کل میں بستر میں لیٹ جائوں گا، میں نے جواب دیا جب میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ اگلے دن کا ارادہ کیا ہے۔
کیوں، کل کیا خاص بات ہے؟ دوست نے سوال کے جواب میں ایک اور سوال داغ دیا۔
کل ….. ارے بھئی کل ….. کل بستر میں لیٹنے کا عالمی دن ہے!
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں اور کیسے کہوں کہ یہ تو میری ہر دن کی خواہش ہوتی ہے۔ صبح سویرے نرم نرم بسر میں کچھ دیر اورلیٹے رہنے کا موقع مل جائے۔ مگر پھر دیکھتا ہوں کہ کھڑکی سے دھوپ چھن چھن کر آرہی ہے۔ ناچار بستر چھوڑنا پڑتاہے۔ کاش کوئی دن ایسا بھی ہو کہ میں آتی دھوپ کو دیکھ کر آنکھیں میچ لوں اور ایسا بن جائوں کہ کوئی آتا ہے تو آئے، میں نے دیکھا ہی نہیں۔ اور جب دیکھا ہی نہیں تو مجھ پر لازم بھی نہیں آتا۔
لیکن ایسا کہاں ہو پاتا ہے؟ مجھے بستر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور پھر یہ خواہش لے کر اگلے دن کا انتظار۔
اسی لیے سوچا کہ بستر میں لیٹے رہنے کی اس دیرینہ خواہش کو بھلا سا نام دے دوں۔ بین الاقوامی نام اچھا رہے گا۔ آج کل جس دن دیکھیے کوئی نہ کوئی خاص بات ہے۔ فلاں کا دن۔ ڈھکاں کا دن۔ یہ دن، وہ دن، عورتوں کا دن، بچوں کا دن، مزدوروں کا دن، ڈاک کا دن، امن کا دن، جانوروں کے حقوق کا دن، اقوام متحدہ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ایک دن کاہلوں کا بھی ہونا چاہیئے۔ ضرور سوچا ہوگا، اتنے مستعد تو وہ بہرحال نہیں ہیں۔ سوچا ہوگا مگرپھر خیال آیا ہوگا، اس دن کی تیاری کون کرتا پھرے۔
کہنے کو تو میں نے اپنے دوست کو وقتی طور پر چُپ کرا دیا۔ لیکن پھر بستر میں لیٹے رہنے کے اس بین الاقوامی دن کا خیال میرے دل میں بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ بستر میں لیٹ کر اس کے بارے میں تھوڑا اور سوچتا ہوں۔ بستر میں لیٹ کر سوچا بھی خوب اچھی طرح جا سکتا ہے۔ میرا تجربہ تو یہی کہتا ہے۔
بستر میں لیٹنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ بستر میں لیٹنا محض اک منفعل عمل نہیں ہے کہ آپ کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے تو آپ یوں ہی جا کر لیٹ گئے۔ یہ بے کاری کا مشغلہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے مُثبت توانائی چاہیئے۔ یہ شعوری ارادے کا عمل ہے۔ آپ کے پاس بہت کام ہیں مگر آپ نے باقی سب باتوں کو منسوخ کرکے یہ طے کیا اور پھر جا کر لیٹ گئے، بقول غالب، تہیّہ طوفان کیے ہوئے۔ پھر طوفان کی تیاری پوری ہو، طوفان آئے نہ آئے، آپ کو بستر میں ڈٹے رہنا ہے۔ اپنی جگہ سے نہیں اُٹھنا۔ لیٹیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں اٹھائے کیوں۔
بستر میں لیٹنا اتنی معمولی بات بھی نہیں ہے کہ کسی نے آواز دی اور آپ اٹھ گئے۔ دروازے کی گھنٹی بجی اور آپ نے مُنھ پر سے چادر ہٹا دی۔ گھنٹی بجتی ہے تو بجتی رہے۔ بج بج کر بند ہو جائے گی، وقت بے وقت آنے والا خود ہی چلا جائے گا ورنہ کوئی اور دروازے کو دیکھ لے گا۔ آپ کا ارادہ اس قدر کم زور اور بودا نہیں ہونا چاہیئے کہ ذرا سی مداخلت پر ٹوٹ گیا۔ یاد رہے کہ بستر میں لیٹے رہنا آپ کا شعوری انتخاب ہے بلکہ آج کل کے سیاسی ماحول میں، یہ آپ کا جمہوری حق ہے۔ ہماری مرضی ہے، ہم لیٹے ہوئے ہیں۔
