تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سمارٹ
فونز پر گزارے جانے والے وقت کے بارے میں کئی صارفین میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
گوگل کے حکام نے بتایا
ہے کہ تقریباً 70 فیصد اینڈڈرائیڈ صارفین اپنے ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہتر
توازن ڈھونڈ رہے ہیں۔
لیکن یہ بات ٹیکنالوجی
سیکٹر کو عجیب کشمکش میں ڈال رہی ہے۔ ٹیکنالوجی صارفین کو ان کے موبائل فون سے دور
کیسے لے کر جا سکتی ہے جب کہ بہت سی کمپنیوں کے بزنس ماڈل کا انحصار اس کے برعکس
کام کرنے پر ہے؟
رواں سال ایپل نے
’سکرین ٹائم‘ اور گوگل نے ’ڈیجیٹل ویل بیئنگ‘ (Digital Wellbeing) نامی ایپس متعارف کروائیں تاکہ آئی فون اور اینڈروئیڈ صارفین مختلف
ایپس پر گزارے جانے والے وقت کا پتہ چلا سکیں اور یہ جان سکیں کہ وہ دن میں کتنی
بار اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔
البتہ بہت سے اینڈروئڈ
صارفین اس سہولت سے فیض یاب نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ اینڈروئڈ پائی آپریٹنگ سسٹم کا
حصہ ہے جو فی الحال چند ہی موبائل فون برانڈز کی جانب سے ریلیز کیا گیا ہے۔
جن لوگوں نے یہ ایپ
استعمال کی ہے ان کے لیے اس کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں۔
’پہلی بار ڈیجیٹل ویل
بینگ ٹریکر کو استعمال کر کے مجھے معلوم ہوا کہ میں نے اپنا موبائل فون 200 بار ان
لاک کیا اور تین گھنٹے سے زائد کا وقت فون استعمال کرنے میں گزارا۔ ایسا میں نے بی
بی سی نیوز روم میں لمبی شفٹ پر کام کرنے اور ایک ماں ہونے کا فرض نبھانے کے ساتھ
ساتھ کیا۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے صرف وٹس ایپ پر ہنسی مذاق والی پوسٹیں پڑھ کر
اور انسٹاگرام پر بلیاں دیکھ کر نہیں گزارا، لیکن یہ نتائج دیکھ کر میں کافی
خوفزدہ ہو گئی۔‘
روز لا پریر لندن میں
گوگل کی انجینیئر ہیں اور وہ ایپ بنانے والی ٹیم کا حصہ تھیں۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ
ٹیکنالوجی کمپنی کو پتہ تھا کہ پہلی بار لوگوں کو ان کے فون استعمال کرنے کا ڈیٹا
دکھانا انھیں شرمندگی یا ندامت کا احساس دلا سکتا ہے، اس لیے کشادہ سوچ والا
انٹرفیس بنانا ضروری تھا۔
انھوں نے کہا ’یہ ضروری
تھا کہ ہم بڑے سرخ تیر یا بڑے سبز تیر نہ بنائیں، ہم نے جائزہ لینے کی یا لوگوں کو
یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJUSTIN CHUNG
’جہاں تک لوگوں سے بات
کرنے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار خود پر ہے، ضروری نہیں ہے کہ جو میرے لیے اچھا ہے
وہ کسی دوسرے شخص کے لیے بھی اچھا ہو۔'
لا پریر کا کہنا ہے کہ
زیادہ تر لوگوں کو اس ایپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی عادات پر خود قابو پانا
چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ
لوگوں کے لیے اپنا ڈیٹا دیکھ لینا ہی کافی ہو گا۔ یہ ڈیٹا اس بات کی یادہانی کرائے
گا کہ ان کا وقت کیسے گزرا اور انھوں نے اپنے فون پر کیا کیا۔‘
’میں خود کو اس گروہ میں
