عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ پاکستان
میں 21 فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف
چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی
شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے 2020 تک دس سال کے عرصے میں کم
عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14 کروڑ ہوگی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد کم عمر بچیاں
بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا
تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔
کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں
75 فیصد بچیوں اور 25 فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کم
عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں 99 فیصد بچیاں کم
عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا
مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہوا ہو، بچوں اور بچیوں دونوں کے بنیادی انسانی
حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں۔
بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے
مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 50 لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی
عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم
عمری میں شادی کر جاتی ہے۔
کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے
جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث
بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی
صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور
ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی
فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر
کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