لبرلز اور مذہبی لوگوں کو ایک بات سمجھنا ہوگی: سماجی تشکیل، نظریات نہیں، رویوں کی بنیاد پر ہو تی ہے۔ لبرل ازم رویہ بھی ہے اورنظریہ بھی۔ مذہب بھی دونوں کا مجموعہ ہے۔ جہاں تک میں جان سکا ہوں، رویے کے باب میں کم از کم سماجی سطح پر دونوں میں اتفاق زیادہ اور اختلاف کم ہے۔ پھر یہ ہنگامہ آرائی کیا ہے؟
بحیثیت نظریہ، لبرل ازم کا کہنا ہے کہ انسان ایک آزاد وجود کا نام ہے۔ وہ اپنے معاملات، اپنی عقل اور بصیرت سے طے کرے گا۔ یہ حق کسی مذہب، دوسرے لفظوں میں کسی خالق کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ انسان کے لیے کسی لائحہ عمل کا تعین کرے۔ ‘خالق‘ ان کے خیال میں محض ایک واہمہ اور گمان ہے۔ زندگی واہموں کی بنیاد پر بسر نہیں کی جا سکتی۔ انسانی عقل، تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں زندگی کے معاملات کو طے کرے گی۔ انفرادی عقل پر اجتماعی عقل کو غلبہ ہوگا اور یہ فیصلہ کن ہوگا۔ اجتماعی عقل چاہے تو کسی مذہبی تعلیم کو قبول کرلے، چاہے تو رد کردے۔ کائنات میں ارتقا کا ایک عمل لاکھوں سالوں سے جاری ہے جس نے زندگی کو مختلف مراحل سے گزارا۔ انسان بھی اسی ارتقا کا ایک مرحلہ ہے۔ یہی ارتقا اصل خالق ہے۔ ڈارون سے پہلے بھی لبرل ازم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ الحاد بطور نظریہ لبرل ازم کی اساس ہے۔
بحیثیت نظریہ، مذہب کا کہنا ہے کہ انسان آزاد نہیں، خدا کا بندہ ہے۔ بندے کا ایک ترجمہ ‘غلام ‘ بھی ہے۔ غلام کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کے احکام بجا لائے۔ اسی سے اس کی جزا اور سزا وابستہ ہے۔ اللہ اس کائنات کا خالق ہے۔ اسی نے انسان کو تخلیق کیا۔ زندگی اگر کسی ارتقا کا نتیجہ ہے تو بھی، یہ ایک بے مہار عمل نہیں ہے جو کسی نظم اور ترتیب کے بغیر جاری و ساری ہے۔ یہ کائنات حفظِ ترتیب کا شاہکار اور ایک کارساز وحکیم کا تخیل ہے، جس نے اسے کسی مقصد کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ انسان کی تخلیق زندگی کے ارتقا کا ایک مرحلہ نہیں، الٰہی سکیم کا ایک باب ہے۔ وہ کہیں سے آیا اور اس نے کہیں جانا ہے۔ موت زندگی کا اختتام نہیں، ایک عہد سے دوسرے عہد میں داخل ہونا ہے۔ دوسرے عہد میں، اس زندگی کے بارے میںسوال ہونا ہے کہ وہ خدا کا بندہ بن کر زندہ رہا یا اس سے بے نیاز رہا۔ اسی کے جواب پر اس کے لیے سزا اور جزا کا فیصلہ ہوگا۔ خدا کی بندگی کا مفہوم اس کی فطرت میں ودیعت ہے اور اسے یاد دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر مبعوث کرتا ہے جو انسانوں میں سے ہوتے ہیں۔ سیدنا محمد ﷺ پر یہ سلسلہ تمام ہوا۔ تاہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت اور فطرت کی شہادت تا دمِ آخر انسان کو بتاتی رہے گی کہ خدا کی بندگی سے کیا مراد ہے۔
