رضوانہ قائد
”جہیز خوری بند کرو“ کے سلوگن کے ساتھ جہیز مخالف مہم سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ سیلبریٹیز اس سلوگن کے ٹھپے لگے ہاتھوں کے ساتھ اپنی تصویروں کے ذریعے اپنا احتجاج ظاہر کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظِ نسواں کے پاکستان چیپٹر نے اس مہم اور سلوگن کو متعارف کروایا ہے۔ حیرت ہے، اقوامِ متحدہ کو روہنگیا، کشمیر، فلسطین میں خواتین پر ظلم سے زیادہ پاکستان میں جہیز ہی کا ظلم کیسے کھٹک گیا؟ پسِ پردہ حقائق اپنے وقت پر سامنے آ جائیں گے۔
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، ”جہیز خوری بند کرو“، اس مہم کا بنیادی ہدف لڑکا اور اس کے گھر والے ہیں۔ جہیز، شادی کی ظالمانہ رسم ہے۔ مگر یہ صرف ایک ہی نہیں، دیگر رسومات بھی ہیں۔ اس ضمن میں کسی ایک فریق کو مکمل طور پر موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں، دونوں ہی اس ظلم میں شریک ہیں۔ لڑکے والوں کا قصور کچھ زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ، لڑکی والے مجبور ہوتے یا کر دیے جاتے ہیں۔ جب کہ لڑکا، شادی کے موقع کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کے سدِ باب کے لیے بھی دونوں ہی فریقوں کی کوششیں اور باہمی تعاون ضروری ہیں۔
”جہیز“ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی اس سامان کے ہیں جو (کسی کے لیے ) تیار کیا جاتا ہے۔ عرفِ عام میں جہیز کے معنی وہ ساز و سامان ہے جو نکاح کے وقت لڑکی کے سرپرستوں کی جانب سے اس کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
یہ خالصتاً دنیاوی رسم ہے جس کا نکاح کی سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ عرب میں نکاح شادی کے وقت لڑکی کو جہیز کے نام پر سامان دینے کا تصور تک نہ تھا۔ اور نہ ہی جہیز کا لفظ اس طرح کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔
ہمارے ہاں حضورﷺ کی جانب سے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دینے کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کا رشتہ آنے پر ان سے مہر کی رقم کا سوال کیا۔ حضرت علیؓ کے پاس ایک گھوڑا اور ایک زِرہ تھی۔ مشورے سے اس زرہ کو فروخت کر کے مہر کی رقم ادا کی گئی۔ آپﷺ نے اس رقم سے حضرت علیؓ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے گھر کا ضروری سامان خریدا۔ جس میں ایک چادر، ایک تکیہ، ایک چکی اور ایک مشکیزہ شامل تھا۔
اس طرح کا کوئی سامان آپﷺ نے کسی دوسری صاحبزادی کو نہیں دیا۔ اور حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان میں تا زندگی کوئی اضافہ بھی نہ کیا۔ اس کی بھی مثال ہے۔ گھر کے کام کاج چکی پیسنا اور کنوئیں سے پانی کھینچنے کے باعث حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ آپﷺ کے پاس کچھ غلام آئے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ اور فاطمہؓ نے تکلیفوں کا بتا کر ایک غلام کا تقاضا کیا۔ آپﷺ نے ایسا نہ کیا اور 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر کا وظیفہ عطا فرمایا کہ یہی تمھارے خادم ہیں، اس سے تمھارے تمام مشکل کام آسان ہو جائیں گے۔ یہ وظیفہ پا کر دونوں میاں بیوی خوش ہو گئے۔ اس وقت آپﷺ نے اپنے جگر گوشے پر اپنی غریب امت کو ترجیح دے کر اور حضرت علیؓ کی فرمائش کو رد کر کے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کو ایک بڑی مصیبت سے بچا لیا۔
