ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
کوئی ایک سال پہلے ٹی وی پر ایک ڈاکیومینٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں خود ٹی وی نہیں دیکھتی ہوں بلکہ ٹی وی آج کل اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ بچوں سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو چلا دیں۔ اگر کسی کے گھر جائیں اور ٹی وی چل رہا ہو تو دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارا صبح 8 بجے سے لیکر شام 5 بجے تک کلینک ہوتا ہے جس میں اینڈوکرائن کی بیماریوں کے مریض دیکھتے ہیں۔ یعنی وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
یہ ڈاکیومینٹری ایک ایشین فیملی کی کہانی تھی جس میں ان کی 16 سال کی بیٹی کو کسی نے گھر کے پیچھے گولی مار کر جان سے مار دیا تھا۔ آدھی رات میں پستول کی آواز سے اس کے ماں باپ جاگ گئے۔ انہوں نے باہر جاکر دیکھا تو اس وقت تک ان کی بیٹی مر چکی تھی۔ جب انہوں نے پولیس کو فون کیا تو مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کے 16 سالہ بوائے فرینڈ نے اس کو گولی ماری تھی۔ ان کا دو سال سے خفیہ معاشقہ چل رہا تھا اور وہ لڑکی 5 مہینے کے حمل سے تھی۔ اس بچے کو یہی سمجھ میں آیا کہ اس لڑکی کو گولی ماردوں تو سارے مسئلے ختم ہوجائیں گے۔
یقیناً یہ کہانی دیکھ کر ہر ماں باپ پریشانی محسوس کریں گے۔ شاید کچھ لوگ سوچیں کہ اور بڑی دیواریں، مزید پابندیاں ان مسائل کو حل کرسکیں گی لیکن میرے خیال میں اگر ان بچوں کے اپنے والدین کے ساتھ بہتر تعلقات ہوتے تو وہ ان سے چھپ کر ایک دہری زندگی گذارنے پر مجبور نہ ہوتے اور اس ٹریجڈی سے بچاؤ ممکن ہوتا۔
امریکہ میں آزادی ہے۔ یہاں کوئی شخص دوسرے شخص کے جان و مال پر حملہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے لیکن ہر انسان خود اپنی زندگی ضرور برباد کرسکتا ہے۔ ایک کھلے ماحول میں افراد بہت سارے مسائل سے بچ سکتے ہیں جہاں ان کے دوست اور خاندان والے جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہیں اور کس کے ساتھ ہیں۔ ایک ایسا ماحول جہاں لوگ دہری زندگی گذارنے اور جھوٹ بولنے پر مجبور نہ ہوں ایک محفوظ ماحول تخلیق کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مختلف ممالک میں جرائم کی شرح کا موازنہ کرنا اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر ملک میں یہ ڈیٹا جمع نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور ہر جگہ جرائم کا شکار ہونے والے افراد سامنے آکر شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
پچھلے سال جب میں سیاٹل واشنگٹن انٹرنل میڈیسن کی کانفرنس میں گئی تو میری ایک انڈین فزیشن دوست نے فیس بک پر تصویریں دیکھ کرمجھے میسج بھیجا کہ اس کا نیا ہسپتال اس ہوٹل کے بالکل قریب ہے جہاں کانفرنس ہو رہی ہے اور ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملنا چاہئیے۔ ایک شام کانفرنس کے بعد وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مجھے پک اپ کرنے آئی۔ ہم تینوں سیاٹل کے ڈاؤن ٹاؤن گئے جہاں ہم نے سوشی کھائی۔ وہ بہت اچھا ریسٹورانٹ تھا جہاں مختلف طرح کی سوشی ایک بیلٹ پر ہمارے سامنے سے گذر رہی تھی اور ہم جو چاہے اٹھا سکتے تھے۔ ہر پلیٹ کا الگ رنگ تھا جس کی بنیاد پر اس کی قیمت طے تھی۔ جب آپ کھانا ختم کریں تو ویٹر پلیٹوں کی تعداد اور ان کے رنگوں سے حساب بناتی ہے کہ آپ کا بل کتنا ہوگا؟
کھانے کے دوران ہم نے بات چیت کی۔ وہ پہلے نارمن میں اسپیشلٹ تھی اور اپنی بچی کی بیماری کی وجہ سے اس نے اوکلاہوما کی ریاست چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ اس کو آٹزم سے متاثرہ بچوں کے بہترین اسکول میں پڑھایا جا سکے۔ اس دوران اس کے ہسپتال سے ایک دو مرتبہ فون بھی آیا کیونکہ وہ کال پر تھی اور اس نے نرسوں اور مریضوں کے سوالات کے جواب دیے۔ کھانے کے دوران اس کی بچی بار بار سیٹ سے اتر جاتی اور ادھر ادھر بھاگنے لگتی۔
میرے دو بچے ہیں۔ بچوں کے والدین جانتے ہیں کہ نارمل بچے ہی پالنا نہایت مشکل کام ہے۔ میری دوست کا تحمل قابل دید تھا۔ وہ اپنی بچی کو نہایت محبت سے پال رہی تھی۔ انڈیا کے پس منظر میں یہ اور بھی قابل تحسین بات ہے جہاں لڑکیوں کو ماں کے پیٹ میں ہی مار دیتے ہیں اور ہر 975 لڑکیوں کے مقابلے میں 1000 لڑکے ہیں۔ پورے پورے گاؤں ایسے ہیں جہاں ان لڑکوں کی شادیاں کرنے کے لیے لڑکیاں نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ہیومن ٹرفیکنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ روز بچیاں اغوا کر کے بیچی جا رہی ہیں۔ میں نے بل دینے کی کوشش کی لیکن اس نے میرا کریڈٹ کارڈ پیچھے کھسکا دیا اور کہا کہ میں نے آپ کو دعوت دی تھی اس لیے بل میں دوں گی۔