بطور رویہ، لبرل ازم یہ ہے کہ زندگی کے باب میں کسی نقطہ نظر یا نظریے کو اختیار کرنا ایک انفرادی معاملہ ہے۔ کوئی خدا کو مانتا ہے تو بالجبر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اس سے بالجبر منوایا نہیں جا سکتا۔ لوگ اپنے معاملات میں آزاد ہیں۔ وہ جو سیاسی نظام چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں۔ معیشت کے باب میں بھی ان کا ہاتھ نہیں پکڑا جا سکتا۔ لباس، رہن سہن، یہ سب انفرادی معاملات ہیں۔ ریاست اگر اجتماعی مفاد میں کوئی قانون بنانا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے، بشرطیکہ یہ قانون لوگوں کی رائے سے بنے۔ قانون سازی کا مطلب اجتماعی مفاد میں فرد کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ لبرلز میں ایک طبقہ ‘انارکسٹ‘ ہے جو ریاست کے وجود اور نتیجتاً کسی قانون کو نہیں مانتا۔ تاہم یہ محض ایک خیال ہے جو ناقابلِ عمل ہے۔
بطور رویہ مذہب یہ ہے کہ زندگی کے باب میں کسی نقطہ نظر یا نظریے کو اختیار کرنا ایک انفرادی معاملہ ہے۔کوئی خدا کو مانتا ہے تو بالجبر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اس سے بالجبر منوایا نہیں جا سکتا۔ لوگ اپنے معاملات میں آزاد ہیں۔ وہ جو سیاسی نظام چاہیں،اختیار کر سکتے ہیں۔ معیشت کے باب میں بھی ان کا ہاتھ نہیں پکڑا جا سکتا۔ لباس، رہن سہن، یہ سب انفرادی معاملات ہیں۔ ریاست اگر اجتماعی مفاد میں کوئی قانون بنانا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے، بشرطیکہ یہ قانون لوگوں کی رائے سے بنے۔ تاہم قانون بنانے والے یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا زیرِ نظر مسئلے میں خدا یا اس کے رسول کی کوئی ہدایت موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کو نافذ کیا جائے گا۔ اگر اس کی تعبیر میں اختلاف ہوجائے تو پھر اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا موقف قانون کی بنیاد بنے۔ انسان اگر انفرادی زندگی میں بندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے، جس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے۔ اگر سماج کی تشکیل رویوں کی بنیاد پر ہوتی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ مذہبی اور لبرلز مل کر ایک ترقی پسند اور پراُمن معاشرہ تشکیل نہ دے سکیں۔ مذہب اور لبرل ازم کم و بیش ایک ہی طرح کے رویے کے علم بردار ہیں۔ رویے کی اس یکسانیت کو نکات کی صورت میں کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ عقیدہ یا نقطہ نظر(Worldview) ایک فرد کا انفرادی معاملہ ہے۔ فردکے اس حق پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
2۔طرزِ عمل بھی ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔اسے کسی خاص لباس، رہن سہن یا اسلوبِ حیات کا پابند نہیں بنایاجا سکتا۔
3۔سماج کو فساد اور جرم سے بچانے کے لیے ریاست قانون سازی کرے گی۔گویا ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ اجتماعی مفاد میں فرد کی آزادی پر کوئی قید لگائے۔
4۔ یہ قانون سازی لوگوں کے مشورے سے ہوگی اور اختلاف کی صورت میں اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہو گی۔
5۔ ہم کسی قانون سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن کثرتِ رائے کی بنیادپربننے والاقانون اس وقت تک نافذ العمل ہوگا جب تک کہ اجتماعی بصیرت اس میں ترمیم کا فیصلہ نہ کر لے۔
6۔آزادیٔ رائے ایک ایسی بنیادی قدر ہے جس پر کوئی فرد، گروہ یا ریاست پابندی نہیں لگا سکتی۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے،کسی کے اس حق کو دبانے کی کوشش کرے تو وہ اس کے خلاف اقدام کرے۔ ‘حد سے تجاوز‘ کا تعین فطری، قانونی اور سماجی مسلمات کی بنیاد ہوگا۔
