کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ عاطف اسلم نے اپنے ایک کنسرٹ کے دوران ایک لڑکی کو ہراساں ہوتے دیکھ کر گانا گانا روک دیا۔ لڑکی کو نہ صرف وہاں سے نکالا بلکہ ہراساں کرنے والوں سے کہا “یہاں تمہاری ماں بہن بھی ہو سکتی تھی”۔ عاطف کا بہت شکریہ لیکن یقین جانیے مجھے یہ “ماں بہن ” والی بات سن کر بڑی ہنسی آئی حالانکہ نہیں آنی چاہیے تھی۔ بس کیا کریں ایسی ایسی باتیں یاد آئیں کہ کیا بتاؤں۔ یہ “تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے” کا ان غنڈوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا جو عورت کو صرف جنس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے تمام مرد ایسے ہوتے ہیں۔ اس لئے تو تمام پابندیاں بھی اپنی ماؤں، بہنوں، اور بیویوں پر ہی نکالتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں جان پھندے میں عورتوں ہی کی آتی ہے
پرانی بات ہے ایک دن ہم دوست آپس میں بیٹھی تھیں تو اسی موضوع پر بات چل نکلی۔ ایک کے بعد ایک نے ایسے ایسے تجربے بتایے کہ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک دوست بتانے لگی کہ اس کو 10- 11 سال کی عمر میں اس کے 18 سالہ کزن (خالہ کے بیٹے) نے جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ جو بات شروع میں صرف ہاتھ لگانے تک محدود تھی وہ بڑھ کر کہیں کی کہیں جا پہنچی۔ ڈر کے مارے نہ وہ اپنے ماں باپ کو بتا سکی نہ اس کزن کو روک سکی ۔ پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا راتوں کی نیند اڑ گئی۔ خالہ کے گھر آنے پر وہ ڈر کر کبھی الماری میں اور کبھی بستر کے نیچے چھپنے لگی۔ لیکن شومئی قسمت کزن ہمیشہ اس کو ڈھونڈ نکالتا۔ ڈری سہمی بچی نے آخرکار ایک دن ماں کو بتایا۔ پتا نہیں ہماری بعض مائیں بھی کیسی ہوتی ہیں، گھبرا گئی اور کہنے لگی “دیکھو کسی اور کو مت بتانا”۔ شاید ماں کو بیٹی سے زیادہ عزت پیاری تھی۔ پھر شاید خالہ سے کچھ کہا ہو گا تو اس کزن کا گھر میں آنا بند ہوا۔ اب برسوں گزر گئے ہیں وہ کزن خود کئی بیٹیوں کا “مثالی” باپ ہے۔ خاندان کی وجہ سے ملنا ملانا چلتا ہے۔ کبھی کزن نے اپنے رویے سے ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس کو اپنے فعل پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی ہے۔ ہمارے گھر میں ہماری مائیں اور بڑے یہ تو بتاتے ہیں کہ باہر اپنے آپ کو کیسے سنبھال کر رکھنا ہے لیکن گھر والوں سے اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا۔ ماں باپ بچوں کے دوست بننے کو تیار نہیں ہیں ۔ بیچارہ بچہ یا بچی نہ صرف اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو مظلوم نہیں جرم کا شراکت دار سمجھتے ہیں۔
میری کالج میں ایک جاننے والی لڑکی تھی۔ عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے کافی دن بعد وہ کالج نہیں آئی۔ آخر جب آئی تو دیکھ کر ہی احساس ہو رہا تھا کہ چھٹیوں میں کوئی حادثہ رونما ہو گیا ہے۔ اچھی بھلی ہنستی کھیلتی لڑکی اب ڈری سہمی ایک کونے میں بیٹھی رہتی۔ میں نے اتنے دن نہ آنے کی وجہ پوچھی تو رو دی۔ کہنے لگی “چاند رات پر غلطی سے اپنے بھائی کے ساتھ انار کلی چلی گئی۔ اس قدر رش تھا کہ کوئی حساب نہ تھا ۔ ایک لائن بازار میں جانے والوں کی تھی اور ایک واپس آنے والوں کی۔ اتنا رش دیکھ کر بھائی نے کہا چلو واپس چلتے ہیں۔ بھائی واپس آنے والوں کے ہجوم میں راستہ بناتا دوسری طرف نکل گیا۔ میں بھی پیچھے تھی لیکن ہجوم میں پھنس گئی۔ شاید 10 سیکنڈز ہجوم سے دوسری طرف نکلنے میں لگے ہوں گے لیکن ان 10 سیکنڈز میں میرے جسم کے ہر حصے کو ہاتھ لگا لیا گیا۔ میں باہر نکلی تو میری ٹانگیں کانپ رہیں تھیں، کچھ بولنے سے قاصر تھی۔ گھر جاتے جاتے بہت تیز بخار ہو گیا کتنے دن بستر پر ہی پڑی رہی ۔ میرا اعتماد ختم ہو گیا ہے ۔ ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ کالج جانے کے لئے باہر نکلوں”۔ وہ دن اور آج کا دن، کتنے سال گزر گئے لیکن وہ لڑکی (شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں) بازار میں رش میں جانے سے ڈرتی ہے۔ سڑک کے کنارے نہیں چل سکتی۔ اپنی بیٹی کو اتنا سنبھال کر رکھتی ہے کہ بیٹی گھبرا جاتی ہے۔