مسلمانوں میں جہیز کی رسم، ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ باہمی میل جول کے باعث، معاشرتی رواج کے طور پر رائج ہوئی۔ چونکہ ہندوؤں کے ہآں وراثت / جائداد کی تقسیم مسلمانوں کی طرح نہیں۔ اس لیے وہ جو کچھ دینا چاہتے شادی کے موقع پر جہیز کے نام پر لڑکیوں کو دے دیتے۔ ہندوؤں کے زیرِ اثر مسلمانوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا۔
قرآن میں واضح حکم ہے :
اَلرِجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّ۔ ٰھُ بَعْضَھُ۔ مْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِ۔ ہِ۔ مْ ۚ ( 34 : 4 )
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؓ لکھتے ہیں :
مرد عورت سے افضل ہے کیوں کہ وہ اس کا مہر دیتا ہے اور اس کا نفقہ ادا کرتا ہے ”۔
الفاظ کی عمومیت کے لحاظ سے اس میں تمام اقسام کے مالی اخراجات آ جاتے ہیں۔ چاہے وہ نکاح سے متعلق ہوں یا گھریلو ساز و سامان سے جو عرفِ عام میں جہیز کے دائرے میں آتے ہیں، وہ سب انفاقِ اموال/ مال خرچ کرنے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ نفقہ کے ساتھ عورت کے لیے جائے رہائش اور اس کے لوازمات فراہم کرنا بھی شوہر کے ذمہ واجب ہے۔
اسلام کی شان ہے کہ اس نے ہر مقام پر عورت کو عزت و شرف سے نوازا ہے۔ دورِ رسالتﷺ کے بعد صحابہؓ کے دور میں بھی فرمائشی جہیز کا ثبوت کہیں موجود نہیں۔ نہ لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کیا گیا، نہ ہی اپنا حق سمجھ کر اس کو ضروری سمجھا گیا۔
امام غزالیؒ احیاءالعلوم میں فرماتے ہیں :
حضرت بلالؓ اور حضرت صہیبؓ نے ایک قبیلے میں جا کر اپنے اپنے احوال بتا کر رشتے کی درخواست کی۔ قبیلے والوں نے اپنی لڑکیوں سے ان کے نکاح کی یقین دہانی کرا دی۔ امام غزالیؒ اس واقعے سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ”کسی نے بھی جہیز کا ذکر نہیں کیا۔ نہ مردوں نے اور نہ لڑکیوں کے اولیاء نے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جہیز یعنی گھر کا ساز و سامان فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے“۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم، صحاحِ ستہ، معروف کتبِ احادیث اور چاروں فقہا کی کتب میں باب الجہیز کے عنوان سے کوئی باب نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جہیز، اگر دینی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ جہاں نکاح سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں وہیں جہیز کا تذکرہ بھی ہوتا۔
حدیث کے مطابق :
”وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم پڑے“ (بیہقی، شعب الایمان)
دین میں یہ ایم ترین ہدایت نکاح (شادی) کے بارے میں ہے۔ اس اہم ہدایت کو مدِ نظر رکھے بِنا فقط جہیز کے خلاف عَلَم بلند کرنا فتنہ کا باعث ہی ہو گا۔ کیوں کہ یہ ایک طرح سے یک طرفہ بات ہے۔ جب کہ جہیز کے انتظام سے لڑکی والوں پر ناحق بار پڑتا ہے تو شایانِ شان ولیمے کے انتظامات، زیادہ مہر، مہندی، جوتا چھپائی جیسی رسموں سے لڑکے کو بھی ہلکان ہونا پڑتا ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھاری جہیز کی صورت میں لڑکی والے اپنی بیٹی کی سسرال میں عزت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے تو دوسری جانب شادی اور ولیمے کی چند گھنٹوں کی تقریب کو یادگار مثالی بنانے کی دوڑ ہے۔ جس میں جہیز سے زیادہ یہ لوازم ٹارگٹ ہو تے ہیں : تھیم شادیاں، عروسی ملبوسات، برائیڈل میک اپ، پروفیشنل فوٹوگرافی، پر تعیش کھانے۔ ان میں اپنے اپنے معیار میں بھی کم ہی کوئی کسی سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہوتا ہے۔