میرے خیال میں، یہ مشکل ہوگا کہ کوئی مذہبی یا لبرل آدمی ان نکات سے اختلاف کر ے۔ اگر ایسا ہے تو آئے دن ہنگامہ کیوں برپا ہوتا ہے؟ لبرل اور مذہبی لوگوںکی تلواریں بات بات پر بے نیام ہو جاتی ہیں؟ میرے نزدیک اس رویے کا انتساب مذہب یا لبرل ازم کے بجائے، جہالت کی طرف ہونا چاہیے۔ جو مذہبی لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ مذہب کی تعلیمات سے واقف نہیں۔ جو لبرل اس رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ لبرل ازم کو نہیں جانتے۔
جمعرات کوایک بار پھرکراچی میں مذہبی اور لبرل آمنے سامنے تھے۔ سوشل میڈیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ لاپتہ افرادکا مسئلہ تھا جو آج کل نزاع کا باعث ہے۔ میرا لبرلز سے سوال ہے: کیا کسی مذہب کی برگزیدہ ہستیوں کا تمسخر اڑانا لبرل ازم ہے؟ مذہبی لوگوں سے میرا سوا ل ہوگا: کیا بغیر ثبوت کسی ملزم کو مجرم قرار دینا اور اسے غائب کر دینا اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اگر وہ لبرل ازم نہیں ہے اور یقیناً نہیںہے اور یہ مذہب نہیں ہے اوریقیناً نہیں ہے، تو پھر لوگوں کے مابین تنازعے کا سبب نظریات ہیں یا رویے؟
یہ نظریات کا اختلاف نہیں، رویے ہیں جو معاشروں کو فساد کا گھر بنا دیتے ہیں۔ نظریات کا اختلاف سوچ کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سماجی ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ اس سے انسان کا تہذیبی سفر آگے بڑھتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر رویے انتہا پسندانہ یا عصبیت پر مبنی ہوں تو پھر تنگ نظری پیدا ہوتی ہے جو گھٹن کو جنم دیتی ہے۔ گھٹن سانس رک جانے کا نام ہے۔ سانس کا رکنا موت ہے۔
بحیثیت نظریہ، لبرل ازم کا کہنا ہے کہ انسان ایک آزاد وجود کا نام ہے۔ وہ اپنے معاملات، اپنی عقل اور بصیرت سے طے کرے گا۔ یہ حق کسی مذہب، دوسرے لفظوں میں کسی خالق کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ انسان کے لیے کسی لائحہ عمل کا تعین کرے۔ ‘خالق‘ ان کے خیال میں محض ایک واہمہ اور گمان ہے۔ زندگی واہموں کی بنیاد پر بسر نہیں کی جا سکتی۔ انسانی عقل، تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں زندگی کے معاملات کو طے کرے گی۔ انفرادی عقل پر اجتماعی عقل کو غلبہ ہوگا اور یہ فیصلہ کن ہوگا۔ اجتماعی عقل چاہے تو کسی مذہبی تعلیم کو قبول کرلے، چاہے تو رد کردے۔ کائنات میں ارتقا کا ایک عمل لاکھوں سالوں سے جاری ہے جس نے زندگی کو مختلف مراحل سے گزارا۔ انسان بھی اسی ارتقا کا ایک مرحلہ ہے۔ یہی ارتقا اصل خالق ہے۔ ڈارون سے پہلے بھی لبرل ازم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ الحاد بطور نظریہ لبرل ازم کی اساس ہے۔