شامل کروں گی جنھیں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ یاد دہانی کی ضرورت پیش آئے گی۔‘
ہماری طرح کے لوگ ڈیش
بورڈ پر نوٹیفیکیشنز بند کرنے، سونے کے اوقات میں فون کی سکرین کو بلیک اینڈ وائیٹ
کرنے اور ایپ پر مخصوص سکرین ٹائم گزرنے کا الرٹ لگانے جیسی سہولیات سے مستفید ہو
سکتے ہیں۔
لیکن آپ کے اپنے موبائل
فون کو استعمال کرنے کا گوگل کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
’اچھا تجربہ‘
ایپل کا بزنس ماڈل
ہارڈویئر پر مرکوز ہے لیکن گوگل کا انحصار اشتہاروں پر ہے اور اس کے لیے لوگوں کا
سکرین پر ان اشتہاروں کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔
لا پریر کا کہنا ہے:
’ہمیں اس بات کی زیادہ پروا ہے کہ صارفین کو اس ایپ کے استعمال کا اچھا تجربہ ہو۔
’لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں
کہ وہ اپنی ڈیوائسز کا مختلف طرح سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں اور ہم اس سلسلے میں
صارفین کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘
اس بات پر غور کیجیے کہ
انھوں نے فون بند کرنے کے لیے نہیں کہا۔
اس مسئلے کے بارے میں
موبائل انڈسٹری کا جواب دلچسپ ہے۔ کچھ کمپنیوں کا خیال ہے کہ وہ چھوٹی سکرین والے
سمارٹ فونز کی مدد سے ہمیں بڑی سکرین والے سمارٹ فونز سے دور لے جائیں گی۔
سائز میں چھوٹے فون اور
ایچ ایم ڈی گلوبل کے کم فنکشنز والے نوکیا فون کو متبادل ڈیوائسز کے طور پر بیچا
جاتا ہے کیونکہ یہ فون ہمیں ہمارے مرکزی فون سے کچھ دیر کے لیے چھٹکارا دلاتے ہیں۔
سی سی ایس انسائیٹ کے
تجزیہ کار بین ووڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ بات بہت واضح ہو گئی ہے کہ موبائل فون
انڈسٹری اب بھی فون بیچنا چاہتی ہے۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ یہ لوگ ہمیں چھوٹا فون
بیچ رہے ہیں تاکہ ہم وہی کام چھوٹے فون پر کریں جو ہم بڑے فون پر پہلے سے ہی کر
رہے ہیں۔‘
بالآخر ووڈ کا خیال ہے
کہ سب قوت ارادی پر منحصر ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’آپ کسی
بھی طرح کے فون کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس سب کا انحصار اس بات پر ہے کہ
انفرادی طور پر آپ موبائل فون پر کتنا وقت گزارنا چاہتے ہیں۔‘
اپنے بچے کی پیدائش کے
بعد ایک بار کیتھرین پرائس کو احساس ہوا کہ ان کا بچہ انھیں دیکھ رہا ہے جبکہ وہ
اپنے فون کو دیکھ رہی تھیں۔ اس واقعے کے بعد پرائس نے ’فون سے کیسے چھٹکارا حاصل
کیا جائے‘ نامی کتاب لکھی۔
انھوں نے کہا: ’مجھے
احساس ہوا کہ میں یہ نہیں چاہتی کہ اس پر انسانی تعلقات کا یہ تاثر مرتب ہو۔ لیکن
یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ میرا بھی زندگی گزارنے کا انداز ہو۔'
’اپنے فون سے قطع تعلق
کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپ اسے کچرے میں ڈال دیں یا بس کے نیچے پھینک دیں بلکہ
اس کا مطلب ہے کہ آپ ایسا رشتہ بنائیں جو آپ کے لیے مفید ہیں۔ آپ کو اپنے فون کے
ساتھ دوستی کرنی پڑے گی۔‘
اپنی کتاب میں پرائس نے
یہ دوستی دوبارہ شروع کرنے کے لیے 30 دن کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ان کے پسندیدہ نکات