پیچھے رہ جاتا ہے تو ہمارا دین اور شریعت، جس میں کم خرچ شادی ہی کو زیادہ بابرکت بتایا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دوسری صورت میں فتنہ و فساد کی خبر دی گئی ہے۔ آج یہ فتنے، خاندانوں میں جھگڑوں، طلاق، بے سکونی، بے راہ روی کی صورت میں معاشرے کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔
ہم پھر بھی بے خبر ہی بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ تماشا اور دھوکہ نہیں؟ کہ جو سیلبریٹیز جہیز کی مخالفت میں ٹھپے لگے ہاتھ لے کر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، خود ان ہی سلیبریٹیز کی اسراف سے بھر پور تقریبات، مارننگ و فیشن شوز، اور ڈرامے ہی جہیز سمیت شادی کی تمام مسرفانہ رسوم کی بنیاد ہیں۔
اس مہم پر تبصروں اور ردِعمل کو دیکھا جائے تو عوام کی اکثریت شادی کے اسراف سے عاجز آ چکی ہے۔ فطرت کا بھی یہی تقاضا ہے، صرف ”جہیز خوری بند کرو“ نہیں بلکہ سادہ نکاح عام کرو۔
اگرچہ عوام کے مؤثر ترین طبقے نے جہیز کے ایک پہلو سے مخالفت مہم شروع کی ہے تاہم مسئلے کے مکمل اور مستقل حل کے لیے سب سے اہم ذمہ داری اہلِ علم پر عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔ شادی کے اوقات متعین کر کے یا کھانے پر بندش لگانے سے بڑھ کر اس حوالے سے مؤثر قانون سازی کرنا ہو گی۔ علماء، دانشور، آئمہ و خطباء، عمائدین اور اصلاح و دعوت کا کام کرنے والے۔ سب کو مل سوچنا ہو گا۔
جہیز سمیت تمام مسرفانہ اور غیر شرعی رسوم سے بچنے اور سادہ نکاح عام کرنے کے لیے سنجیدہ مہم وقت کی فوری ضرورت ہے۔ جس میں شادی سے متعلق عوام میں اسلامی شعور بیدار کیا جائے۔ حکومتی قانون بنا کر اس پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔ سوشل میڈیا کی مضبوط طاقت کو اس مقصد کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ نیز سماجی بائیکاٹ کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، اسراف و خرافات سے آلودہ رشتوں کے لیے نکاح خواں علماء نکاح پڑھانے سے معذرت نہیں تو مزاحمت کرنا شروع کریں۔ رشتوں کے معاملے میں ایسے نمائش پسندوں کی بجائے سادہ شعار لوگوں کو ترجیح دی جائے۔ شادی کی غیرشرعی تقریب کے بجائے مسجد میں نکاح اور گھر سے رخصتی کی سنت کو عام کیا جائے۔ نیز ولیمے میں بھی سادگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسراف سے بچا جائے۔
شادی کا موقع یقیناً خوشی کا موقع ہے۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ سب اچھے اچھے سے اچھا ہو کوئی ناراض نہ ہونے پائے۔ تو جس اللہ کے کرم پر شادی کی کامیابی کا انحصار ہے اس کی مرضی کی فکر کون کرے گا؟
جہیز خوری کی بندش کہ مہم اقوامِ متحدہ نے لانچ کی ہے۔ دوسروں کی رہبری ان کے (درپردہ) مفاد سے خالی نہیں ہو سکتی۔
مشکلات سے بچنے کی اصل تعلیم تو اسلام کے پاس ہے، مسلمان کب اپنے رہبر بنیں گے؟