بحیثیت نظریہ، مذہب کا کہنا ہے کہ انسان آزاد نہیں، خدا کا بندہ ہے۔ بندے کا ایک ترجمہ ‘غلام ‘ بھی ہے۔ غلام کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کے احکام بجا لائے۔ اسی سے اس کی جزا اور سزا وابستہ ہے۔ اللہ اس کائنات کا خالق ہے۔ اسی نے انسان کو تخلیق کیا۔ زندگی اگر کسی ارتقا کا نتیجہ ہے تو بھی، یہ ایک بے مہار عمل نہیں ہے جو کسی نظم اور ترتیب کے بغیر جاری و ساری ہے۔ یہ کائنات حفظِ ترتیب کا شاہکار اور ایک کارساز وحکیم کا تخیل ہے، جس نے اسے کسی مقصد کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ انسان کی تخلیق زندگی کے ارتقا کا ایک مرحلہ نہیں، الٰہی سکیم کا ایک باب ہے۔ وہ کہیں سے آیا اور اس نے کہیں جانا ہے۔ موت زندگی کا اختتام نہیں، ایک عہد سے دوسرے عہد میں داخل ہونا ہے۔ دوسرے عہد میں، اس زندگی کے بارے میںسوال ہونا ہے کہ وہ خدا کا بندہ بن کر زندہ رہا یا اس سے بے نیاز رہا۔ اسی کے جواب پر اس کے لیے سزا اور جزا کا فیصلہ ہوگا۔ خدا کی بندگی کا مفہوم اس کی فطرت میں ودیعت ہے اور اسے یاد دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر مبعوث کرتا ہے جو انسانوں میں سے ہوتے ہیں۔ سیدنا محمد ﷺ پر یہ سلسلہ تمام ہوا۔ تاہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت اور فطرت کی شہادت تا دمِ آخر انسان کو بتاتی رہے گی کہ خدا کی بندگی سے کیا مراد ہے۔
بطور رویہ، لبرل ازم یہ ہے کہ زندگی کے باب میں کسی نقطہ نظر یا نظریے کو اختیار کرنا ایک انفرادی معاملہ ہے۔ کوئی خدا کو مانتا ہے تو بالجبر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اس سے بالجبر منوایا نہیں جا سکتا۔ لوگ اپنے معاملات میں آزاد ہیں۔ وہ جو سیاسی نظام چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں۔ معیشت کے باب میں بھی ان کا ہاتھ نہیں پکڑا جا سکتا۔ لباس، رہن سہن، یہ سب انفرادی معاملات ہیں۔ ریاست اگر اجتماعی مفاد میں کوئی قانون بنانا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے، بشرطیکہ یہ قانون لوگوں کی رائے سے بنے۔ قانون سازی کا مطلب اجتماعی مفاد میں فرد کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ لبرلز میں ایک طبقہ ‘انارکسٹ‘ ہے جو ریاست کے وجود اور نتیجتاً کسی قانون کو نہیں مانتا۔ تاہم یہ محض ایک خیال ہے جو ناقابلِ عمل ہے۔
بطور رویہ مذہب یہ ہے کہ زندگی کے باب میں کسی نقطہ نظر یا نظریے کو اختیار کرنا ایک انفرادی معاملہ ہے۔کوئی خدا کو مانتا ہے تو بالجبر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اس سے بالجبر منوایا نہیں جا سکتا۔ لوگ اپنے معاملات میں آزاد ہیں۔ وہ جو سیاسی نظام چاہیں،اختیار کر سکتے ہیں۔ معیشت کے باب میں بھی ان کا ہاتھ نہیں پکڑا جا سکتا۔ لباس، رہن سہن، یہ سب انفرادی معاملات ہیں۔ ریاست اگر اجتماعی مفاد میں کوئی قانون بنانا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے، بشرطیکہ یہ قانون لوگوں کی رائے سے بنے۔ تاہم قانون بنانے والے یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا زیرِ نظر مسئلے میں خدا یا اس کے رسول کی کوئی ہدایت موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کو نافذ کیا جائے گا۔ اگر اس کی تعبیر میں اختلاف ہوجائے تو پھر اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا موقف قانون کی بنیاد بنے۔ انسان اگر انفرادی زندگی میں بندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے، جس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے۔ اگر سماج کی تشکیل رویوں کی بنیاد پر ہوتی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ مذہبی اور لبرلز مل کر ایک ترقی پسند اور پراُمن معاشرہ تشکیل نہ دے سکیں۔ مذہب اور لبرل ازم کم و بیش ایک ہی طرح کے رویے کے علم بردار ہیں۔ رویے کی اس یکسانیت کو نکات کی صورت میں کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ عقیدہ یا نقطہ نظر(Worldview) ایک فرد کا انفرادی معاملہ ہے۔ فردکے اس حق پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
