بلوچستان میں جعلی ادویات کا مکروہ دھندہ

 
محکمہ صحت حکومت بلوچستان نے ڈرگ ایکٹ 1976 کے شق 44 کے تحت بلوچستان ڈرگ رولز کا اجراء کر دیا ہے، جس میں پہلے مرحلے کے تحت ڈویژن کی سطح پر ڈویژن کے کمشنر کوالٹی کنٹرول بورڈ کے سربراہ ہوں گے جس میں ڈپٹی کمشنرز، ڈرگ انسپکٹرز فارماسسٹ، محکمہ صحت کے حکام پر مشتمل ہوگا اس ایکٹ میں ترمیم ٹاسک فورس و محکمہ صحت میں اصلاحاتی ایجنڈا کے تحت کیا جا رہا ہے جو جعلی ادویات کے غیر قانونی مکروہ دھندے سے منسلک لوگوں اداروں اورمعاونت کاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے قانون کے شکنجے میں لائے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ مریض اور ڈاکٹر میں رشتہ داروں جیسا تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی مریض رشتے داروں سے زیادہ بھروسا اپنے معالج پر کرتا ہے۔ مریض کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا معالج اس کی غلط تشخیص کرے گا۔ مریض یہ سوچ کے ہسپتال جاتا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے معالج کی ادویات سے صحت یاب ہو جائے گا لیکن افسوسناک خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثر معالج حضرات مریضوں کو اپنا گاہک سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ معالج اور ادویات ساز کمپنیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ یہ گٹھ جوڑ مریضوں کے لئے وبال جان  بن رہا ہے۔
حتاکہ محکمہ صحت حکومت بلوچستان نے دن کے اوقات میں پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کی پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ بلوچستان میں اتائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی بھرمار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اوپر سے یہ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کو ہر ماہ کروڑوں کا منافع کما کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے بلوچستان میں عام لوگوں پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں۔
آج بھی اکثر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بلوچی علاج معالجہ بھی کیاجاتا ہے جو مختلف جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ علاج غریب لوگوں کے لیے موت کا سبب بن رہا ہے۔ اب تو بلوچستان میں طب کا شعبہ کوڑیوں کے داموں بک رہا ہے بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں کی حالت دیکھ کر مریض خودبخود موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
آج بھی بلوچستان میں ادویہ سازی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے پر کسی بھی دوسرے کاروبار سے کہیں زیادہ منافع ملتا ہے اور محض معاشی طور پر بلوچستان کے با اثر صنعتکار ہی اس صنعت کو شروع کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ دنیا میں انسانیت نے اس دورِ جدید میں جس شعبے میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ میڈیکل سائنس ہے۔ اس کی بدولت دنیا کے انسانوں کی زندگیاں بڑھ رہی ہے مگر بلوچستان میں سب کچھ الٹا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اوسط عمر بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے۔

ویسے بھی انسانی زندگی میں یہ عمل جدید سائنسی دور میں ترقی کے بجائے تنزلی کی علامت ہے۔ کاش بلوچستان کے ڈاکٹر اپنی ذاتی خواہشات کو انسانی ترقی، انسانی آسودگی اور ان کی خوشحالی کے لیے وقف کردیں اور اپنے قیمتی وقت کو انسانی محبت کے لیے قربان کردیں تو بلوچستان ضرور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، ان شاء اللہ۔