ذیل میں درج ہیں:
§
آپ اُتنی نوٹیفیکیشنز بند کریں جتنی آپ کر سکتے
ہیں۔ فون کالز اور ٹیکسٹ مسیجز کی نوٹیفیکیشنز کو بند مت کریں کیونکہ یہ آپ کی
زندگی میں شامل اصلی لوگوں کی طرف سے آ رہی ہوتی ہیں جو آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہے
ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیلینڈر اور میپ کی نوٹیفیکیشنز بھی آن رہنے دیں۔
§
اپنی ہوم سکرین پر موجود ایپس کو اس طرح ترتیب
دیں کہ آپ کو وہی ایپس نظر آئیں جو آپ کی زندگی میں کوئی عملی مقصد رکھتی ہوں۔آپ
کی ہوم سکرین پر ای میل، سوشل میڈیا، خبریں، ڈیٹینگ ایپس اور گیمز نہیں ہونی
چایییں۔ کسی اور پیج پر ان ایپس کو ایک الگ فولڈر بنا کر اس میں ڈال دیجیے تاکہ آپ
بار بار ان ایپس کے آئیکن دیکھ کر انھیں استعمال کرنے کا نہ سوچیں۔
§
اپنے فون کو اپنے بیڈروم میں نہ رکھیں۔ اپنے
سائیڈ ٹیبل پر فون کی جگہ کوئی اور چیز رکھیں جیسے کہ کتاب۔ جب بھی آپ فون کو
اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائیں گے تو آپ کے ہاتھ میں کتاب ہی آئے گی۔
§
گھڑی خرید لیں۔ کیونکہ اگر آپ فون پر الارم
لگاتے ہیں تو صبح سویرے آپ کا سب سے پہلے فون کے ساتھ ہی واسطہ پڑے گا۔
§
Facebook Demetricator نامی ایپ استعمال کیجیے۔ یہ ایپ آپ کو بتائے گی
کہ آپ کی پوسٹ کو کتنے ’لائیکس‘ ملے ہیں۔ شاید آپ دوبارہ جا کر یہ ضرور دیکھیں کہ
آپ کی پوسٹ پر کتنے لائیکس آئے ہیں مگر آپ کو لائیکس کے 17 سے 20 یا 25 سے 30 ہونے
پر بار بار فیس بُک دیکھنے کی عادت سے چھٹکارا ملے گا۔
§
میرے پراب اس ہیبت ناک بات کا اتنا فرق نہیں
پڑتا کہ میں کتنی مرتبہ اپنا فون دیکھتی ہوں۔ لیکن کیا میرے رویے میں تبدیلی آئی
ہے؟
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
’احساسِ ندامت‘
مجھے اکثر محسوس ہوتا
ہے کہ میں نے اپنا موبائل فون موسم کا حال معلوم کرنے کے لیے اٹھایا تھا لیکن دس
منٹ بعد میں خود کو سوشل میڈیا پر پاتی ہوں اور مجھے بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ
مجھے چھتری کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اس کے علاوہ میں واقعی
کام کے سلسلے میں، راستہ تلاش کرنے کے لیے اور بچوں کے سکول سے لامحدود رابطے میں
رہنے کے لیے فون کا استعمال کرتی ہوں۔ میں نے لا پریر کو بتایا کہ میں چاہتی ہوں
کہ مجھے فون پراچھی طرح سے گزارے جانے والے اور ضائع ہونے والے وقت کے درمیان فرق
پتہ چلے۔
بظاہر میں اکیلی نہیں
ہوں۔
انہوں نے مجھے بتایا:
’ہم چیزوں کو دانستہ اور غیردانستہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو غیر
دانستہ استعمال کی زیادہ فکر ہوتی ہے کیونکہ یہ ان کو احساسِ ندامت دلاتا ہے۔‘
کیا 2019 میں ہم اپنے
موبائل فونز سے قطع تعلق کر لیں گے؟ تجزیہ کار ووڈ اس کے قائل نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’میرے
لیے 2019 وہ سال ہے جس میں لوگوں کو فون پر گزارے جانے والے وقت کا زیادہ شعور ہو
گا۔
’لیکن کیا لوگ فون سے
قطع تعلق کر پائیں گے؟ یہ بہت دور کی بات ہے۔‘