2۔طرزِ عمل بھی ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔اسے کسی خاص لباس، رہن سہن یا اسلوبِ حیات کا پابند نہیں بنایاجا سکتا۔
3۔سماج کو فساد اور جرم سے بچانے کے لیے ریاست قانون سازی کرے گی۔گویا ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ اجتماعی مفاد میں فرد کی آزادی پر کوئی قید لگائے۔
4۔ یہ قانون سازی لوگوں کے مشورے سے ہوگی اور اختلاف کی صورت میں اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہو گی۔
5۔ ہم کسی قانون سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن کثرتِ رائے کی بنیادپربننے والاقانون اس وقت تک نافذ العمل ہوگا جب تک کہ اجتماعی بصیرت اس میں ترمیم کا فیصلہ نہ کر لے۔
6۔آزادیٔ رائے ایک ایسی بنیادی قدر ہے جس پر کوئی فرد، گروہ یا ریاست پابندی نہیں لگا سکتی۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے،کسی کے اس حق کو دبانے کی کوشش کرے تو وہ اس کے خلاف اقدام کرے۔ ‘حد سے تجاوز‘ کا تعین فطری، قانونی اور سماجی مسلمات کی بنیاد ہوگا۔
میرے خیال میں، یہ مشکل ہوگا کہ کوئی مذہبی یا لبرل آدمی ان نکات سے اختلاف کر ے۔ اگر ایسا ہے تو آئے دن ہنگامہ کیوں برپا ہوتا ہے؟ لبرل اور مذہبی لوگوںکی تلواریں بات بات پر بے نیام ہو جاتی ہیں؟ میرے نزدیک اس رویے کا انتساب مذہب یا لبرل ازم کے بجائے، جہالت کی طرف ہونا چاہیے۔ جو مذہبی لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ مذہب کی تعلیمات سے واقف نہیں۔ جو لبرل اس رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ لبرل ازم کو نہیں جانتے۔
جمعرات کوایک بار پھرکراچی میں مذہبی اور لبرل آمنے سامنے تھے۔ سوشل میڈیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ لاپتہ افرادکا مسئلہ تھا جو آج کل نزاع کا باعث ہے۔ میرا لبرلز سے سوال ہے: کیا کسی مذہب کی برگزیدہ ہستیوں کا تمسخر اڑانا لبرل ازم ہے؟ مذہبی لوگوں سے میرا سوا ل ہوگا: کیا بغیر ثبوت کسی ملزم کو مجرم قرار دینا اور اسے غائب کر دینا اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اگر وہ لبرل ازم نہیں ہے اور یقیناً نہیںہے اور یہ مذہب نہیں ہے اوریقیناً نہیں ہے، تو پھر لوگوں کے مابین تنازعے کا سبب نظریات ہیں یا رویے؟
یہ نظریات کا اختلاف نہیں، رویے ہیں جو معاشروں کو فساد کا گھر بنا دیتے ہیں۔ نظریات کا اختلاف سوچ کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سماجی ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ اس سے انسان کا تہذیبی سفر آگے بڑھتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر رویے انتہا پسندانہ یا عصبیت پر مبنی ہوں تو پھر تنگ نظری پیدا ہوتی ہے جو گھٹن کو جنم دیتی ہے۔ گھٹن سانس رک جانے کا نام ہے۔ سانس کا رکنا موت ہے۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)