خواتین کو عزت دو صرف زبان سے نہیں دل سے۔ ورک پلیس ہراسمنٹ ایک مسئلہ جو خواتین کی ترقی و کامیابی کا سب سے بڑا دشمن بنتا دکھائی دیتا ہے۔
ہراسمنٹ جسے عرف عام میں ہراساں کیا جانا کہتے ہیں ایک عالمی مسئلہ بنتا جارہاہے یا یوں کہ لیں کہ یہ مسئلہ تو شاید ازل سے ہی تھا تاہم وقت اور زمانے کی تیز رفتار ترقی میں بڑھتے ہوئے خواتین کے کردار نے اس مسئلے کو بھی پر لگا دیے ہیں۔ پہلے زمانے میں اگر پانچ فیصد خواتین ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں تو آج کے زمانے میں یہ تعداد کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے اور کسی نہ کسی طرح ملک و قوم کی ترقی میں زیادہ یا کم اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
یہ تناسب جہاں ایک جانب بیحد خوش آئند ہے وہیں دوسری جانب ان ملازمت پیشہ خواتین کے لیے مسائل کا باعث بھی بن رہا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں جہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو خواتین کی ترقی و کامیابی کے ناصرف دل سے قائل ہیں بلکہ صحت مند معاشرے کی تعمیر میں خواتین کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کرتے نظر آتے ہیں وہیں بد قسمتی سے معاشرے میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں ہیں جو خواتین کی ترقی کے ناصرف مخالف ہیں بلکہ اس حوالے سے جہاں اور جیسے ممکن ہوتا ہے اپنا منفی کردار بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں تاکہ خواتین آگے آکر ان کو ہی پہچھے نہ کردیں۔
خواتین سے پہچھے رہ جانے کا خواف اکثر مردوں کو اس حد تک پریشان کردیتا ہے کہ وہ اپنی مثبت صلاحیتوں کے اظہار سے بھی محروم ہوتے جاتے ہیں۔ ۔ رنگ رنگیلے چھیل چھبیلے امیڈیئیٹ باسز تو انٹرنز کو دیکھ کر جیسے آپے سے ہی باہرہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھلے باقی آفس کے لوگ ان کا مذاق بھی اڑائیں مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ باتیں تو شاید ہم مذاق سمجھ کر درگزر کر بھی سکتے ہیں مگر ملاذمت کے لیے آنے والی خواتین کو جو سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کام میں تیز ہیں اور کام کے ذریعے آگے برہنے پر یقین رکھتی ہیں تو ان کے ساتھی ان سے ایک طرح کا بیر باندھ لیتے ہیں اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو ایک خاتون کے کردار کو مشکوک بنادینا تو بڑی عام سی بات ہے۔ حالانکہ جو لوگ خواتین کے بارے میں الٹی سیدھی افواہیں پھیلاتے ہیں ان کو ایک لمحے کو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بھی سوچ لینا چالہیے کہ اگر اس خاتون کی جگہ ان کی اپنی کوئی بہن بیٹی ہو تو ان کو کیسا محسوس ہوگا!
خواتین کو ان کے کام کی جگہ پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے ”ُپروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ دیئر ورک پلیس ایکٹ 2010“ کے نام سے ایک قانون بھی پاس کیا گیا ہے جس کے تحت ہر ادارے میں کمیٹی کی تشکیل کو لازمی قرار دیا ہے جو ادارے کے اندر ان تمام معاملات کی روک تھام کے لیے کام کرے گی۔ اس ایکٹ کے تحت قانون کے مطابق ضابطہ اخلاق پر عملدرآمدہراسمنٹ کمیٹی کی اولین ذمے داری ہے۔ علاوہ ازیں قانون کے مطابق ہراسگی کے حوالے سے آنے والی شکایات پر فوری طور پر غور اور ہنگامی بنیادوں پر ان کا حل بھی ہراسمنٹ کمیٹی کی
زمے داریوں میں سے ایک ہے۔ ادارے کے ملازمین کو ہراسگی کے حوالے سے ضروری معلومات فراہم کرنا اور اس حوالے شعور بیدار کرنا بھی کمیٹی کا ہی کام ہے تاکہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر میں خواتین کو کام کرنے کے لیے معیاری ماحول فراہم کیا جاسکے۔ قانوناً یہ ذمے داری بھی اداروں میں قائم ہراسمنٹ سیلز کو ہی تفویض کی گئی ہے۔ جناب یہ تو ہوگئی بات قانون کی، جو کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے اب سے آٹھ برس پہلے بنایا گیا مگر قانون کا بننا اور اس پر عملدرآمد بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو دو الگ الگ باتیں ہی تصور کی جاتی ہیں۔
لوگ قانون بنائے جانے کا خیر مقدم تو زور و شور سے کرتے ہیں مگر جب انھیں قوانین پر عمل کرنے کی باری آتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ حال ہراسگی کے حوالے سے بننے والے قانون کا بھی ہوتا نظرآتا ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جہاں بے حد فخر سے یہ اعلان کیا جاتا ہے بلکہ ببانگ دحل کہا جاتا ہے کہ بھئی ہمارے ادارے میں تو باقاعدہ ہراسمنٹ سیل ہے جہاں خواتین کو درپیش کسی بھی مسئلے کا فوری بنیادوں پر حل نکالا جاتا ہے مگر ان اداروں کے حال پر بھی وہ ضرب المثل پوری اترتی ہے کہ خوان بڑا خوان پوش بڑا۔ کھول کے دیکھا کھل کا ڈلا۔
