئے ۔
حالانکہ مستقبل کی منصوبہ بندی اگر سوچ سمجھ کر کریں تو ان پیسوں میں کتنی اہم چیزیں تھی جو وہ خود خرید سکتی ہیں ۔
اب ذرا بات کرتے ہیں تصاویر کی، چالیس ہزار اور پچاس ہزار کی قیمت کی تصاویر تک کا تو ہم سن چکے ہیں جو شادی کے بعد دلہن بڑے فخر سے ایلبم دکھاتے ہوئے بتاتی ہے کہ میری شادی کی فوٹو گرافی فلاں مشہور ماڈل کے فوٹو گرافر نے کی تھی ۔
اب آجاتے ہیں دلہن کے عروسی لباس پر جو کہ دلہن صرف ایک دن پہنتی ہے اور اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور آج کل تو برانڈ کا زمانہ ہے پھر قیمت کا اندازہ بھی لگالیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم جہیز کو لعنت قرار دے کے ان خرافات کو سینے سے لگا کر بیٹھے ہیں اور ان میں روزبروز اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ یہ لاکھوں کا جوڑا جو دلہن صرف ایک رات پہنتی ہے او ر دوسرے دن پہننا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے ۔ اور اس بات کی حمایت پورا خاندان کرتا ہے۔
شرعی طور پر نکاح کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے ہمیں لگا کہ شرعی طور پر رخصتی بھی ہوگی مگر جناب یہاں بھی ہم صرف اپنے اخراجات کو ہی بڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ پہلے شرعی طور پر مسجد میں نکاح ہوتا ہے اور اس کے بعد دولہا اور دولہن کو چونکہ ایک ساتھ ہر فنکشن میں ساتھ بیٹھنے کا لائسنس مل جا تا ہے تو پھر بات مایوؤں سے شروع ہوتی ہے اور ہوٹل اور بینکوئٹ پر جا کے ختم ہوتی ہے۔
ہم نے ایک فریضے کو کمرشلائز بنا لیا ہے۔ یہ تصاویر ، میک اپ اور جوڑے صرف چند دن کی کہانی ہے اصل ضرورت نئے شادی شدہ جوڑے کو نئی زندگی کی شروعات کرنے کے لیئے کچھ اہم چیزوں کی ہوتی ہے ۔ اگر اس کے مطابق کام کر لیا جائے تو شادی ایک بوجھ نہ لگے۔
ان فضول کاموں میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے آئندہ زندگی گذارنے کا لائحہ عمل پر پیسے خرچے کیئے جا سکتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی چہیتی بیٹی کو بھی نئی زندگی کی شروعات کے لیئے ضرورت کا سامان دیا تھا ۔
لیکن ہمارا یہ مزاج بنتا جا رہا ہے کہ ہم ضرورت پر خرچ کرنے کی بجائے فضولیات پر خرچ کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور اسی کو اہم گردانتے ہیں۔