بڑے شہروں میں میں رہنے والی بچیاں جو بیچاری پیدل یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی ہیں ان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے ۔ راہ چلتے موٹر سائیکل والے کبھی کمر پر اور کبھی کہیں ہاتھ پھیر جاتے ہیں۔ ویگن میں بیٹھا ڈرائیور عزت سے “لیڈیز” کو اگلی نشست پر جگہ دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ بس میں عورتوں کے کمپا رٹمنٹ میں لگی جالیوں سے نکلتی انگلیاں بس کہیں بھی چھونے کو ترستی ہیں۔ اتنے حادثات سے گزرنے کے بعد بچیوں کا اعتماد کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ یا تو وہ بلکل اعتماد سے عاری اپنے شوہر، بھائی، یا باپ کی دم پکڑ کر چلنے لگتی ہیں یا ان کے اندر بے حد غصّہ اور انتقام بھر جاتا ہے۔ آج سے کوئی 11 سال پہلے کی بات ہے لاہور کے گلشن اقبال پارک میں میں اپنے بھائی اور بیٹی کے ساتھ جا رہی تھی۔ ساتھ سے اوباش لڑکوں کا گروہ گزرا اور ان میں سے ایک لاہور کے “رواج” کے مطابق ہلکا سا ہاتھ لگا گیا ۔ معلوم نہیں کتنے برسوں کا غصّہ تھا۔ زندگی میں پہلی بار میں پلٹی، اس لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا، وہ حیران پیچھے پلٹا تو میں نے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا۔ تھپڑ اتنی زور سے تھا کہ کئی دن میرے ہاتھ میں درد ہوتا رہا ۔ لڑکوں کا پورا گروہ ہکا بکا رہ گیا۔ لوگ چلتے چلتے رک گئے۔ اس بات کو بتانے کا مقصد نہ تو اپنے آپ کو ہیرو ثابت کرنا ہے اور نا ہی ٹھٹھا اڑوانا۔ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ پہلی بار تھا جب میں نے اس ایذا رسانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور اس کے بعد کبھی نہیں رکی۔
مجھے یاد ہے مجھے اس کے بعد بہت سی جاننے والی خواتین نے خوب لعن طعن کی۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکے بدلہ لینے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور مجھے چپ کر کے گزر جانا چاہیے تھا۔ میرے پاس جواب تو تھا لیکن میں نے دینا ضروری نہیں سمجھا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں ایسے انفرادی عمل سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے یقین ہے ایسے ہی فرق پڑتا ہے۔ اپنی بچیوں کو اعتماد دیں۔ ان سے بات کریں ان کو سمجھائیں کہ اپنے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دیں۔ یہ دو ٹکے کے گلی کے غنڈے ایک تھپڑ کی مار ہوتے ہیں، بچیوں کا خاموش رہنا ان کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ اعتماد ہی ہوتا ہے جب میرے ایک عزیز کی 13 سالہ بیٹی نے عمرے کے دوران ایک لڑکے کو ہراساں کرنے پر سوئی چبھو دی تھی ۔ مجھے یقین ہے یہ چھوٹی سی سوئی بہت برسوں تک اس لڑکے کو ایسی حرکت کرنے سے روکے گی۔
تو بچیوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ جب آپ کسی ایسے مسئلے میں پھنسیں تو مردوں کی طرف مدد کے لئے مت دیکھیں۔ آپ خود ایک گروہ میں کسی سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں ۔ آئندہ کسی سے مت کہیں ” تمھارے گھر ماں بہن نہیں ہے؟” کوئی ضرورت نہیں ہے ان کو عورتوں کے رشتے یاد کروانے کی۔ ماں، بیٹی، بہن بعد میں۔۔ آپ پہلے ایک فرد ہیں اور آپ کی ایک شناخت ہے۔ آپ کو سڑک پر چلنے کا، ڈھابے پر بیٹھ کر کھانے کا، ہجوم میں جانے کا حق حاصل ہے۔ اس حق کو استعمال کریں اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف کھڑی ہوں۔