امجد اسلام امجد کی نظم ”سیلف میڈ (خود ساختہ) لوگوں کا المیہ“ ہمیشہ سے اس کی پسندیدہ تھی۔ اُن دنوں وہ نیا نیا خیبر پختونخواہ کے ضلع سوابی میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تبادلہ ہو کر گیا تھا۔ ایک صبح جب وہ دفتر جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا تو اس کی نظر اپنے جوتوں پر پڑی، سُرخ رنگ کے جوتے پر کسی نے کالی پالش چڑھا دی تھی۔ اُس نے جوتا پالش کرنے والے کو بُلا بھیجا، آنے والا ایک بزرگ تھا ساٹھ باسٹھ برس کی عمر کا، وہ بزرگ دھیرے دھیرے چلتا لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے سامنے پہنچا۔ بابا جی آپ اور میں اکٹھے بازار جائیں گے! صاحب بہادر میں سبزی والا تھیلا اٹھا لوں؟ نہیں اس کی ضرورت نہیں، اور پھر اُس نے بابے کو ساتھ لے جا کر اُسکی آنکھوں کا معائنہ کروا کے اسے نظر کا چشمہ بنوا کر دے دیا۔
واپسی پر بابا جی سارے راستے زار و قطار روتے رہے، جب اُس نے رونے کی وجہ پوچھی تو بابا جی بولے، صاحب بہادر میں نے ایک عمر گزاری ہے یہاں نوکری کرتے، بیٹیوں کا بوجھ ناتواں کندھوں سے اتارتے اتارتے اس قدر بوڑھا ہو گیا کہ بصارت سے محرومیت کی آخری حدوں کو آ پہنچا۔ مجھے یقین ہے کہ صبح میں نے آپ کے جوتوں پر بھی غلط رنگ کی پالش چڑھا دی ہوگی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں بھی بہت بار ہو چکا میرے ساتھ مگر آپ نے میری غلطی پر جس رد عمل کا مظاہرہ کیا وہ میری ساری ملازمت میں پہلی بار ہوا۔ آپ نے اپنے سابقہ ہم منصبوں کے برعکس مجھے ڈانٹنے یا بُرا بھلا کہنے کی بجائے میری آنکھوں کی روشنی کا اہتمام کیا، اس لئے میری آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو گئیں۔
کُچھ دنوں بعد اُس نے دوبارہ بابا جی کو بلا بھیجا، بابا جی آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے؟ ہے ناں صاحب بہادر، ایک بیٹا ہے! کیا کرتا ہے؟ ہم غریب لوگ مزدوری کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں صاحب بہادر۔ خدا نے کئی بیٹیوں کے بعد ایک بیٹا دیا تھا، بڑی مشکلوں سے پڑھایا لکھایا بھی، اب تو پچیس سال کا ہو چکا ہے، یہاں ایک کارخانے میں مزدوری کرتا ہے۔ بابا جی اس سے کہو کہ کل آ کر مجھ سے ملے، دفتر میں ایک نوکری نکلی ہیں، اگر وہ مقررہ معیار پر پورا اترتا ہے تو اللہ نے چاہا تو اس کا بندوبست ہو جائے گا۔ جی بہتر صاحب بہادر کہہ کر بابا جی اپنے بیٹے کو یہ خبر دینے چلا گیا۔
صبح بابا جی کا بیٹا جس وقت دفتر پہنچا، اس وقت صاحب بہادر کو اپنے ڈپٹی کمشنر کا فون آیا، حکمران جماعت کے ایم این اے صاحب آئے بیٹھے ہیں، کمشنر صاحب کا حکم ہے کہ وہ آپ کی تحصیل والی نوکری ان کے ایک عزیز کو دے دی جائے! لیکن سراُس پہ ابھی صرف درخواستیں آ رہی ہیں، ابھی انٹرویوز ہوں گے پھر جا کر وہ نوکری اس کے حقدار کو ملے گی۔ خود کمشنر صاحب اور ایم این اے صاحب جس کی سفارش کر دیں اس سے بڑا حقدار کون ہوگا اس نوکری کا، ہم لڑکا بھیج رہے ہیں آپ نوکری اس کو دے دیں، درخواستیں اور انٹرویو بعد میں ہوتے رہے گے۔
اُس نے فون نیچے رکھا اور بابا جی کے بیٹے سے کہا جاؤ تمہاری نوکری پکی ہو گئی۔ جب ایم این اے کا رشتہ دار دفتر پہنچا تو اسے کہا گیا کہ آپ اس نوکری کے لئے مقرر کردہ معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں لہذا آپ کو یہ نوکری نہیں دی جا سکتی۔ شام کو بابا جی جھولی اٹھائے اسے دعائیں دے رہے تھے، آپ نے میرے بوڑھے اور نحیف بدن کو لاٹھی بخشی ہے صاحب بہادر، میری دعا ہے کہ آسمان والا کبھی آپ کے قدم نہ لڑکھڑانے دے، آپ کا ماتھا روشن اور دسترخوان ہمیشہ کشادہ رہے۔
دو دن بعد ڈپٹی کمشنر نے اُسے اپنے دفتر میں طلب کر لیا، کمشنر صاحب پوچھ رہے ہیں آپ نے نوکری نہیں کرنی؟ لیکن سر میں تو ریاستِ پاکستان کا ملازم ہوں، کمشنر صاحب کا نہیں! ہاں لیکن آپ کا مستقبل تو اس وقت کمشنر صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ نہیں سر، اگر ایسا ہوتا تو میں کبھی مقابلے کا امتحان پاس کر کے یہاں تک پہنچ ہی نہ پاتا! آپ کو اندازہ بھی ہے کہ کمشنر صاحب آپ کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟ سر ایک انسان کو دنیا میں تین چیزوں کی طلب و حسرت ہوتی ہے، رزق، عزت اور اولاد اور ان تینوں چیزوں کا اختیار اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، کم از کم میں نے قُرآن مجید میں یہی پڑھا ہے، یہ تینوں چیزیں نہ کوئی انسان لے سکتا ہے اور نہ ہی دے سکتا ہے! مگر آپ کی اے سی آر تو ہم لوگوں نے ہی لکھنی ہے ناں؟ سر مگر میرا اعمال نامہ تو آپ لوگوں نے نہیں لکھنا ناں! ٹھیک ہے آپ جا سکتے ہیں۔
وہ گھر واپس پہنچا، بیڈ روم میں جا کر کتاب اٹھائی اور امجد اسلام امجد کی نظم ”سیلف میڈ لوگوں کا المیہ“ پڑھنے بیٹھ گیا۔
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں، بچھنے والے کانٹوں کو
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں۔ کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاوش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا۔ خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو۔ پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج۔ دیر سے نکلتے ہیں
میں نے پہلی بار یہ نظم اسی کی زبانی سُنی تھی۔ جس دور میں ہماری شناسائی ہوئی اُس دور میں پیدا ہونے والے بچے اپنی بلوغت کا سرکاری تصدیق نامہ (شناختی کارڈ) بھی کب کا حاصل کر چکے۔ اُس نے زندگی میں کبھی کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں کیا اور قدرت نے اُسکے ہر بڑے فیصلے میں اُسے ہمیشہ سُرخرو کیا ہے۔ سوابی کا وہ اسسٹنٹ کمشنر آج ایک بہت بڑا افسر ہے، کسی بھی اے سی آر نے آج تک اس کا راستہ نہیں روکا اور بابا جی کا بیٹا آج بھی سوابی میں سرکاری نوکری کر رہا ہے۔