پھر یوں بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ بغیر کسی تیاری کے جا کر بستر پر لیٹ گئے۔ پورے دن کی تھکاوٹ کے بعد جوتے موزے اتارے بغیر، کپڑے بدلے بغیر بستر پر ڈھیر ہوگئے۔ لیٹنا تو تب ہوا جب آپ پوری تیاری کرکے لیٹیں۔ صبح سویرے کے سارے معمولات پورے کیے۔ مُنھ دھویا، اُسترا پھیرا، حجامت بنائی یعنی کہ اپنی ہی۔ بال بنائے اور وہ سب کچھ کیا جو صبح اٹھ کر دفتر جانے کے لیے کرتے ہیں۔
چلیے، ناشتہ بھی کر لیا اور چائے بھی پی لی کہ پھر کوئی اور بہانہ، کوئی لالچ نہ دل میں آجائے۔ اس مسافت میں کوئی ترغیب، کوئی temptationنہ آنے پائے۔ آپ کو ثابت قدم رہنا ہے۔ صبح کے سارے معمولات پورے ہوئے، آپ اٹھے اور چل دیے، مگر الٹی طرف، گھر کے دروازے سے نکل جانے کے بجائے آپ الٹے پیروں بستر کی طرف آ گئے جو محبوب کی آغوش کی طرح گرم ہے اور دعوت دے رہا ہے۔ بس آپ لیٹے چاہیے اور اس کے بعد تصّور جاناں کی شرط بھی نہیں۔
اصلی کامیابی بستر میں لیٹنا اور کچھ نہ کرنا ہے۔ ورنہ آپ سوچتے رہ جاتے ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے لیے بستر سے اچھی کوئی اور جگہ نہیں۔ بعض لوگ اس حالت میں اخبار پڑھتے ہیں، بعض لوگ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں، مگر میرے خیال میں ٹیلی وژن اس وقت دیکھنا چاہیئے جب گھر والوں کی گفتگو زور و شور سے جاری ہو یا دوستوں کی محفل میں گپ شپ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی ہو۔ ٹیلی وژن ایسے موقعوں پر قینچی کا کام دیتا ہے۔ ٹیلی وژن نہیں تو اپنا ٹیلی فون نکال لیجیے۔۔۔ آپ خود بھلے گھامڑ ہوں، ٹیلی فون کا اسمارٹ ہونا ضروری ہے۔ ایک ایک کرکے سارے سوشل میڈیا کھنگال ڈالیے۔ خود میں نے بھی بستر میں لیٹے لیتے اپنے آپ کو بارہا اس کیفیت میں پایا۔ پھر شرمسار ہوکر آپ ہی بند کر دیا۔ یہ ٹیلی فون کی نہیں، بستر میں لیٹنے کی توہین ہے۔
بستر میں لیٹ کر آپ چھت کو بھی تک سکتے ہیں اور دیوار کو بھی جہاں پچھلی بارش نے ایک چہرہ سا بنا دیا ہے۔ غور سے دیکھیے، یہ چہرہ آپ سے باتیں کر سکتا ہے، بہت سی کہانیاں سُنا سکتا ہے۔ ایسی کہانیاں جو صرف بستر میں لیٹ کر سُنی جاسکتی ہیں۔
اصل میں بستر صرف سونے کے لیے ایجاد نہیں ہوا۔ بلکہ یہ لیٹنے کے لیے بنا ہے۔ اور بستر میں لیٹنے کا یہ مطلب حکیم بقراط نے بھی یہ نہیں بتایا کہ لیٹے اور سو گئے۔ بستر میں لیٹنے کا اصل لُطف تو دیر تک جاگنے میں ہے۔ نیند آ گئی اور بے سدھ سو گئے تو پھر بستر کا کیا فائدہ؟ کہتے ہیں کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ پھر بستر اتنی دیر کے لیے ضائع ہوا۔ کوئی اور اتنی دیر لیٹ جائے اور بستر میں لیٹنے کے مزے لوٹ لے۔
بستر میں لیٹنے کے اپنے بہت مزے ہیں مگر میرا پسندیدہ مشغلہ بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنا ہے۔ اس میں کوئی مفاہمت نہیں چل سکتی۔ بستر میں لیٹ کر پڑھنے کے لیے میں ادبی اصناف کی پابندی نبھانا لازمی سمجھتا ہوں۔شاعری کو اگر آپ پڑھنے کی چیز سمجھ لیں تب بھی اس کے لیے لیٹنے کی شرط ضروری نہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ شاعری چلتے پھرتے پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن جو مزہ ناول پڑھنے میں ہے، وہ بات ہی الگ ہے۔ یہ نہیں کہ دنیا مافیہا سے بے خبر ہوگئے بلکہ نادل کی دنیا مافیہا میں داخل ہوگئے۔ اس بات میں شاید کوئی نکتہ ہے، کسی دن اس پرغور کروں گا بستر پر لیٹ کر۔
کسی دن کیوں؟ بہت سے دن ہیں۔ بستر میں لیٹنے کا عالمی دن۔ بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنے کا دن۔ بستر میں لیٹ کر سوچتے رہنے کا دن۔ دن ہی کیا، پورا ہفتہ ،مہینہ۔ دو دن کی زندگی میں ایک دن بستر میں لیٹنے کے لیے۔