وہ اور اس کا شوہر الگ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود اس کے شوہر کو یہ معلوم نہیں کہ اپنی بیوی اور نرسوں پر چیخنے چلانے اور گالم گلوچ سے پرہیز ضروری ہے۔ اپنی تعلیم اور سماجی حیثیت کے مطابق اس کو ایک باوقار انسان ہونا چاہئیے جو اپنی بیٹی کے لیے ایک رول ماڈل ہو۔ انڈیا میں نسل در نسل سے خواتین کا استحصال چلا آ رہا ہے اور یہ افراد اسی طرح اپنی بیویوں سے پیش آتے ہیں جیسے ان کے باپ ان کی ماؤں کے ساتھ پیش آتے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے باپ نہیں اور ان کی بیوی ان کی ماں نہیں ہے۔
میری بیٹی عائشہ کی نسل کی لڑکیاں میری دادی، میری امی اور میری نسل سے بہت آگے نکل گئی ہیں۔ ان کے برابر خود کو اچھا بنا لینا ہی بہت مشکل کام ہوگا۔ میری دوست نے کہا کہ ہمارے جنوب ایشیائی تہذیب میں ارینجڈ میرج کا سسٹم سب سے برا نظام ہے۔ ہمارے خاندان تعلیم یافتہ ہیں اور والدین آپس میں پرانے دوست ہیں۔ والدین کے سامنے صاف ستھرے کپڑے پہن کر شائستکی سے رشتہ مانگنے والا آدمی شادی کے دو مہینے کے بعد جب اپنی اصلیت دکھاتا ہے تو آپ حیران ہوجاتے ہیں کہ کیا یہ وہی بندہ ہے جس سے آپ پہلی بار ملے تھے؟ اگر ہمیں شادی سے پہلے ملنے جلنے کی آزادی ہوتی تو میں کبھی اس شخص سے شادی نہ کرتی۔ تو پھر تم نے اس کو ابھی تک طلاق کیوں نہیں دی؟
اس نے گہری بات کی جو کہ کافی جنوب ایشیائی خواتین کی نفسیات ہے اور قارئین اس کو غور سے پڑھیں۔ اس نے کہا کہ میں بچپن سے ہر کلاس میں فرسٹ آتی تھی، اسپورٹس میں بھی آگے تھی۔ میرے کمرے میں الماری میڈلوں سے بھری ہوئی تھی اور تمام ٹیچرز، پڑوسی اور رشتہ دار میری تعریف کرتے تھے۔ میرے والدین کو مجھ پر فخر ہے۔ میں ان کا غرور ہوں اور میں اپنی زندگی میں کسی بھی میدان میں ناکام نہیں ہونا چاہتی ہوں۔ اس لیے نام کا یہ رشتہ برقرار ہے۔
ہماری شادی شدہ زندگی میں ہم بمشکل ایک یا دو سال ہی ساتھ رہ پائے ہیں۔ میں نے اس کو دیکھا۔ ایک خوبصورت، ذہین، محنتی، قابل ڈاکٹر اور ایک بے مثال ماں جس کو دیوی کا درجہ ملنا چاہئیے، ایک ناخوش زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ کن لوگوں کے لیے؟ نئی دلی کے ایک محلے میں اس کے ماں باپ کو کوئی کچھ کہہ دے گا، اس لیے؟ یہ والدین خود غرض ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان والدین کی طرح کبھی نہیں بننا چاہوں گی جن کے بچے ان کی انا کے لیے اپنی زندگی اور خوشیوں کی قربانی دیتے رہیں۔
لائف انشورنس کا کمرشل دیکھیں تو اس میں دو بچے دکھائے گئے ہیں۔ بیٹے نے گریجویشن کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور بچی کو دلہن بنایا گیا ہے۔ لڑکیوں کو سینکڑوں سالوں سے یہ تربیت ملی ہوئی ہے کہ ان کا شوہر ان کا کیریر ہے جس کو ہر حال میں راضی رکھنا ہے چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ یہ بات سب لاشعوری طور پر جانتے ہیں اسی لیے متشدد آدمی طلاق کی تلوار ان خواتین کے سر پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ جو اپنا بوجھ اٹھا سکتی ہیں وہ اس بدسلوکی سے خود کو بچا لیتی ہیں اور جو خودمختار نہ ہوں، وہ اس ناخوش رشتے میں بندھے رہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اور کچھ میری دوست کی طرح نبھاتی ہیں۔
اگر عائشہ بوائے فرینڈ بنالے گی تو ہم اس کو سامنے والے دروازے سے اندر بلائیں گے۔ وہ اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے شادی کرے گی چاہے مجھے اس کا بوائے فرینڈ پسند نہ بھی ہو۔ کسی کو پسند کرنا یا نہ کرنا میرا حق ہے لیکن اپنی پسند کو دوسرے انسانوں پر تھوپنے کا ہمیں حق حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ شادی نہ بھی کرے تو ہمارا سارا خاندان اس کو اس فیصلے میں سپورٹ کرے گا۔
ہماری اگلی نسل میں ایک یہ ہی لڑکی ہے جو سب لڑکوں سے سمجھدار ہے۔ ہم صنف کی بنیاد پر وراثت کے نظام پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اسی کو بڑا حصہ ملنے والا ہے جو امریکہ میں ہماری آنے والی نسلوں کی بھلائی کا ظامن ہوگا۔ اگر وہ شادی کرلے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ برا سلوک کرے تو میں وہ ماں نہیں جو اس کو واپس اس گھر میں بھیجے، جہاں اس کو وہ عزت اور محبت حاصل نہ ہو جس کی وہ اور ساری بیٹیاں حقدار ہیں۔