یعنی ان اداروں کا نام تو شاید بہت بڑا ہے ملک میں ان کے ادارے کو چند اچھے اداروں میں شمار کیا جاتاہے۔ یہاں ہم یہ وضاحت کردیں کہ ہم کو ایسے اداروں کی اچھائی پر کوئی شبہ نہیں مگر جب بات ہراسگی کے حواکے سے کی جاتی ہے تو پھر ادارے کی ساری اچھائی ایک طرف اور یہ معاملات ایک طرف ہیں۔ ایک ادارہ بہت اچھا ہوگا مگر اگر اس ادارے میں کام کرنے والی خواتین ہی وہاں کام کرنے والے کچھ افراد کی وجہ سے مسائل کا شکار ہوتی ہیں یا مجبوراً ادارے کو چھوڑ جاتی ہیں تو پھر آپ ہی فیصلہ کریں کیا وہ ادارہ واقعی اچھا کہلائے گا؟
ہمارے ملک میں ایسے کئی ادارے ہیں جہاں ہراسمنٹ سیل بناکر اس کی انچارج کسی خاتون کو بنادیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ خاتون ہونے کے ناطے شاید زیادہ بہتر طور پر مددگار ثابت ہوسکیں گی مگر کیا کہا جائے ایسی خواتین انچارج کا جو ہراسمنٹ سیل کے نام پرسوالیہ نشان ہیں اور جو ایک خاتون کی مدد کے بجائے طاقتور باس کا ساتھ دینا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں اور شاید وہ اپنی جگہ تھیک ہی ہیں کیونکہ دنیاوی فاوئدہ تو اسی میں ہے جکہ طاقتور کا ساتھ دیں انصاف کا کیا ہے وہ تو دوسری دنیا میں بھی ہوجائے گا۔
ہم ان خواتین کو تو کچھ نہیں کہ سکتے مگر ان اچھے اداروں سے ہماری گزارش ضرور ہے کہ خدارا آپ کے ادارے ملک کے بہترین ادارے سمجھے جاتے ہیں جہاں لوگ کام کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں تو آپ کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اچھے ادارے کے برے لوگوں پر بھی ایک نظر ڈالیں اور ان کالی بھیڑوں کاقلع قمع کریں تاکہ کوئی خاتون آپ کے ادار ے سے محض اس لیے نہ جائے کہ یہاں اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور دنیا یہ نہ کہے کہ دیکھو کہ برا کرنے والے کا انجام ہمیشہ برا نہیں ہوتا۔
یہ موضوع اپنے اندر بہت سے دیگر موضوعات کو بھی سمیٹے ہوئے ہے تاہم ہمارا مقصد یہاں لوگوں کو صرف اتنا بتانا ہے کہ ہراسمنٹ یا ورک پلیس ہراسمنٹ آج کے معاشر ے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں اس حوالے سے ضروری شعور تو بیدار کیا ہی جائے تاکہ بہت سے لوگ جن کو شاید یہ نہ پتا ہو کہ ان کی کچھ باتیں جو شاید ان کی عادت ہی ہوں مگر دنیا کی نظر میں وہ ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتی ہیں۔
ہراسگی کی بھی کچھ اقسام ہوتی ہیں جیسے کہ امتیاز برتنا۔ نفسیاتی طور پر ہراساں کرنا یا طاقت کے بل بوتے پر ہراساں کرنا وغیرہ یہ وہ باتیں جن کا ادراک موجودہ دور میں خواتین کے تو بے حد ضروری ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ والدین بھی جب اپنی بچیوں کو ملازمت کرنے کے لیے کسی ادارے میں بھیجیں تو پہلے ان کے ذہنی طور ان تمام باتوں کے لیے بھی تیار کردیں تاکہ اگر ان کو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو خود کو اس سے نمٹنے کے قابل بناسکیں۔
کام کی جگہ پر ہراساں کیا جانا آج کل ایک عام مسئلہ بن گیا ہے جس کا کسی نہ کسی طرح شکار ہونے والی خواتین اب اس پر بات تو کرتی ہیں مگر اب بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ اس سے نمٹا کیسے جائے اور دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ کیسے اس موثر انداز سے پیش کیاجائے کہ لوگ آپ کے مسئلے کو مسئلہ سمجھیں ناکہ اس کا مذاق ہی بناڈالیں۔ ساتھ ہی یہاں ہم ایک گزارش ہراسمنٹ سیل کی انچارجز سے بھی کرنا چاہیں کہ خدارا خود کو خاتون پہلے سمجھیں انچارج بعد میں آپ کے ایک گلط فیصلے سے کسی کی زندگی پر کس حد تک دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس کا انداز ہ آپ کو شاید آج نہ ہو مگر ہم کو یقین ہے کہ کل جب آپ کا کوئی قریبی اس طرح کی صورتحال میں ہوگا تو اس کا درد آپ کو بھی ماضی کی کسی غلطی کی یاد دلاسکتا ہے تو مکافات عمل سے بچنے کی ایک کوشش کیوں نہ ابھی کرلی جائے!
آخر میں ایک گزارش ان لوگوں سے بھی جن کے رویوں کی بدصورتی خواتین کا سالہا سال کا کیریئر تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے تو جناب کہنا آپ سے بھی یہ ہی ہے کہ دنیا میں خود کو خدا نہ سمجھیں ابھی فیصلے کی گھری ہنوز باقی ہے جہاں آپ کو اپنے رویوں کی سزا بھگتنا ہوگی اور وہاں کوئی ایسا نہ ہوگا جن کی خوشامد کرکے دنیا میں آپ اپنی نوکری اور پوزیشن مضبوط کیا کرتے تھے۔ تو قبل اس کے کہ وہ وقت آجائے ذرا سوچئیے!